عرفان سعید مجھے بتا رہا تھا کہ مری آباد میں صرف ہزارہ ہی آباد ہیں، وہی ہزارہ جن کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور وہ خون جما دینے والی سردی میں اپنی لاشیں لے کر علمدار روڈ پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ان کی بے مثال استقامت کے سامنے نواب اسلم رئیسانی کی حکومت چھتیس گھنٹے بھی نہ ٹھہر سکی اور یوں گری جیسے کوئی نظر سے گر جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد مری آباد میں داخلے کے تمام راستوں پر فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ناکے لگے ہیں جہاں کھڑے اہلکاروں پر اپنی نیک نیتی ثابت کیے بغیر کوئی اس علاقے میں نہیں جا سکتا، خاص طور پر اندھیرا ہونے کے بعد۔ کوئٹہ میں رات اتر رہی تھی، سو ہماری گاڑی بھی اس ناکے پر روک لی گئی۔ عرفان نے اپنا تعارف کرایا تو آگے جانے کی اجازت ملی۔ میرے لیے حیران کن تھا کہ دکانوں پر لگے بورڈ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی لکھے گئے ہیں۔ ہر طرف چھوٹی آنکھوں اور ناک کی مخصوص بناوٹ والے ہزارہ نظر آنے لگے۔ ایک لمحے کو یوں محسوس ہوا کہ کسی وسط ایشیائی شہر میں گھوم رہے ہیں۔ نجانے کتنی گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک ایسی گلی میں آ نکلے جو پہاڑ پر چڑھ رہی تھی۔ چڑھائی کے عین درمیان میں ایک مکان کے سامنے گاڑی رکی اور عرفان نے بتایا کہ ہم خالق داد ہزارہ کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ بڑے صحن سے گزرنے کے بعد ہم ایسے کمرے میں داخل ہوئے جہاں فرشی نشست کا بندوبست تھا اور درمیانی عمر کا خالق داد ہزارہ آنکھوں میں شرارتی سی چمک لیے ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑا تھا۔ وہ کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے امیدوار ہے۔ ایک مخصوص علاقے میں ہزارہ والوں کی تعداد اور اجتماعی طور پر ووٹ ڈالنے کی عادت کی بنیاد پر خالق داد ہزارہ کا خیال ہے کہ اس نشست کا حصول بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔ اسے فکر تھی تو بس یہ کہ اس کی برادری کے ووٹ کاٹنے کے لیے مجلس وحدت المسلمین بھی میدان میں اتر آئی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ شیعہ علما کی سرپرستی میں چلنے والی یہ تنظیم ہزارہ برادری کے مذہبی جذبات جگا کر اپنا کام نکالنے کی کوشش کرے گی۔ میں نے کہا: ’اگر وہ مذہبی جذبات جگا رہے ہیں تو تم نسلی بنیاد پر کام نکال رہے ہو۔ شہر میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جائے گا تو کہیں رکے گا نہیں‘۔ اس سوال کا جواب خالق ہزارہ کے پاس نہیں تھا لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ ہے کہ اگر شہر میں کہیں انتخابی گہماگہمی نظر آتی ہے تو صرف مری آباد میں، وہ مری آباد جہاں داخلے سے پہلے تلاشی دینا پڑتی ہے۔ کوئٹہ شہر گلابوں کا شہر ہے اور پھر بہار کے موسم میں تو ہر طرف گلاب ہی گلاب دکھائی دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ گلاب سے بچ جانے والی جگہ پر یونہی کچھ پھول لگا لیتے ہیں جن کا مقصد شاید یہ ہے کہ دوسرے پھولوں کے مقابلے میں گلاب کی عظمت ثابت کی جا سکے۔ گلا ب کے مقابلے میں دوسرے پھولوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ رویہ عام زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ خالق داد ہزارہ کی طرح شہر میں رہنے والا ہر شخص اپنی اور اپنے جیسوں کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے خود کو گلاب قرار دیتا ہے لیکن کیاری کی خوبصورتی کے لیے کچھ ’دوسرے پھولوں‘ کو بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ ہزارہ کا خیال ہے کہ انہیں ایک سازش کے ذریعے کاروبار سے نکالا گیا ہے اور اب وہ اپنے علاقوں تک محدود ہو کر ترقی سے محروم ہو رہے ہیں۔ پشتونوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اب ایک پشتون اکثریتی شہر ہے اس لیے نہ صرف کوئٹہ بلکہ صوبے کا نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے ان کی آواز سنی جانی ضروری ہے۔ بلوچ احتجاج کرتے ہیں کہ صوبے کے وسائل پر اصل حق ان کا ہے لیکن وہی سب سے محروم ہیں۔ کوئٹہ میں اگر کوئی آواز نہیں اٹھاتا تو وہ پنجابی اور اردو بولنے والا آبادکار ہے۔ پاکستان کا یہ خوبصورت ترین شہر نسلی و مذہبی تقسیم کی راہ پر چلا جا رہا ہے۔ کسی سڑک کے مغرب میں کون رہتا ہے اور مشرق میں کسے رہنا چاہیے، کہاں سے گزرتے ہوئے کس سے بچنا ہے اور کس وقت کس جگہ پر موجود نہیں ہونا، یہ سب کچھ اس شہر کے لوگوں کو معلوم ہے۔ کچھ گہرے زخموں نے ہزارہ کو اپنے آپ تک محدود کر دیا ہے تو تفاخر کے ایک موہوم احساس نے پشتونوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اپنے نامعلوم حقوق کا غم بلوچ کو کھائے جا رہا ہے تو عدم تحفظ کے مارے ہوئے آبادکار ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اپنے اپنے غموں کے بوجھ تلے سسکتے ہوئے ان لوگوں کی پہلی امید پاکستان پیپلز پارٹی تھی اور اب واحد امید مسلم لیگ ن ہے۔ بلوچ، پشتون، پنجابی یا ہزارہ نواز شریف کا ایک ایک لفظ غور سے سنتے ہیں اور اس کے مطابق خود کو سیاسی طور پر ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس دن ہم کوئٹہ پہنچے اسی دن نواز شریف مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر ثناء اللہ زہری کے گاؤں اجیرہ میں ان کے بھائی، بھتیجے اور بیٹے کی فاتحہ کے لیے گئے تھے۔ ایک غیرمحفوظ تصور کیے جانے والے علاقے میں قومی سطح کے رہنما کی آمد پر صوبے کی ہر سیاسی پارٹی کا کارکن خوش تھا کہ کوئی تو ہے جو انہیں اپنا جانتا ہے۔ گلابوں کے ا س شہر کی ایک خوبی بڑی دلچسپ ہے۔ یہاں کا ہر بچہ اردو، فارسی، پشتو اور بلوچی بولتا ہے۔ یہی انداز یہاں کے سیاسی کارکنوں کا بھی ہے۔ جمعے کی شام مسلم لیگ ن کے انوارالحق کاکڑ کے عشائیے میں شہر بھر کے سارے سیاستدان، مجیب الرحمٰن شامی اور الطاف حسن قریشی سے ملنے کے لیے چلے آئے۔ یوں تو مجلس میں اردو ہی بولی جاتی رہی لیکن میں نے دیکھا کہ رخصت کرتے ہوئے انوارالحق بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے جہانزیب جمالدینی سے بلوچی میں بات کر رہے ہیں، پھر یکایک جہانزیب نے پاس کھڑے خالق داد پر فارسی میں کچھ جملے کسے اور خالق داد ہزارہ کسی مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے انوارالحق کاکڑ کا نقطہ نظر پشتو میں معلوم کر رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ہزارہ ٹاؤن والے دفتر کی دیوار پر لگا ایک کلاک یاد آ گیا۔ کسی غیرسرکاری تنظیم کی طرف سے تقسیم کیے جانے والے اس کلاک میں ایک سے گیارہ تک کے ہندسوں کے ساتھ بلوچستان میں کام کرنے والی تمام سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے لگے تھے اور بارہ کے ہندسے پر قرآن رکھنے والی ایک رحل بنی تھی۔ کلاک پر ایک بجے تو اس کی چھوٹی سوئی پیپلز پارٹی کے جھنڈے پر آ جاتی ہے اور اگر نو بجیں تو مسلم لیگ ن کے جھنڈے پر۔ مجھے لگا یہ دیوارگیر گھڑی بلوچستان کی سیاست کی بہترین تصویر ہے۔ ہر پارٹی اپنے اپنے وقت کے انتظار میں الیکشن کے کلاک پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ کسی کا وقت گزر چکا ہے اور کسی کا آنے والا ہے۔کوئی وقت کی دھول ہونے کو ہے اور کوئی گلاب کا پھول!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved