تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     19-03-2019

استاد‘ تعلیم اور تبدیلی

کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے دوسرے عوامل کے علاوہ تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسی تعلیم جس کے ذریعے افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئے اور اس تبدیلی کی جھلک معاشرے میں بھی دکھائی دے ۔ تعلیم کو ایک موثر معاشرتی قوت میں بدلنے کے لیے استاد کا کردار سب سے اہم ہے ‘یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستان میں تربیت اساتذہ کے پروگرامز کی تاریخ بہت پرانی ہے‘ جس میں جے وی‘ایس وی‘بی ٹی‘بی ایڈ‘ایم ایڈ کے پروگرام پیش کیے جاتے رہے۔کچھ عرصہ پیشتر دو محققین وارک(Warick)اور ریمر((Reimerنے تربیتِ اسا تذہ کے پروگرامز پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ٹیچر سرٹیفکیٹ پروگرامز‘ جن کا مقصد تدریس میں بہتری لانا ہے‘ کا چار میں سے تین Achievements Tests سے کوئی تعلق ہی نہیں اور ایک کے ساتھ کمزور ساتعلق ہے۔ اس تحقیق نے پاکستان میں تربیتِ اساتذہ کے پروگرامزکی اثرپذیری کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے۔
تربیتِ اساتذہ کے جامع تصور میں ایک استاد میں تین سطح پر تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ علم‘ طریقۂ تدریس اور رویے کی سطحیں ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز کا جائزہ لیں تو پورا روز طریقۂ تدریس پر ہوتا ہے۔ روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے ان پروگرامز میں اساتذہ میں اچھے استاد اور اچھی تدریس کی خوبیوں پر مشتمل فہرستیںاساتذہ میں اس مفروضے پر تقسیم کی جاتی ہیں کہ انہیںپڑھ کر وہ بھی اپنی تدریس کو بہتر بنا لیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اس ماڈل میں استادKnowledge Producer کے بجائے ‘محض Consumer of Knowledge کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے حوالے سے جتنے نظریات پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے‘ وہ جن ممالک سے درآمد کیے گئے ہیں‘ ان کے کمرئہ جماعت کا ماحول اور مسائل ہمارے اپنے تعلیمی مسائل سے یکسر مختلف ہیں۔ سواس طرح استاد جب کمر ئہ جماعت میں پڑھانے کے لیے جا تاہے تو وہ پڑھائے جانے والے مواد کو کمرئہ جماعت کے ماحول سے بالکل مختلف پاتا ہے اور بمشکل ہی اس سے کوئی تعلق قائم کر پا تاہے ۔ شرکائے کورس کو کم ہی ایسے مواقع میسر آتے ہیں کہ وہ سکول کے مجموعی ماحول سے متعلق تنقیدی نظر سے فیصلہ سازی کرنے کے قابل ہو سکیں ۔ نتیجتاً اساتذہ کے ہاتھ میں ایک جامد اور متعین شدہ تدریس کا ماڈل تھما دیا جاتاہے ۔ اس طرح تبدیلی کے عمل میں پڑھانے والوں کے خیالات اور کلاس کی عملی صورت میں فرق رکاوٹ بن کر سامنے آجاتے ہیں ۔ ایک روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے کورس میں بمشکل ہی تدریس اور تحقیق میںکوئی تعلق قائم کرنے کی کو شش کی جاتی ہے ‘ جس کی بنا پر اساتذہ نصاب میںکوئی جدت لا سکتے ہوں۔ اور اس طرح مختلف ورکشاپس کے ذریعے اس خیال کو اور زیادہ مضبوط کیا جا تاہے کہ استاد کی حیثیت تعلیمی نظام میں مشین میںلگے ایک چھو ٹے سے پرزے کی طرح ہے ۔ 
اگرچہ سکول میں تبدیلی لانا ایک پیچیدہ سا معاملہ ہے لیکن تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں اس بات کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے کہ ایسا کیا جاسکتاہے ۔ بعض بنیادی تصورات مثلاًتبدیلی ایک سست رو عمل ہے‘ اس پر کم ہی بحث کی جاتی ہے ۔تعلیمِ اساتذہ کے اداروں میں تبدیلی کے عمل کو خطرات سے دو چار کردینے والا ایک اہم عنصر تبدیلی کے عمل کو مکمل اور جامع تبدیلی کے طور پر نہ سمجھنا ہے ۔ تعلیم ِاساتذہ کے اداروں کو ایسے کورسز بھی پڑھانے کی ضرورت ہے جن میں وہ سربراہِ ادارہ‘ اساتذہ‘ منتظمین اور دیگر Stakeholders کو ایک ساتھ بٹھا سکیں۔ ایک کامیاب تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے لیے فالواپ کے مؤثر نظام کا ہونا بہت ضروری خیال کیا جاتاہے ۔ عام طور پر تعلیمِ اساتذہ کے کو رسز میں اساتذہ کو تنہائی کے جزیرے میں چھو ڑدیا جا تاہے ۔ فالواپ کا نظام نہ صرف نگرانی بلکہ اساتذہ کو مدد فراہم کرنے میں بھی مفید ہو تاہے ۔ 
دیرپا تبدیلی کے لیے صدر معلم کا کردار بہت اہم ہے ۔ اگر ہم ادارے کے سربراہ کو تبدیلی کے عمل کا حصہ بنا لیں تو کامیابی کے امکانات بڑھ جا ئیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں کم ہی ایسا ہو تاہے کہ صدر معلم کے خیالات کو جگہ دی جائے ۔ اس کا بالآخرنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صدر معلم سکول کی سطح پر لائی جانے والی تبدیلیوں اوران اساتذہ کو جو اس تبدیلی کے لئے کام کرنے کے خواہاں ہو تے ہیں ‘ کم ہی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اس طرح تبدیلی کے لئے اٹھائے جانے والے بہت سے مفید اقدامات جن پران سے مشاورت نہ کی گئی ہو‘ صدر معلم کے آمرانہ نقطہ نظر کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ صدر معلمین کے لیے ایسے کورسز کی دستیابی بھی بہت کم ہے‘ جہاں پر انہیں اختیارات کی منتقلی ‘ سربراہ ادارہ سے متعلقہ مسائل وغیرہ کے حوالے سے تربیت دی جا سکے‘ جس کی بنیاد پر وہ دیرپا تعلیمی تبدیلی کے لیے اقدامات اٹھاسکیں۔ 
تبدیلی کے ضمن میں طاقتور عنصر نصاب کا ہے۔ پاکستان میں نصاب سازی قو می سطح پر کی جاتی ہے اور اساتذہ ا س کونافذ کرنے والے ہوتے ہیں۔ زیادہ ترسکولوں میں درسی کتب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اساتذہ اور انتظامیہ کی پوری توجہ Courseکو مقررہ وقت میں ختم کرنے پر ہوتی ہے لہٰذا بہت سے اساتذہ تبدیلی کے عمل سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی پابندیوں کی وجہ سے تبدیلی نہیں لا سکتے۔ زیادہ تر سکولوں میں سربراہان کا جائزہ سکول کے نتائج کی بنیاد پر ہوتاہے ۔ اسی بنا پر سربراہ ادارہ امتحانی نتائج کو ہی اہمیت دیتاہے ۔ اسی طرح کسی بھی استاد کا جائزہ اس کی کلا س کے نتائج کی بنیاد پرہوتاہے ۔ والدین کی توقعات اس سے مختلف نہیں ہو تیں۔ اس طرح طلبہ ‘ والدین ‘ سربراہ ادارہ اور رفقائے کار کا دبائو کسی بھی استاد کو تدریس کے دوران جدت اختیار کرنے سے روک دیتا ہے‘ اگر چہ وہ اس کے لیے کتنا ہی پرجوش کیوں نہ ہو۔
تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامات کو نظریہ) (Theory اور عمل (Practice) میں توازن قائم کرنے کی کو شش کرنی چاہیے ۔ سکولوں کا معائنہ ‘ کلا س روم کا تدریسی مشاہدہ ‘ جماعتی تدریسی‘ انفرادی تدریس‘ پڑھانے سے پہلے اور بعد کی ملاقاتیں نظری چیزوں کو عمل میں لانے کی چند تجاویز میں Teaching Practiceکو محض ایک رسمی سی کارروائی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے سوچ بچار پر مبنی سرگرمی کے طور پر قبول کیا جائے۔ شرکائے کورس کو براہ راست کلاس میں پڑھانے کی بجائے پہلے سکول ‘ کلا س روم ‘ طلبہ اور اساتذہ سے شناسائی حاصل کر لینی چاہیے۔ باقاعدہ تدریس سے پہلے اس طرح کی ابتدائی سرگرمیاں اساتذہ کو تدریس میں مدد فراہم کر سکتی ہیں ۔ 
تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامز میں ایک اہم چیز تنقیدی سوچCritical Thinkingکی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پورے تعلیمی پروگرام میں اساتذہ کو ایسے مواقع فراہم کئے جائیں کہ وہ طریقۂ تعلیم اور کورس پر تنقیدی انداز میں لکھ سکیں اور ان کے متبادل پیش کر سکیں۔ یوں سیکھنے کا ایک مسلسل نظام تشکیل پا جا ئے گا۔ اس طرح تنقیدی خیالات نہ صرف ذاتی زندگی بلکہ سکول کی زندگی میں تبدیلی لانے کا باعث بن سکیں گے۔ تعلیمی اداروں میں تبدیلی کے لیے ہمیں استاد کے کردارکا ازسرِ نو تعین کرنا ہو گا۔ ان کا یہ نیا کر دار نہ صرف انہیں سوچ بچار اختیار کرنے والا عملی مدرس(Reflective Practitioner)بلکہ تعلیمی نظام کو بہتر کرنے اورجماعت کے اندر اپنی کار کر دگی بڑھانے والا استاد بنا دے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved