کسی بھی معاملے میں بے ضمیری ثابت کرنے کے لیے انسان کئی طریقے اختیار کرسکتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس کی مشکلات میں‘ کسی جواز کے بغیر‘ غیر معمولی اضافہ کیا جائے۔ ایسے ہی دوسرے بہت سے طریقے بھی ہیں مگر شاید سفّاک ترین اور ارذل ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی سانحے میں بڑے پیمانے کے جانی نقصان پر مسرّت کا اظہار کیا جائے!
نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر حملوں میں 49 افراد کی شہادت پر بھارت کے انتہا پسندوں نے جو ردعمل ظاہر کیا‘ وہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انسان جب نفرت کی آگ میں جلتا ہے‘ تب کسی بھی حد سے گزر سکتا ہے‘ کسی بھی سطح تک گر سکتا ہے۔ بھارت کے موقر ترین اخبار ٹائمز آف انڈیا کے ویب پورٹل پر نیوزی لینڈ کے سانحے کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر پر جو تبصرے شائع ہوئے ہیں‘ اُن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انتہا پسندی کی راہ پر چلتے ہوئے انسان کہاں سے کہاں جا نکلتا ہے اور کس طور اپنی تمام تہذیبی اقدار کو بھی یکسر نظر انداز کر بیٹھتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے سانحے نے دنیا بھر میں سوگ کی لہر دوڑادی ہے۔ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس قتلِ عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوامِ عالم سے اپیل کی ہے کہ ایک دوسرے کو قبول کرنے کی روش پر گامزن رہتے ہوئے بھرپور صبر و تحمل اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جائے۔ نیوزی لینڈ کی مساجد میں جس دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیا‘ اُس پر بھارت کے انتہا پسند شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی بے شرمی سے شادیانے بجارہے ہیں۔ درجنوں افراد نے اس سانحے پر جو ردعمل ظاہر کیا اُس نے شرم‘ غیرت اور انسانیت سمیت تمام ہی اقدار کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ تبصرے کے نام پر سب اپنے باطن کی ساری غلاظت منظر عام پر لانے پر تُل گئے۔ ٹائمز آف انڈیا کے ویب پورٹل کی انتظامیہ نے یہ دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ لوگ تبصرے کے نام پر کیا کیا لکھ رہے ہیں‘ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کس کس طرح زہر اُگل رہے ہیں۔ ویب پورٹل سے انتہائی نازیبا ریمارکس ہٹانے کا سوچا بھی نہیں گیا؛ اگر اظہارِ رائے کی آزادی ‘اسی کو کہتے ہیں ایسی آزادی پر صرف لعنت بھیجی جاسکتی ہے۔
بالا کوٹ پر حملے کے بعد بھارت کو جیسی بھرپور ہزیمت اٹھانا پڑی ہے‘ اُس نے پوری قوم کا مورال گرادیا ہے۔ پاکستان سے چھیڑ خانی کا جو نتیجہ برآمد ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔ اس کے نتیجے میں بھارتی انتہا پسندوں کی گردنیں جھک گئیں۔ پاکستان کے ہاتھوں دو طیارون کا گرایا جانا اور پائلٹ کا گرفتار ہو جانا قدرت کا تازیانہ تھا۔ اس صورتِ حال سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی طرزِ فکر و عمل پر نظر ثانی لازم تھی‘ مگر اس کی بجائے بھارتی انتہا پسند مزید بِھنّاکر حماقت بالائے حماقت کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ انسان جب بے حِسی کو اپنے لیے بنیادی قدر قرار دے اور ضمیر کو بہت حد تک موت کی نیند سُلادے تو کیا ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ آپ کو ٹائمز آف انڈیا کے ویب پورٹل پر تبصرے پڑھ کر ہوگا۔ ان تبصروں کو پڑھ کر آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کے حوالے سے بھارتی قیادت اور فوج کے منہ پر جو جُوتا پڑا تھا‘ اُس کا غم غلط کرنے میں سانحۂ کرائسٹ چرچ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے! آئیے‘ ان تبصروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:۔
نیرج شرما : ''گڈ جاب‘ برینٹن ٹیرنٹ! تم نے تو کام ہی ایسا کیا ہے کہ دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔‘‘
پنکج سنگھ : ''تمام مسائل کی جڑ مسلمان ہیں؛ اگر یہ ختم ہوجائیں‘ تو یہ دنیا رہنے کے قابل ہوجائے گی۔‘‘
