تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-03-2019

موجودہ سیاسی صورتِ حال

ملک کی سیاسی صورتِ حال کیا ہے ؟ کون کہاں کھڑا ہے ؟شریف خاندان کا مستقبل کیا ہے ؟ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اپنی مدت مکمل کرے گی؟ 
مذکورہ سوالات کا جواب دینے سے پہلے ایک نظر موجودہ سیاسی منظر نامے پر ڈالیے۔ نواز شریف ‘ چند سال پہلے تک جنہیں انتخابی سیاست سے بے دخل کرنا ایک ناممکن بات لگتی تھی ‘ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں نا اہل ہو گئے ۔ اس نا اہلی سے پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر پنامہ لیکس کے متعلق ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے پے درپے پیشیوں کے نتیجے میں میڈیاکے ذریعے عوام نے یہ نوٹ کیا کہ نواز شریف کے پاس اپنی بیرونِ ملک جائیدادوں کی کوئی وضاحت نہیں تھی ۔ ان جائیدادوں کو خریدنے کیلئے کتنا سرمایہ کس ملکی بینک اکائونٹ سے کس غیر ملکی اکائونٹ میں کب منتقل کیا گیا‘ اس کا کوئی ثبوت تھا ہی نہیں تو پیش کہا ں سے کیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک سٹیج پر آکر قطری خط جیسا تماشہ کرنا پڑا۔ 
2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی پشت پر یہ خیال کارفرما تھا کہ جنرل مشرف کے خیال میں وہ عوام کو اس قدر شاندار اقتصادی ترقی کا تحفہ دینے جا رہے تھے ‘ جس کے بعد میڈیا اور عوام میں انہیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہو جاتی ۔مشرف حکومت کی کارکردگی تھی‘ بھی مثالی۔ اس کے ساتھ ساتھ کرپٹ اور نا اہل حکومتیں کرنے والی پیپلزپارٹی اور نون لیگ تحلیل ہو جاتیں ‘ لیکن ہوا اس کے برعکس ‘ مشرف کو جانا پڑا اور اس کی وجہ مکمل امریکی حمایت کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عوامی غم و غصہ تھا۔ دوسری طرف 2009ء سے مشرف کے خلاف چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک اور زرداری دور میں اس کی کامیابی سے عدالتیں طاقتور ہو چکی تھیں۔سوشل میڈیا نے بھی ایک نئی جہت روشناس کرا دی تھی ‘ جس میں راز چھپانا مشکل تھا۔عالمی سطح پر پنامہ لیکس اور وکی لیکس جیسے راز فاش ہوئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار ہونے کے نتیجے میں سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک غیر ملکی بینک اکائونٹس کی تفصیلات جاری کرنا شروع ہو گئے۔ حکومتوں کے درمیان معاہدے ہو رہے تھے ‘ جس کے تحت کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کی بیرونِ ملک جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرسکتا تھا۔ یہ وہ حالات تھے کہ جب 90ء کی دہائی میں نواز شریف لندن فلیٹس خرید رہے تھے‘ تو ان کے فرشتوں کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر تبدیل ہو جائیں گے ۔
نواز شریف نا اہل تو ہوئے‘ لیکن شریف خاندان کے بیانات میں عظیم تضادات نمایاں ہونے کے بعد ؛ اگر تو سپریم کورٹ کا بنچ جے آئی ٹی بنانے کی بجائے پہلے ہی انہیں نا اہل کر دیتا تو عوامی سطح پر ردّ عمل شدید ہوتا‘ لیکن جے آئی ٹی ‘ جس کے بننے پر نون لیگ نے خوشیاں منائی تھیں‘ اس میں پے درپے تضادات آشکار ہونے کے نتیجے میں عوامی ردّعمل کے غبارے میں سے بھی ہوا نکل گئی ۔ عبرت کامقام یہ تھا کہ نواز شریف نا اہل ہوئے ‘ پھر احتساب عدالت سے انہیں سزا ہوئی ‘ لیکن اس کے خلاف کوئی بھی عوامی ردّعمل دیکھنے میں نہ آیا ۔ 
آج صورتِ حال یہ ہے کہ نوازشریف نیب کے ایک ریفرنس میں سزا پا چکے ہیں ۔ اپیلیں اور طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواستیں چل رہی ہیں ۔ یہاں یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ نواز شریف کو کوئی جان لیوا بیماری نہیں‘ ورنہ حکومت کے ہاتھ پائوں پھولے ہوتے۔ جیل میں ڈاکٹر ان کا معائنہ کرتے رہتے ہیں ۔ صرف اتنا ہے کہ عمران خان کی حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے انہوں نے دل کے ہسپتال جانے سے انکار کر رکھا ہے ۔ 
