آپ نے یہ سوال اکثر سنا ہوگا کہ دنیا میں پہلے مرغی آئی تھی یا انڈہ ؟ بظاہر بچگانہ سوال ہے‘ لیکن درحقیقت بہت بڑی گہرائیاں سمیٹے ہوئے ۔ زندگی کو جیسا ہم سیارہ ٔ ارض پہ دیکھتے ہیں ‘ اس میں مادہ کا اپنے پیٹ میں بچہ دانی لیے ہونا اور پھر نر کا اس مادہ کو حاملہ کرنا ضروری ہے ۔ اس کے بعد جو انڈہ یا بچّہ پیدا ہوتاہے ‘ وہ اپنی نسل بڑھانے کے قابل ہوتاہے ۔آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں ‘ اس پزل کو حل نہیں کر سکتے ‘لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب ہوا کس طرح کہ آج زمین مخلوقات سے بھری پڑی ہے ۔ ایک ایک speciesکے ارکان کی تعداد کروڑوں اور اربوں میں ہے ۔
کیسے کیا خدا نے یہ سب ؟ اس کے بعد آپ اپنے جسم پہ غور کریں ۔ آپ کو بہت سے سوالا ت کا جواب مل جائے گا۔ آپ اپنی تخلیق پہ غور کریں ۔ دل خون کو پورے جسم میں پمپ کر رہا ہے ۔ اگر دل ایسا نہ کرے تو آپ مرجائیں گے ‘لیکن دوسری طرف دل کو خود بھی خون چاہیے؛ اگر اسے خون نہ ملا تو وہ بھی مر جائے گا۔ اب یہاں پر ایک دائرہ ‘ ایک سرکل پیدا ہوتاہے ۔ رحمِ مادر میں بچّے کا دل پہلی دفعہ کب دھڑکتا ہے ؟ اس کا خون کب بنتا ہے ۔ اس سے پہلے کیا ہوتاہے ۔ جواب بچّے کو ماں کے جسم سے گلوکوز اور آکسیجن مل رہی ہوتی ہے ۔ وہ اپنی زندگی کے لیے اپنے نظامِ انہضام سے خون میں گلوکوز سپلائی ہونے کا محتاج نہیں ہوتا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کے جسم سے جو آکسیجن اور گلوکوز بچّے کے جسم میں منتقل ہوتاہے ‘ وہ آگے اس کے ایک ایک خلیے تک کیسے جاتا ہے ؟ظاہر ہے کہ خون ہی کے ذریعے ۔
ماں کے پیٹ میں بچّے کی تخلیق ایک بہت بڑا عجوبہ ہے ۔پہلے تو آپ ایک ہی جیسے سٹیم سیلز سے مختلف قسم کے اعضا کو بنتا ہوا دیکھتے ہیں ۔ان سٹیم سیلز پر تیزی سے کام جاری ہے اور لیبارٹری میں ان سے مختلف اعضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایک دن آئے گا‘ جب انسان کی کٹی ہوئی ٹانگ اور ٹوٹا ہوا دانت دوبارہ اُگا لیا جائے گا ۔
بچّے کو ماں کے پیٹ میں آکسیجن اور گلوکوزتو ملتا ہی ہے ‘ آپ یہ دیکھیں کہ ماں کے جسم میں وہ تمام nervesبھی موجود ہوتی ہیں ‘ جن کے ذریعے بالآخر بچّے کو اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے ماں کے جسم سے باہر نکلنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ اگر آپ بچّے کی پیدائش سے لے کر ایک سورج کی پیدائش تک دیکھیں تو ہر چیز تدریج میں پیدا ہوتی ہے ۔ ایک ایک خلیہ اور ایک ایک عضو۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایکدم کوئی چیز تخلیق ہو جائے ۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ پہلا جاندار کیسے بنا تھا ؟ اگر بن بھی گیا تو اس کا جوڑا کیسے بنا اور ان دونوں کی اولاد کیسے پیدا ہوئی ۔ یہ وہ علم ہے کہ جسے حاصل کرنے کے لیے دنیا کی ساری دولت لٹائی جا سکتی ہے ؛ اگر آپ کو موقعہ ملے کہ آپ ایک ارب برس پہلے ‘ پہلے جاندار کو بنتا ہوا دیکھیں ‘ پھر اس کاجوڑا اور ان کی اولاد پیداہوتے دیکھیں تو آپ اس کی کیا قیمت لگائیں گے؟
دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے علم۔ آپ یہ دیکھیں کہ انسان اربوں ڈالر لگا کر خلا میں ہبل جیسی دوربین بھجوا رہا ہے ۔ راکٹ اڑا کر خلائی جہاز‘ روبوٹس اور مشینیںدوسرے سیاروں پہ اتارنے کی کوشش کرر ہا ہے ۔ کیوریاسٹی جیسی لیبارٹری نما گاڑی ؛اگر مریخ پہ اتاری گئی ہے اور وہ اس کی مٹی اور چٹانوں کا تجزیہ کر تی پھر رہی ہے‘ تو یہ سب کچھ علم اور تجسس ہی کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ وہاں سے فوری طور پر کوئی بھی مالی فائدہ ملنے کی امید نہیں ہے‘ بلکہ ان مہمات پہ بڑے عظیم اخراجات ہوتے ہیں ‘ جو کہ انسان برداشت کر رہا ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ ہزاروں سالہ پرانی چیزیں سونے کے دام فروخت کی جاتی ہیں۔ ان کی قدامت ہی ان کی قدر و قیمت کی بنیاد بنتی ہے‘ ورنہ ایک ٹوٹے اور گلے ہوئے سکے میں ایسی کیا بات ہے کہ اسے کروڑوں روپوں میں خریدا جائے ۔ پرانی تہذیبوں کے ایک ایک برتن کی قیمت کروڑوں روپے میں لگتی ہے ۔ آج؛ اگر یہ بات سامنے آئے کہ کیمرہ پچاس ہزار سال پہلے بھی موجود تھا اور اس کیمرے کی بنی ہوئی ایک ویڈیو فروخت کے لیے پیش کی جائے تو امریکہ‘ روس‘ یورپ ‘ جاپان اور چین والے ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسی صرف ایک وڈیو حاصل کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر دیں گے ۔
جب ہم ماں کے پیٹ میں بچّے کی پیدائش دیکھتے ہیں اور جب ہم کہکشائوں میں سورجوں کی پیدائش دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ خدا کی طرف سے ہر چیز مکمل ہدایات کے ایک سیٹ کے ذریعے بتدریج پیدا ہوتی ہے ‘لیکن جب آپ سوچتے ہیں کہ دنیا میں پہلا نر کیسے بنا تھا اور پہلی مادہ کیسے وجود میں آئی تھی ۔ پہلے نر بنا یا مادہ ؟ ان دونوں کے جسموں میں کیسے اپنے آپ کو لافانی کرنے کی خواہش کے نتیجے میں بچّہ پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تو دماغ بھک سے اڑ جاتاہے ۔ یہ وہ علم ہے ‘ جسے حاصل کرنے کے لیے ہر قیمت ادا کی جا سکتی ہے ۔
سوال یہ تو یہ پیدا ہوتاہے اور جس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں سائنسدان ہزاروں سالوں سے تحقیق پہ جتے ہیں کہ پہلا زندہ خلیہ کیسے پیدا ہوا تھا۔ اس میں پیدائشی طور پر اپنی موت سے قبل ہی دو میں تقسیم ہونے کی صلاحیت کیسے رکھی گئی ۔
یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ زمین پر زندگی پیدا کرنے سے قبل اس زمین کو اور جانداروں کے اپنے جسموں کو life sustain کرنے کے قابل بنایا گیا۔ جسم میں دل ہے ‘ خون ہے ‘ خون کی نالیاں ہیں ‘ دماغ سے ہدایات کی ترسیل کے لیے nervesہیں ۔ امیون سسٹم ہے ۔ ان میں سے کسی بھی چیز کو نکال دیں‘ جاندار مر جائے گا‘ لیکن جب بچّہ تخلیق ہو رہا ہوتاہے ‘ اس وقت یہ سب چیزیں کیسے باری بار ی functional ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت کیسے دل اپنے مخصوص وقت پہ دھڑکنا شروع کرتاہے ۔ کیسے دماغ سب سے پہلے بنتا ہے اور دل سمیت سب اعضا کو متحرک کرنے کے احکامات کے ساتھ پیدا ہوتاہے ۔
وہ خدا عظیم ہے ‘ جس نے پہلا زندہ خلیہ بنایا ۔ اسے زندہ رہنے کے قابل بنایا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ پھر ان دونوں کی اولاد کو پوری زمین میں پھیلا دیا۔ آج ہم اس وقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے ‘ صرف اندازہ ہی کیا جا سکتاہے کہ جب پہلا کثیر خلوی جاندار اس زمین میں پیدا ہوا اور جب اس کے جسم سے ہی ا س کا جوڑا تخلیق کیا گیا تو وہ کیسا منظر ہوگا۔
نشانیاں ہر طرف ہیں ‘ جن سے کچھ نہ کچھ سراغ لگ سکتاہے ۔ بے جان اور جاندار چیزوں میں ۔ جانداروں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا ہونے میں ۔ انسان اوردوسرے پرائمیٹس‘ میملز اورریپٹائلز کے موازنے میں ۔ زمین کے life sustainکرنے میں ۔زمین کی مٹی کے life sustainکرنے میں ۔ ہزاروں سالہ تحقیق کے نتیجے میں ایک چیز یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کروڑوں برس پیچھے جا کر پرائمیٹس‘ میملز‘ ریپٹائلز اور پرندے ‘ سب ایک تھے اور وہ ایک کون تھا؟ وہ پہلا خلیہ تھا ‘ جس سے خدا نے زمین پہ زندگی کا آغاز کیا تھا !
پہلے مرغی آئی تھی اور نہ انڈہ؟پہلے ایک واحد خلیہ آیا تھا !