گوتم ریڈی : ''تمام مسلمانوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا اور سوچنا چاہیے کہ آخر کیا سبب ہے کہ انہیں دنیا کے ہر گوشے اور حصے میں مسائل کا سامنا ہے۔ کوئی تو ایسی بات ہوگی جو خرابیاں پیدا کرتی ہوگی۔ مسلمانوں کو وہ بات اپنے اندر سے نکال دینی چاہیے۔‘‘
کرنل (ر) میتھائس : ''آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے باشندے امن پسند ہیں۔ مسلمانوں نے دونوں معاشروں کو اپنے جرائم سے تباہ کردیا ہے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی اجنبی معاشرے میں گھل مل کر نہیں رہتے اور مقامی قوانین پر عمل کرنے کی بجائے شرعی قوانین نافذ کرنے کے غم میں گُھلتے رہتے ہیں۔‘‘
تھامس کورین : ''آج صبح صبح اچھی خبر سُننے کو ملی؛ اگر دس گنا زیادہ ہلاکتیں ہوتیں تو اور مزا آتا۔ اس دنیا کی اصل بیماری مسلمان ہیں۔ بہر حال‘ بالا کوٹ حملے کے بعد ایک بہت اچھی خبر ملی ہے۔ میرے آسٹریلوی ہیرو‘ شاباش!‘‘۔
آشش کمار : ''نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے مارے جانے کا جشن ہم بریانی کھاکر منائیں گے۔ اچھا ہے کہ ''امن کا مذہب‘‘ اب اپنا بویا ہوا کاٹ رہا ہے‘ مزا چکھ رہا ہے۔‘‘
پرساد رمیش جوشی : ''مہذب دنیا (!) نے بالآخر بالکل درست ردعمل کا اظہار کرہی ڈالا۔‘‘
دنیش : ''ایک سفید فام باشندہ اپنے لوگوں کو دہشت گردوںکے ہاتھوں مرتے دیکھ کر انتہائی مشتعل ہوا‘ پھر اس نے انتقام لینے کی ٹھانی‘ جو کچھ برینٹن ٹیرنٹ نے کیا‘ وہ انتقامی عمل تھا۔ اسے دہشت گردی نہ کہا جائے۔‘‘
''نموہ نَمہ‘‘ : ''کسی اور معاملے میں تو پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا‘ مگر ہاں‘ اتنا ضرور یقینی ہے کہ تیسری عالمی جنگ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوگی۔‘‘
رام ونے شرما : ''معاملات کی درستی کے حوالے سے برینٹن ٹیرنٹ نے ایسا مثالی کام کیا ہے‘ جو دوسروں کو بھی کرنا ہی چاہیے۔‘‘
اروند جین : ''مسلمانوں کو ہر معاملے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ان کو تہذیب اور دنیا داری سیکھائی جائے۔ کیا اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی چھتری تلے کوئی عالمی مذاہب کانفرنس ہوگی؟‘‘۔
پردیپ کمار مشرا : ''جو کچھ نیوزی لینڈ میں ہوا کچھ کچھ ویسا ہی بہت جلد چین میں بھی ہوکر ہی رہے گا۔‘‘ انتہا پسند‘ بنیاد پرست اور دہشت گرد ہر مذہب میں موجود ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے صرف اسلام اور مسلمانوں کو نشانے پر رکھنا ایسی روش ہے‘ جو ساری دنیا کے لوگوں کی سمجھ میں آگئی ہے۔ نائن الیون کے ذریعے امریکا نے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف جو جنگ چھیڑی ‘وہ اب اُس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف بدگمانی اور نفرت کے بیج بوئے گئے ہیں‘ جس کے نتیجے میں اسلامو فوبیا کا پودا تناور درخت بن چکا ہے۔ کوئی مسلمان دہشت گردی کرے تو ابتدائی ردعمل ہی میں اُسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہاں‘ کوئی گورا ایسا کرے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض ہے اور محض جذباتی یا مشتعل ہوکر یہ عمل کر گزرا ہے! ترک صدر رجب طیب اردوان نے مغربی معاشروں میں اسلام سے نفرت کو کینسر قرار دیا ہے۔ متعدد مغربی قائدین نے بھی کچھ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے نزدیک اسلام سے نفرت کا رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ مغرب کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار بھی اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے حوالے سے بے بنیاد تصورات پھیلاکر اسلامو فوبیا کو اتنا پروان چڑھادیا گیا ہے کہ کئی معاشروں کا تانا بانا ہی خطرے میں پڑگئی ہے۔
اسلام سمیت کوئی بھی مذہب بنیادی طور پر کسی بھی انسان سے نفرت سکھاتا ہے‘ نہ دوسروں کے سانحے پر خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے‘ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے غدّار ہیں اور ہر مہذّب انسان کو اُن پر لعنت بھیجنی چاہیے۔