یا تو نواز شریف میں اتنا دم خم ہوتا کہ جس طرح عمران خان نے مشرف کی جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کر دی تھی‘ تو وہ اس قدر بھوک برداشت کر نے کا فیصلہ کرتے ‘ جو لوگ نواز شریف کو جانتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہے کہ ان میں اتنا کس بل کہاں اور وہ بھی اس عمر میں۔وہ ہمیشہ کے سہل کوش تھے ۔مرنے کو توایک نوجوان بھی اچانک دل کے دورے سے مر سکتاہے‘ لیکن 99.9فیصد کیسز میں ایسا نہیں ہوتا ۔ نواز شریف کو کوئی مہلک بیماری لاحق نہیں ۔ ایک طرف نواز شریف دل کے ہسپتال نہ جا کر وزیر اعظم عمران خان پر دبائو ڈال رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کہتے ہیں کہ مودی سے بات کرلوں گا‘ ملک لوٹنے والوں کو این آر او نہیں دوں گا۔ میری رائے میں وزیر اعظم عمران خان ‘نواز شریف کے اعصاب توڑنے کے لیے یہ بات کر رہے ہیں ۔ این آر او نواز شریف نے مانگا تو وہ دے دیں گے ‘لیکن منتیں کروا کے ۔ نواز شریف کے معافی مانگ کر بیرونِ ملک جانے کی صورت میں سراسر حکومت کا فائدہ ہوگا ‘ جبکہ نواز شریف کی سیاست زیرو ہو جائے گی ۔ 
دوسری طرف زرداری کے خلاف حکومت اور دوسرے اداروں کی تفتیش تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ 20مارچ کو عدالت نے انہیں طلب کر رکھا ہے ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ مل کر سیاسی انتقام کا شور مچارہے ہیں۔ اصل وجہ یہی تھی کہ بلاول نواز شریف سے ملنے جیل گئے ۔ دوسری طرف زرداری اینڈ کو کے خلاف جعلی بینک اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے ثبوت بے تحاشا ہیں ۔ اصل میں زرداری اینڈ کو نے جب بھی کرپشن کی تو ننگی چٹی ۔ وہ چھپانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کرتے؛ اگر ان پر ہاتھ ڈالا جائے تو سیاسی انتقام کی سیاست کرتے ہیں ۔ ایان علی کس کے پانچ لاکھ ڈالر لے جا رہی تھی ؟ سندھ کابینہ نے دبئی میں کتنی خفیہ سر مایہ کاری کر رکھی ہے ‘ یہ بھی ایک اوپن سیکرٹ ہے اور یہ ساری جائیدادیں جلد سامنے آجائیں گی ۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو دور دور تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔ زرداری اور نواز شریف پانچ پانچ سال کی انتہائی بے کار حکومت کرنے کی وجہ سے ویسے بھی اپنی اہمیت کھو چکے ۔ملکی قرض چھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر تیس ہزار ارب روپے ہو چکا ہے ۔ یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ تھی کہ نواز شریف کی نا اہلی اور قید پر کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ؛ اگر انہوں نے ایک مقبول حکومت کرتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کیا ہوتا تو لوگ اس طرح سڑکوں پہ نکلتے ‘ جیسے طیب اردوان کے لیے نکلتے ہیں ۔ یہی وہ حالات ہیں ‘ جن میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ چاہے مل کر احتجاج کریں ‘ کچھ بھی ہونے والا نہیں ۔ سکیورٹی اداروں کی تائید بھی حکومت کے ساتھ ہے ۔ عوام ابھی وزیر اعظم عمران خان کو کم از کم دو سال دینا چاہتے ہیں ۔ 
صورتِ حال کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر زرداری خاندان کو منی لانڈرنگ میں سزا ہو جاتی ہے ‘ جس کے امکانات روشن ہیںتو پھر بچے گا کوئی نہیں۔حکومت کی نیت تو واضح ہے ۔ جب وزیر اعظم کی بہن کو بیرونِ ملک جائیداد ظاہر نہ کرنے پر ایف بی آر کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا ؛ اگر علیم خان ہی گرفتار ہو گئے تو پھر ظاہر ہے کہ بچے گا کوئی بھی نہیں ۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ایک ایسے طوفان کی طرح ہے ‘ جس نے مفلوک الحال ملک میں خوشحال اشرافیہ کے چھوٹے چھوٹے جزیروں کو اجاڑ ڈالنا ہے ۔ آنے والے برسوں میں نیب سمیت سب ادارے طاقتور ہو تے چلے جائیں گے۔ہو سکتاہے کہ ملک کو مکمل سول ملٹری ہم آہنگی کے دس سے پندرہ سال میسر آئیں اور اس دوران سب کچھ بدل کے رہ جائے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved