پاکستان زرعی سماج کا حامل ایسا خوش قسمت ملک ہے جسے قدرت نے 79 ملین ہیکٹر قابل کاشت اراضی عطا کی ہے لیکن بڑی بڑی لینڈ ہولڈنگ اور آبی وسائل کی تخلیق میں نا کامی کی وجہ سے ہم 22 ملین ہیکٹر سے زیادہ زمین کاشت نہیں کر سکتے۔ ان سارے معاملات کے باوجود ملکی جی ڈی پی کا 25 فیصد ایگرو سیکٹر دیتا ہے اور ملک بھر کی 43 فیصد لیبر کا معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 61 فیصد لوگ دیہاتوں میں آباد ہیں اور مجموعی طور پہ یہاں کی سترّ فیصد آبادی کے روزگار کا انحصار زراعت پہ ہے۔ بلا شبہ پچھلے چالیس سالوں میں یہاں ایگرو انڈسٹری کی تیز تر افزائش ہوئی، خاص طور پر گندم، چاول، سیڈز، ڈیری، لائیو سٹاک اور فروٹ کے علاوہ فرٹیلائزرز، کاٹن اور کماد کی صنعت کو حیرت انگیز فروغ ملا۔ لیکن شومئی قسمت سے زراعت کے شعبے میں تحقیق اور جدّت طرازی کا عمل سست روی کا شکار رہا اور ہماری ریاست ایگری کلچر کو جدید ترین خطوط پہ استوار کر کے پیداوار اور ریونیو بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ خیبر پختون خوا میں کل 2.75 ملین ہیکٹرز رقبہ قابل کاشت ہے لیکن ہماری کاشتکاری کے دائرے صرف 1.8 ہیکٹر ایریا تک محدود ہیں۔ پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت نے جو چند اچھے کام کئے، ان میں پشار، مردان، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت چار اضلاع میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سر فہرست تھی، اگرچہ یہ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن نہیں بلکہ فقط ڈیٹا انٹری ہی تھی تاہم ابتدائی نوعیت کی اس پیش رفت سے بھی محکمہ مال کے ریکارڈ پہ پٹواری کی حتمی اجارہ داری ختم ہوئی ہے۔ دراصل سرکاری و نجی اراضی کا ریکارڈ حلقہ پٹواری یا پھر ڈسٹرکٹ قانون گو دفتر میں محفوظ ہوتا ہے۔ عام طور پہ پٹواری پہلے اپنے ریکارڈ میں ردّ و بدل کر کے مشترکہ کھاتے کے مالکان کے حقِ ملکیت میں ردّ و بدل کرتا اور پھر ڈسٹرکٹ قانون گو دفتر میں حسب ضابطہ درخواست دے کر اپنے حلقے کا ریکارڈ چیک کرنے کے بہانے وہاں بھی ریکارڈ میں تحریف کر لیتا‘ اور پھر ریکارڈ میں ''سہواً یا اتفاقاً‘‘ ردّ و بدل کی اصلاح کے لئے ''فرد بدل‘‘ بنانے کی خاطر متاثرہ فریق سے با آسانی لاکھوں روپے رشوت بٹورنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ اب چونکہ کمپیوٹر میں ڈیٹا انٹری کی بدولت ریکارڈ میں ردّ و بدل ممکن نہیں رہا‘ اس لئے کسی حد تک لینڈ ریکارڈ پہ پٹواری کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے لیکن محکمہ مال کے فرسودہ نظام کی پیچیدگیوں کے باعث ریونیو کی وصولی اور لینڈ ریکارڈ میں جتنی خرابیاں داخل ہو چکی ہیں، ڈیجٹلائزیشن جیسے پرائمری اقدام سے ان کی مکمل اصلاح ممکن نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ گورنمنٹ ایک ایسا نیا ''بندوبست اراضی‘‘ کرائے جس کی بنیاد روایتی جریب، جھنڈیوں اور پٹواریوں کی بجائے جدید ٹیکنالوجی پہ رکھی جائے، یعنی نئے بندوبست کا انحصار جغرافیکل انفارمیشن سسٹم یا گلوبل پوزیشننگ سسٹم، (Geographical Information System or Global Positioning System) پر ہونا چاہئے۔اس انتہائی اہم کام کے لئے سروے آف پاکستان کی معاونت لی جا سکتی ہے، جس کے پاس ملک کے چپّے چپّے کا مستند ریکارڈ موجود ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کئے جانے والے نئے ''بندوبست اراضی‘‘ کا بنیادی مقصد لینڈ ریکارڈ کے مشترکہ کھاتے کا خاتمہ کرنا ہے جو کہ تمام مسائل کی جڑ اور اس دیوانی مقدمہ بازی کا سر چشمہ ہے جو بالآخر خاندانی دشمنیوں اور تشدد کا سبب بنتی ہے۔ بلا شبہ یہ مشترکہ کھاتہ ہی دراصل سماجی و قانونی نظام میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب اور اس پورے فساد کا اصل محرک ہے‘ جس نے ہمارے معاشرے کو کبھی نہ ختم ہونے والی مقدمہ بازی اور لا متناہی جھگڑوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ ریونیو سسٹم کے ماہرین کا خیال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی وساطت سے اگر لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کر کے ہر شخص کو اپنی ملکیتی اراضی کا الگ کھاتہ نمبر الاٹ کر دیا جائے تو اس سے نوے فیصد دیوانی اور تقریباً ستّر فیصد وہ فوجداری مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے‘ جن کی بنیاد ملکیتِ زمین کا تنازعہ بنتا ہے۔ اگر اصلاحات کے ذریعے اتنی بڑی تعداد میں تنازعات و مقدمات کے بنیادی محرکات پہ کنٹرول کر لیا گیا تو ملکی عدالتوں پہ دیوانی اور فوج داری مقدمات کا کم و بیش اَسّی فیصد بوجھ کم ہو جائے گا۔ صرف اس ایک کام سے نہ صرف حکومتی اخراجات میں بے پناہ کمی آئے گی بلکہ دیہی سماج‘ جو ہر سال اپنی زرعی آمدنی کا ساٹھ فیصد دیوانی اور فوج داری مقدمات پہ خرچ کرتا ہے‘ بھی اپنی محنت مزدوری سے کمائی حلال کی رقم کو ضائع ہونے سے بچا لے گا‘ اور یوں سرکاری بچتیں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور عوامی بچتیں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پہ خرچ ہوں گی۔ یہی پیش رفت ہمارے سماج میں ایسی حیرت انگیز تبدیلیوں کی نوید لائے گی‘ جس سے ہم یہاں مجموعی طور پہ ایک ایسا نارمل اور پُرامن معاشرہ برپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ جس میں ذہنی ارتقا کا عمل سٹریم لائن ہو جائے گا۔ اسی طرح صدیوں پرانی فصلوں کی گرداوری میں بھی چند بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے، جس سے گورنمنٹ کو ریونیو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہمارے گرداوری نظام میں جو نا قابل بیان جمود پایا جاتا ہے‘ اس کی وجہ معمول کے فطری ارتقا سے انحراف ہے۔ دیگر فصلوں کی تو چھوڑیئے ہم یہاں فقط کماد کی فصل کی گرداوری کی مثال دیتے ہیں۔ صرف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی چار شوگر ملز میں ہر سال دس کروڑ من سے زیادہ کماد کرش کیا جاتا ہے، جس کا عشر (پانچ فیصد ٹیکس) تقریباً 95 کروڑ روپے سالانہ بنتا ہے‘ لیکن محکمہ مال کو اس مد میں مجموعی طور پہ کماد سمیت تمام فصلات کی گرداوری سے کل پانچ چھ لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہیں ملتے۔ اس معاملے میں کرپشن اور بد نیتی سے زیادہ ذہنی جمود اور روایتی بے حسی کارفرما ہے۔ گرداوری پہ مامور پٹواری کوئی بڑی قیمت نہیں لیتا۔ وہ تو بڑے زمین داروں سے صرف دو بوری گندم اور ایک وقت کے اچھے کھانے کے عوض چار ہزار کنال پہ کھڑی کماد کی فصل کو نوے فیصد خرابہ لکھ کے صرف دس فیصد پہ معمولی عشر وصول کرنے پہ اکتفا کر لیتا ہے۔
اگر ٹیکس وصولی کے اس فرسودہ نظام میں تھوڑی سی اصلاح کے ذریعے پٹواری کو ترغیب دی جائے تو گورنمنٹ اس چھوٹے صوبے کی زراعت سے اربوں روپے سالانہ کا ریونیو وصول کر سکتی ہے۔ گورنمنٹ اگر وصول کردہ ٹیکس کا پندرہ فیصد محکمہ مال کے اہلکاروں میں تقسیم کرے تو زرعی ریکوری حیران کن حد تک بڑھ سکتی ہے۔ اس پندرہ فیصد میں سے ساڑھے سات فیصد حلقہ پٹواری، ساڑھے تین فیصد قانون گو، دو فیصد تحصیل دار ایک فیصد اسسٹنٹ کمشنر اور ایک فیصد ڈپٹی کمشنر کو دیا جائے تو محکمہ مال کا عملہ سر دھڑ کی بازی لگا کے ریونیو اکٹھا کرے گا۔ زمین کی خرید و فروخت کے معاملے میں بھی محکمہ مال کے عملے کو اسی تناسب سے اگر حصہ دیا جائے تو ہر سال زرعی و کمرشل لینڈ کی کھربوں کی خرید و فروخت سے حکومت کروڑوں کا ٹیکس وصول کر سکتی ہے۔ ٹیکس وصولی کے عمل میں ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنر جیسے افسران کا حصہ ہو گا تو وہ ضرور چیک کریں گے کہ نیچے پٹواری کیسے کام کر رہا۔ حلقہ پٹواری کو علم ہوتا ہے کہ فلاں زمین کی اصل ویلیو کیا ہے لیکن بیچنے اور خریدنے والے فریقین اس کی مٹھی گرم کر کے کروڑوں کا ٹیکس بچا لیتے ہیں۔ اگر انتقالات اور رجسٹری کے عمل میں بھی پٹواری سمیت محکمہ مال کے اہلکاروں کو اسی تناسب سے حصہ ملے تو وہ کسی بھی فروخت کنندہ کو منفی طریقوں سے ٹیکس بچانے کی اجازت نہیں دیں گا۔