تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-03-2019

مساجد پر حملہ

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعے کے روز خطبہ جمعہ کے بعد مساجد پر ہونے والے حملے نے دنیا بھر کے امن پسند لوگوں بالخصوص مسلمانوں کو دکھ اور کرب کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ جنونی دہشت گرد نے جس انداز میں مسجد میں بیٹھے ہوئے افراد کو گولیوں کے ساتھ چھلنی کیا۔ اس کا تصور کرنے سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ستم بالا ستم یہ کہ اس سارے منظر کو سوشل میڈیا پر لائیو چلایا گیا۔اس درندگی پر مبنی سانحے کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں نہ آ سکے۔ نفرت اورتشدد کی ہر قسم قابل مذمت ہے اور اسلام نے ہمیشہ نفرت اور تشدد کی تمام اقسام کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کوئی زبردستی نہیں دین (کے معاملے ) میں۔‘‘ 
چنانچہ اسلام ایک ایسی ریاست پر یقین رکھتا ہے جس میںبسنے والے تمام شہریوں کے مذہبی حقوق محفوظ ہوں۔ گو اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ آخری دین ہے اور آخرت میں نجات کا واحد ذریعہ ہے‘ لیکن اس کے باوجود دوسرے مذاہب کے پیرو کاروں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کا اسلام نے مکمل حق دیا ہے اور کسی بھی شخص کو بغیر جرم کے قتل کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کو واضح کیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اسی وجہ سے ہم نے لکھ (کر فرض کر) دیا بنی اسرائیل پر (کہ) یہ یقینی بات ہے (کہ) جس نے قتل کیا کسی جان کوبغیر کسی جان (قصاص) کے یا زمین میں فساد مچانے کے تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی کو ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی تو اُسے تو گویا کہ اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کے خون ناحق کی بھی شدید مذمت کی ہے؛ چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر 93میں ارشاد ہوا : ''اور جو قتل کر ڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اُس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ رہے گا ‘اُس میں اور غضب کیا اللہ نے اُس پر اور لعنت کی اُس پر اور تیار کر رکھا ہے اُس کے لیے عذاب۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف عبادت گاہوں کی حرمت کے حوالے سے بھی سورہ حج کی آیت نمبر 40انتہائی اہم اور توجہ طلب ارشاد فرمایا : ''اور اگر نہ ہوتا(نظام) اللہ کا لوگوں کو ہٹا نے کا ان کے بعض کو بعض کے ذریعے (تو) یقینا ڈھا دیے جاتے (راہیوں کے) خلوت خانے اور گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور مسجدیں (کہ) ذکر کیا جاتا ہے‘ ان میں اللہ کے نام کا بہت زیادہ اور یقینا ضرور مدد کرے گا اللہ (اس کی) جو اس کی مدد کرتا ہے‘ بلاشبہ اللہ یقینا بہت طاقت والا خوب غالب ہے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ مساجد میں داخلے اور اللہ کے ذکر سے روکنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت 114نمبر میں ارشاد فرمایا: ''اور کون ہے بڑا ظالم اس سے جو روکے اللہ کی مسجدوں سے کہ ذکر کیا جائے ‘اُن میں اُس کے نام کا اور وہ کوشش کرے‘ اُن کو ویران کرنے کی ۔ایسے لوگوں کے لیے (لائق) نہیں ہے کہ وہ داخل ہوں ان (مساجد) میں‘ مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور اُن کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ 
ان آیات کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں کسی بھی انسان کو بلا جواز قتل کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اسلام مسلمان حکمرانوں کو صرف مسلمانوں سے حسن سلوک کی تلقین نہیں کرتا ‘بلکہ اقلیتوں کو بھی شہری اعتبار سے حقوق دیے گئے ہیں ‘جن کو پامال کرنے کی کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ نبی کریم ﷺمدینہ طیبہ اور اس کے گردو نواح میں میں رہنے والے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ نے اس عورت کو قتل نہیں کیا‘ جس نے آپﷺ کے کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں زہر ملا ہوا بکری کا گوشت لائی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھایا ( لیکن فوراً ہی فرمایا کہ اس میں زہر پڑا ہوا ہے ) پھر جب اسے لایا گیا ( اور اس نے زہر ڈالنے کا اقرار بھی کر لیا ) تو کہا گیا کہ کیوں نہ اسے قتل کر دیا جائے؟لیکن آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں!‘‘۔
جب ہم غیر مسلم دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس بات کو محسوس کر سکتے ہیں کہ مغربی دنیا میں بڑی تعداد میں امن کے حامی لوگ رہتے ہیں اور وہ بالعموم اسلام اور مسلمانوں سے تعصب کا مظاہرہ نہیں کرتے اور ان کو اپنے ملک میں بسنے والے دیگر شہریوں کی طرح ہی سمجھتے ہیں ۔ اس کے برعکس مغرب میں بعض نفرت اور تشدد کے سودا گر بین الامذاہب ہم آہنگی ‘ امن وسلامتی اور بقائے باہمی کی فضا کو تار تار کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے آزماتے رہتے ہیں۔ کچھ برس قبل پادری ٹیری جونز نے امریکہ میں قرآن مجید کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ‘ اسی طرح چارلی ہیبڈو نامی جریدے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ِ اقدس میں گستاخی کی ‘ مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے لیے مختلف طرح کی دستاویزی اور فیچر فلموں کو تیار کیا گیا۔ اسی طرح ماضی قریب میں گیئرٹ ویلڈرز نے نبی کریم ﷺکی ذات اقدس کے حوالے سے توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا ‘جو اُمت مسلمہ کے دباؤ پر ملتوی کرنا پڑا۔ ہالینڈ میں مسلمان مسجدوں کے میناروں پر پابندی عائد کرنے کی تحریک چلائی گئی‘لیکن ماضی قریب میں ہالینڈ ہی میں گیئرٹ ویلڈرز کے دیرینہ ساتھی نے اسلام قبول کرکے اقوام عالم کو شدید حیرانی سے دوچار کر دیا۔ 
اسی طرح فرانس میں مسلمان عورتوں کے حجاب اور نقاب پر پابندی عائد کی گئی ‘جبکہ فرانس اپنے آپ کو جمہوری آزادی کا علمبردار کہتا ہے۔ کچھ برس قبل جرمنی میں مروۃ الشربینی نامی ایک مسلمان عورت کو حجاب کرنے کی وجہ سے ہراساں کیا گیا ‘جب اُس نے عدالت سے رجوع کیا تو ہراساں کرنے والے جرمن متشدد باشندے نے عدالت ہی میں مروۃ الشربینی پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ مروۃ الشربینی کے شوہر نے اس کو بچانے کی کوشش کی جو بارآور نہ ہو سکی۔
نفرت اور تعصب پر مبنی یہ رویے ہر اعتبار سے قابل افسوس ہیں۔ اہل مغرب کو نفرت اور تشدد پر مبنی ان رویوں کے ازالے کے لیے از سرنو غور کرنے کی ضرورت ہے اور گستاخی رسالتؐ اور توہین ِمذہب کو روکنے کے لیے باقاعدہ طور پر قوانین کو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اہل مغرب؛ اگر انسان اور عدالت کی توہین کو روکنے کے لیے قانون سازی کر سکتے ہیں تو اسلام اور رسول کریمﷺ کی ذات اقدس پر ہونے والی توہین کی ناپاک جسارتوں کو روکنے کے لیے بھی قانون سازی کی جانی چاہیے‘ تاکہ نفرت انگیر رویوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب نفرت اور تشدد کا اظہار کسی غیر مسلم کے ساتھ کیا جائے تو جہاں پر اس کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا ملنی چاہیے ‘وہیں پر جب یہ عمل مسلمانوں کے خلاف ہو تو اس کے خلاف بھی مؤثر کاروائی کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ 
نیوزی لینڈ کے سانحے میں ملوث شخص کی اچھے طریقے سے تفتیش ہونی چاہیے اور اگر وہ تنہا اس کاروائی میں ملوث ہو تو اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اگر اس کے پس منظر میں کوئی منظم سازش موجود ہو تو اس کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ ماضی میں جب بھی کبھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو حملے کا نشانہ بنایا گیا تو مسلمان رہنماؤں نے اس حوالے سے مؤثر انداز میںصدائے احتجاج کو بلند کیا اور اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اس موقع مسیحی مذہبی رہنماؤں کو بھی سامنے آ کر کھلے عام اس واقعہ کی مذمت کرنی چاہیے اور ویٹی کن کی سطح پر بھی اس حوالے سے مذمتی بیان آنے چاہئیں‘ تاکہ نفرت او ر تشدد کے سوداگروں کو تنہا کیا جا سکے اور ایسی کارروائیوں میں ملوث ان افراد کو جو دنیا کے امن کو تہہ وبالا کرنا اور تہذیبوں کا تصادم چاہتے ہیں‘ ان کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔ امید کی جاتی ہے کہ مغربی ممالک کی سیاسی قیادت اور مسیحیوں کے مذہبی رہنما اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں گے اور دنیا کو تہذیبوں کے تصادم سے بچانے کے لیے اور امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا پاس کریں گے۔ آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسجد پر حملے کرنے والے ظالموں کو نشان عبرت بنائے ‘شہداء کے درجات بلند فرمائے اور زخمیوں کو شفاء یاب فرمائے۔ گو سانحے میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے یہ صدمہ انتہائی دکھ اورتکلیف کا باعث ہے لیکن اُن کو شہید کی عظمت کے بارے میں صحیح بخاری میں مذکور اس حدیث کو نہیں بھولنا چاہیے حضرت انس بن مالک ؓسے رواہت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ''کوئی بھی اللہ کا بندہ جو مر جائے اور اللہ کے پاس اس کی کچھ بھی نیکی جمع ہو وہ پھر دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا گو اس کی ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ مل جائے‘ مگر شہید پھر دنیا میں آنا چاہتا ہے کہ جب وہ ( اللہ تعالیٰ کے ) یہاں شہادت کی فضیلت کو دیکھے گا تو چاہے گا کہ دنیا میں دوبارہ آئے اور پھر قتل ہو ( اللہ تعالیٰ کے راستے میں ) ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved