تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-03-2019

روگ

ہر آدمی اور ہر گروہ کی قدر و قیمت اس کے اپنے ہنر کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ اٹل اصول ہے ۔ بے قابو ‘ بے مہار خواہشات میں‘ ان کی وحشت میں اکثر یہ بھلا دیا جاتا ہے ‘ کب تک؟ مگر کب تک ؟
مقبولیت یا نا مقبولیت کا مسئلہ نہیں ‘اس حکومت کا روگ اور ہے ۔ علاج اس کا درکار ہے‘ معیشت کے تقاضوں کا ادراک اور نہ سیاست کا۔عمران خان کی مقبولیت بڑھ گئی ہے ۔ سروے کہتا ہے۔ یہ بھی کہتا ہے کہ حکومت کی‘ مگر حکومت اور پی ٹی آئی کیا ہے؟ ایک آدمی کا نام ہے۔ بس ایک آدمی کا۔ باقی ''شامل باجا‘‘ ہیں۔یہ بات وہ خود بھی جانتا ہے۔ پارٹی کے لیڈر ‘ کارکن اور عوام بھی۔ پہلی بات یہ ہے کہ سروے چار ماہ پہلے ہی ہوا تھا۔ دوسری بات یہ کہ آغازِ کار کسی بھی حکومت کو عام لوگ مہلت دینے کے حق میں ہوتے ہیں۔ اس وقت یوں بھی جنگی صورتِ حال ہے۔ تیسرے یہ کہ سروے سب میں نہیں‘ صرف نوجوانوں میں ہوا۔ ظاہر ہے کہ ان کے لیے پی ٹی آئی قابلِ قبول زیادہ ہے۔
الیکشن 2013ء میں دھاندلی کے خلاف‘ اگست2014 ء کو عمران خان لاہور سے نکلے ۔ سات ‘ آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ نہ تھے‘ اعلان ملین مارچ کا۔لاہور شہر کی سڑکوں پر خان صاحب گھومتے رہے کہ شاید برف کا گو لا بنے اور بڑھے‘ مگر نہ بڑھا۔ ماڈل ٹائون کے زخم خوردہ علامہ طاہر القادری کے مریدین اس کے علاوہ تھے‘ قدرے زیادہ۔ کچھ لوگ چوہدریوں نے بھیجے‘ چند سو۔ کچھ روپیہ بھی انہوں نے صرف کیا تھا۔ پسِ پردہ پانچ اہم شخصیات کی تائید بھی شامل تھی‘ مگر ‘ مگر؎
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہِ خوں نہ نکلا
یوں بھی پاکستانی معاشرے کا مزاج مختلف ہے۔ خواہ وہ آصف علی زرداری ہی کیوںنہ ہوں‘ کم ازکم دواڑھائی سال دینے کو وہ تیار رہتے ہیں۔ یہی قاعدے کی اور قرینے کی بات ہے۔ عام لوگ عملیت پسند ہوتے ہیں۔جبلّی طور پر وہ جانتے ہیں کہ روز روز کی اکھاڑ پچھاڑ تباہ کن ہوتی ہے۔
دھرنے کے لیے وسائل کا فقدان تھا اور نہ نفسیاتی تائید کا۔ گلوکوز کے ٹیکے ہر روز لگائے جاتے۔ مظاہرین کے لیے امید کی مشعلیں ہر روز روشن کی جاتیں۔ پشت پناہی پیہم برقرار رہی۔ دن رات ‘ تمام چینل براہ راست‘ چٹخارے دار تقاریر سنایا کرتے۔ اس کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ دھرنا پتلا ہوتا گیا؛ حتیٰ کہ آرمی پبلک سکول کے سانحے کو جواز بنا کر لپیٹ دینا پڑا۔ شرمندہ اور خجل ‘پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی ایوان میں پہنچے۔ خواجہ آصف نے ایسے توہین آمیز ''خیر مقدمی‘‘ خطاب کیا۔ اپوزیشن کی چیخ و پکار سے دیواریں لرزتیں‘ مگر چپ سادھے وہ سنتے رہے‘ سربہ گریباں!
ضعف میں طعنۂِ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
سرحد پہ دشمن کھڑا ہو تو حکومت کو اٹھا پھینکنے کی وحشت سیاسی حریف میں بھی کم ہو جاتی ہے۔1863ء میں امریکی خانہ جنگی کے ہنگام ابرہام لنکن نے کہا :دریا میں گھوڑے تبدیل نہیں کئے جاتے...اور دوسری بار منتخب ہو گیا۔ جنوب میں اس کی مخالفت بہت تھی‘ شمال میں بھی سب کے سب اس کے حامی نہ تھے۔ کالوںکی آزادی کا وہ علم بردار تھا اور امریکی زرعی معیشت کا بہت کچھ انحصار انہی پر تھا۔ 
عمران خان کی مقبولیت برقرار رہے گی‘ جب تک بھارت کے انتخابی نتائج نہیں آ جاتے۔ پھر حالات کا انحصار ‘اس پر ہوگاکہ مود ی ظفر مند ہوتے ہیں‘ ان کی سب سے بڑی حریف کانگرس یا پھر ایک بڑا حصہ علاقائی پارٹیاں چھین لے جاتی ہیں۔ 
جنگی ماحول باقی رہا تو اسلام آباد کی قبولیت میں کمی نہ آئے گی۔ آئے گی تو برائے نام۔ ممکن ہے اسٹیبلشمنٹ میں بھی تبدیلی نہ آسکے‘ توسیع مل جائے۔ ابھی سے جس کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
یہ مگر یاد رہے کہ کسی بھی اور چیز سے زیادہ آخری انحصار حکمران کی کارکردگی اور صلاحیت پہ ہوتا ہے۔
امن و امان کی صورت حال کیسی ہے؟ جان و مال کیا محفوظ ہیںیا نہیں؟ بے روزگاری کے زخم شمار کئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟مہنگائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے یا معمول کی دھیمی رفتار سے؟ ملازمتیں پید اہو رہی ہیں تو کتنی؟ اپوزیشن کے تیور کیا ہیں؟ ہمہ وقت خود کو وہ خطرے میں پاتی ہے یا بچ نکلنے کا کوئی امکان بھی دکھائی دیتا ہے؟ شاید ‘شاید!
حادثہ ہو جائے تو یکا یک بھی خلق کے دل بدل جایا کرتے ہیں۔ 
ہوتے ہوتے ہنگامہ رہ گیا۔ ایک حماقت اور ایک آدمی کی وجہ سے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ملاقاتیوں کی فہرست بھی گاہے وزیراعظم کو جاتی ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تنخواہوں میں تین گنا اضافے کی اطلاع کیوں نہ دی گئی ۔ ایک اخبار نویس نے بزدار صاحب سے کہا کہ فلاں اور فلاں سے انہیں ملنا چاہیے۔ آمادہ تھے کہ اس میں بھلا ئی نہیں تو برائی بھی کیا۔ کسی نے بتایا کہ اسلام آباد نے منع کردیا''کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔
ایاز امیر سے کہ خود بھی صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے‘ ایک وعدہ کیا تھا۔یہ کہ پولی تھین پر پابندی لگا دی جائے گی اور فوراً ہی۔ ''یہ تو کوئی بات ہی نہیں ‘‘۔ اسلام آباد والوں نے غالباً اب کی بار بھی یہی کہا...''کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
ارکان اسمبلی‘ وزراء اور وزیراعلیٰ کی مراعات میں اضافے پہ غور و خوض کا آغاز ہوا تو بزدار صاحب نے مسوّدہ دیکھنے کی فرمائش کی۔ ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ تین بار انہوں نے پڑھا۔ مشورہ بھی کسی دانا سے کیا ہوگا۔ اس لئے کہ جو کچھ انہوں نے تجویز کیا‘ وہ وزارتِ اعلیٰ سے زیادہ‘ وزارتِ عظمیٰ اور صدارت کے منصب کو سزا وار تھا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ عمر بھر کے لیے‘ لاہور میں ایک شاندار رہائش گاہ۔ گھریلو ملازمین‘ ایک بڑی اور ایک بہت بڑی گاڑی۔ درویش صفت صدر رفیق تارڑ مستفید ہو رہے ہیں۔ پیرِ کامّل‘ فقیرِ بے نواصدر ممنون حسین استفادہ فرما رہے ہیں۔ دو عدد درویش دریا سے فیض یاب ہیں تو‘ تیسرا کیوں نہ ہو۔ 
سرکاری ترجمان نے ٹی وی میزبانوں سے کہا : دکھائو ‘ کہاں ذکر ہے‘ ایسی عنایات کا؟ ایک لفظ تک نہیں‘ کہیں کوئی تذکرہ تک نہیں۔سنی سنائی باتوں پہ سنسنی کیوں پھیلاتے ہو۔ کہانیاں کیوں گھڑتے ہو۔ انصاف سے بات کیا کرو‘ انصاف سے۔
جی ہاں! کہیں بھی ذکر نہیں۔ ایک لفظ ‘ لفظ کیا اشارہ تک نہیں۔ 
وہ ایک پیراگراف تھا‘ جو چوہدری پرویز الٰہی مدظلہ العالی نے حذف کر دیا۔
ایوان کے ضابطۂ کار کی دفعہ 200 کے تحت انہیں اختیار حاصل ہے۔ مسوّدہ قانون میں غلطی ہو تو اصلاح فرما سکتے ہیں۔ 
برق رفتاری سے اصلاح انہوں نے کر دی۔ ''ٹائپ‘‘ کی غلطی نکال پھینکی۔ اس لئے کہ خبر نشر ہوتے ہی‘ ردّ عمل کا طوفان تھا ۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے وزیراعلیٰ کا دفاع کرنے سے انکار کر دیا‘ جن سے وہ آشنا ہی نہیں۔ وزرائے کرام اور پارٹی کے رہنمائوں نے بھی۔ سوشل میڈیا پہ یلغار یک طرفہ تھی۔ دوسری طرف ایک مہیب سناٹا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے تاویل کرنے کی کوشش کی ''تنخواہ نہ بڑھائیں تو مڈل کلاس الیکشن نہ لڑے گی‘‘... انہوں نے کہا۔ چند گھنٹے کے بعد کہا: ''تنخواہیں بڑھا کر طے شدہ پالیسی کا مذاق اڑایا گیا‘‘۔
اس اثنا میں وزیراعظم سے ان کی بات ہوئی تھی۔ امڈتے طوفان سے عمران خان خوب آگاہ تھے۔
ہر آدمی اور ہر گروہ کی قدر و قیمت اس کے اپنے ہنر کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ اٹل اصول ہے ۔ بے قابو ‘ بے مہار خواہشات میں‘ ان کی وحشت میں اکثر یہ بھلا دیا جاتا ہے ‘ کب تک؟ مگر کب تک ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved