کل خیریت دریافت کرنے کیلئے شعیب زمان کا فون آیا۔ میں فون اٹھاتے ہی کہتا ہوں کہ شکریہ بھئی‘ ٹھیک ٹھاک ہوں۔ وہ کہتے ہیں؛ سلامت رہیں اور میں فون بند کر دیتا ہوں کہ کافی سلامت رہ لیا ہے۔ اب اور کب تک سلامت رہوں‘ میں نے سلامت رہنے کا کون سا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ اس کے بعد لندن سے علی ارمان کا فون آیا۔ کہنے لگے ؛میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟ میں نے کہا کہ ناشتہ کر رہا ہوں‘ لیکن کوئی بات نہیں۔ آپ سنائیں کیسے ہیں؟ بولے: کیا ناشتہ کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: یہ بتانا بھی ضروری ہے؟ بولے: پھر بھی؟ میں نے کہا: دو دیسی انڈوں کی سفیدی کا آملیٹ‘ ایک چپاتی‘ دہی اور رات کے بھگوئے ہوئے عبدالواحدی کے سات بادام۔ کہنے لگے: آپ سے بات کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ عمرہ کر لیا۔ میں نے کہا: پہلے تو اس پر اللہ میاں سے معافی مانگیں۔ سوری کہہ کر بتایا کہ ابھی ابھی احمد شاہ سے فون پر بات ہوئی ہے‘ آپ کی طرح وہ بھی ڈٹے ہوئے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔
کل آفتاب کہہ رہے تھے کہ یہ جو موسمبیاں اور کینوں آپ نے ڈیکوریشن کی خاطر چھوڑے ہوئے ہیں‘ انہیں اتروا لینا چاہئے‘ کیونکہ ایک تو یہ نیچر کے خلاف ہے‘ دوسرے پیڑوں پر خواہ مخواہ کا بوجھ بھی۔ علاوہ ازیں‘ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگلے سال ان پر پھل بھی کم آئے گا؛چنانچہ وہ اتروا لیے گئے۔ اس سلسلے کی ایک دلچسپ اناٹومی یہ بھی ہے کہ فارسی میں بار کے دو مطلب ہیں‘ یعنی بوجھ اور پھل؛ چنانچہ پھل درختوں پر ایک بوجھ بھی ہوتے ہیں‘ مناسب وقت پر جن سے پیڑوں کو آزاد کر دینا چاہئے۔میرؔ صاحب کا یہ شعر دیکھیے:
وقت آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سر منصور ہی کا بار آیا
موسمِ بہار کا آغاز ہے اور سب سے پہلے نئے پتے شہتوت کے نکلتے ہیں‘ جو شروع میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جیسے شاخوں کا رنگ سبز ہو گیا ہے‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے اپنا مناسب سائز اختیار کر لیتے ہیں۔ آم کے پیڑوں پر نئے پتے تو کوئی خاص نہیں آتے؛ البتہ کہیں کہیں بور آ جاتا ہے۔
قُمری کے بارے میں (ہمارا) انکشاف یہ ہے کہ جب یہ اُڑان بھرتی ہے تو اس کے پروں سے ایک موسیقی آمیز آواز نکلتی ہے۔ کبوتر کا معاملہ بھی یہی ہے‘ پھر کچھ پرندے‘ خصوصاً قمری اُڑان بھرتے وقت پہلے فضا میں ایک جست بھرتے ہیں اور پھر اپنے پر کھولتے ہیں‘ یعنی معمولی ٹیکسی کرنے کے بعد باقاعدہ ٹیک آف کرتے ہیں۔ کوّا‘ قمریوں کا پکا دشمن ہے اور اس کے انڈے پی جاتا ہے۔ کچھ عرصہ میرے واش روم کے روشن دان میں قمریوں کے جوڑے نے کچھ تنکے جوڑ کر ایک گھونسلا بنا دیا تھا اور اس میں تین چار انڈے بھی دیئے تھے‘ جو کوّے کی نذر ہو گئے۔ اب انہوں نے ایک ایسے پیڑ میںگھونسلا بنایا ہے ‘جس کا نام تو مجھے نہیں آتا‘؛البتہ اس کے پھول بگل نما زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ اس قدر گھنا ہوتا ہے کہ کوّا اس کے اندر نہیں گھس سکتا۔ اگلے روز علی اکبر ناطق تشریف لائے اپنی نظموں کی کتاب 'ریشم بُننا کھیل نہیں‘ یہ لکھ کر پیش کی کہ ''بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر جناب ظفر اقبال کیلئے‘ میں نے کہا کہ اکیسویں صدی بھی تو چل رہی ہے تو وہ بولے کہ وہ میرے لیے رہنے دیں؛ چنانچہ ہم نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکیسویں صدی کو موصوف کے لیے چھوڑ دیا کہ آخر کچھ لوگوں کے لیے ایثار تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ ان کی تین کتابوں'' بے یقین بستیوں میں‘ یاقوت کے ورق اور سرمنڈل کا راجہ‘‘ کا مجموعہ ہے۔ علی اکبر ناطق کی ایک نظم دیکھیے:
ریشم بُننا کھیل نہیں
ہم دھرتی کے پہلے کیڑے ہم دھرتی کا پہلا ماس
دل کے لہو سے سانس ملا کر سُچا نور بناتے ہیں
اپنا آپ ہی کھاتے ہیں اور ریشم بُنتے جاتے ہیں
خواب نگر کی خاموشی اور تنہائی میں پلتے ہیں
صاف مصفا اُجلا ریشم تاریکی میں بُنتے ہیں
کس نے سمجھا کیسے بُنے ہیں چاندی کی کرنوں کے تار
کُنج ِجگر سے کھینچ کے لاتے ہیں ہم نور کے ذرّوں کو
شرماتے ہیں دیکھ کے جن کو نیل گگن کے تارے بھی
ہم کو خبر ہے ان کاموں میں جاں کازیاں ہو جاتا ہے
لیکن فطرت کی مجبوری ہم ریشم کے کیڑوں کی
سُچا ریشم بنتے ہیں اور تار لپٹتے جاتے ہیں
آخر گھٹ کر مر جاتے ہیں ریشم کی دیواروں میں
کوئی ریشم بُن کر دیکھے ‘ریشم بُننا کھیل نہیں
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
پہلے الگ الگ سے منگایا ہے جھوٹ سچ
آپس میں اُس کے بعد ملایا ہے جھوٹ سچ
پوچھا نہیں تھا بھول کے بھی اس نے حالِ دل
مجبور ہو کے اُس کو بتایا ہے جھوٹ سچ
اب تک جہاں سے فیض کسی کو نہیں ملا
ہم نے بھی سر وہیں پہ جھکایا ہے جھوٹ سچ
دلدوز واقعہ جو سُنایا تھا آپ کو
تھوڑا سا فرضی اور بقایا ہے جھوٹ سچ
کیا دوسروں سے ہم کو کفایت کی ہو امید
اپنا بھی بوجھ ہم نے اُٹھایا ہے جھوٹ سچ
اُمید ہے سکون سے گزرے گی زندگی
اُس بیوفا کو ہم نے بھلایا ہے جھوٹ سچ
پہلے تو خوب داد سمیٹی جہاں تہاں
پھر اس کے بعد اپنا مٹایا ہے جھوٹ سچ
نفع و ضرر کا کوئی تناسب نہ تھا‘ ظفرؔ
کھویا تو اصلیت میں ہے‘ پایا ہے جھوٹ سچ
آج کا مقطع
ظفرؔ زمین یہ زرخیر تو نہیں لیکن
خیال و خواب کا پودا اسی میں پلنا ہے