عام انتخابات‘ قوم کی حالت اس کمزور خاتون کی طرح کر دیتے ہیں‘ جو بچے کو جنم دینے والی ہو۔ اعضا ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ پیدائش کے درد اور تکلیف کو سہنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے ۔ اسقاط کا عمل خطرے میں پڑ جاتا ہے اور کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پیدائش خیروعافیت سے ہو جائے گی یا اس کے دوران ہی کوئی المیہ ہو جائے گا۔ یہ المیہ ہمارے ساتھ ہو چکا ہے۔ آزادی کے پورے 24 سال بعد‘ پاکستان کو عام انتخابات نصیب ہوئے تھے۔ بھارت نے عرصہ پہلے منصوبہ تیار کر لیا تھا کہ انتخابات کا وقت بہت نازک اور بحرانی ہو گا کیونکہ تضادات اور نااہل حکومتوں کی بدولت یہ نو آزاد ملک ایک نئی قوم تشکیل دینے کے تجربے میں ناکامی کا شکار ہو چکا تھا۔ عوام کے مابین باہمی اعتماد اور یکجہتی کا سوال مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں نے پس پشت ڈال دیا تھا ۔فوجی اور سول حکومتوںنے پاکستان کے مخصوص جغرافیائی حالات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور اس دوران مغربی پاکستان کے حکمرانوں اور مشرقی پاکستان کے عوام میں شدید تضادات پیدا ہو چکے تھے اور مغربی پاکستان کے حکمران طبقے‘ بنگالی عوام کے مطالبات اور خواہشوں کو سمجھنے اور پوراکرنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ بھارت کے سٹریٹجک ماہرین کو اندازہ تھا کہ 24سال کی باہمی رنجشیںملک کے دونوں بازوئوں کے درمیان بدگمانیوں کو پروان چڑھا چکی ہیں اور باہمی اعتماد کا وہ رشتہ موجود نہیں رہ گیا‘ جو انتخابی جھٹکوں کو برداشت کر سکے۔ اس وقت بھارت نے نہ صرف مشرقی پاکستان کی مقبول قیادت کے ساتھ اپنے رابطے مضبوط کئے بلکہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو حل کرنے پر ناکامی کی صورت میں پیدا ہونے والے بحران کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد کے لئے الیکشن سے پہلے تیاریاں کر لی گئیں۔ مثلاً بھارتی بنگال میں‘ مشرقی پاکستان کے باغی نوجوانوں کو گوریلا تربیت دینے کے انتظامات کر لئے گئے۔ بدامنی کی صورتحال میں جلا وطن ہونے والی ایک بڑی آبادی کو پناہ دینے کے انتظامات بھی کر لئے گئے تھے۔ یہاں تک کہ متوقع مہاجرین کو رکھنے کے لئے کیمپوں کی جگہوں کی نشاندہی بھی کر لی گئی اور مطلوبہ سامان کا انتظام بھی کر کے رکھ لیا گیا۔ کولکتہ کے نزدیک ایسا ریسٹ ہائوس بھی تیارکر لیا گیا‘ جہاں فوجی کارروائی سے بچنے کی خاطر بھاگنے والی منتخب قیادت کی مناسب میزبانی کی جا سکے۔ بھارتی افواج کو مشرقی پاکستان میں کارروائی کے لئے جنگی پلان تیار کرنے کا منصوبہ بھی دے دیا گیا تھا‘ جو پاکستان کے انتخابی نتائج آنے تک عملدرآمد کی حالت میں آ چکا تھا اور جب بھارتی توقعات کے عین مطابق یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا‘ تو بھارت ہر طرح کی تیاریاں مکمل کر چکا تھا اور اس کے بعد سب کچھ اسی طرح سے ہوا‘ جس کی تیاری کی گئی تھی۔ یہاں واقعات گزرنے کے بعد ہر کوئی یہ دعوے کرنے لگتا ہے کہ اس نے یحییٰ آمریت کو فوجی کارروائی سے روکا تھا۔ ان دعوے داروں میں وہ لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں‘ جو شیخ مجیب کو غدار اور عوامی لیگ کی قیادت کو مٹا دینے کے مطالبے کر رہے تھے اور یہاں ایسا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کے حق میں بات کرنا بھی جرم تھا۔ میں نے اس وقت لکھا تھا کہ شیخ مجیب کو اقتدار بلاتاخیر غیرمشروط طور پر منتقل کر دیا جائے۔ وہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اس کے حق دار ہیں۔ میں نے یہ بھی یاددلایا کہ شیخ مجیب نے روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے لئے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے الیکشن سے پہلے 1970ء میں کہا تھا کہ اگر وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو پورے ملک کے وزیراعظم ہوں گے اور کوئی وزیراعظم اتنا پاگل نہیں ہوتا کہ جس ملک کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ داریاں اس پر ہوں‘ وہ اسی کو توڑنے کی سازش کرے۔شیخ مجیب کے الفاظ تھے کہ ’’میں پاگل ہوںکہ اسی ملک کو آدھا کرنے کی کوشش کروں‘ جہاں پورے کا پورا ملک میرے پاس ہو؟‘‘میں نے فروری 1970 ء کے ویکلی ’’شہاب‘‘ میں ایک مضمون میں لکھا ’’اگر بحران کا سیاسی حل نہیں نکلتا‘ تو حکومت شیخ مجیب کے سپرد کر دی جائے۔ کوئی حکمران اتنا پاگل نہیں ہوتا کہ اپنے ہی وطن کے خلاف سازش کرے (یہ مجیب کی بات تھی) اور اگرشیخ مجیب واقعی علیحدگی پر تلے ہوئے ہیں‘ تو ہمیں مصر اور شام کی طرح صلح صفائی کے ساتھ الگ ہو جانا چاہیے۔ یہ جدائی خون بہائے بغیر ہو گی‘ تو ہم دوبارہ اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ یاد رہے یہ تحریر شائع ہونے سے چند ہی برس قبل مصر اور شام نے باہمی الحاق کیا تھا۔ جسے کامیابی سے نہیں چلایا جا سکا اور دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے دوبارہ علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر کے‘ امن اور صلح صفائی کے ساتھ اپنی اپنی آزادی و خودمختاری بحال کر لی تھی۔ میرا یہ مضمون شائع ہونے پر پنجاب میں اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ٹکا خان نے مجھے پنجاب اسمبلی میں قائم‘ اپنے ہیڈکوارٹر میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ملاقات میں شدید دھمکیاں دیں اور ان کے اس وقت کے سیکرٹری کیپٹن ارشد کے بقول جنرل صاحب نے میری فائل پر لکھا کہ ’’یہ شخص محب وطن نہیں ہے‘‘ اور پھر محب وطنوں نے ڈھاکہ پر فوج کشی کر کے پاکستان بچا لیا۔ میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ قیاس کرنا غیرمناسب نہیں سمجھتا کہ بھارت اور اس کے ساتھ عالمی طاقتوں نے پاکستان میں بعدازانتخابات پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر یقینی طور پر کچھ نہ کچھ منصوبے بنائے ہوں گے اور اگر کسی ملک نے متوقع پیش آمدہ حالات کا سامنا کرنے کے لئے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا ہو گا‘ تو وہ صرف پاکستان ہے۔ مجھے درپردہ حقائق کا علم نہیں۔ لیکن جو صورتحال بظاہر دکھائی دے رہی ہے‘ اس میں بلوچستان‘ کراچی‘ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقے غیریقینی حالات سے دوچار ہیں۔ کراچی میں موجود مسلح قوتیں بہت زیادہ منظم اور تربیت یافتہ ہیں۔ ان کے بیرونی رابطے یقینی طور پر موجود ہیں۔ وہاں القاعدہ کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں انتخابات ابھی تک مشکوک نظر آ رہے ہیں۔ قوم پرستوں میں سے جو لوگ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں‘ ان کے خلاف مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ ثناء اللہ زہری کا آدھا خاندان شہید ہو گیا۔ اختر مینگل مسلسل شکایت کر رہے ہیں کہ دہشت گرد اور ایجنسیاں دونوں ہی‘ ان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔ آج پھر خبر ہے کہ اے این پی کے ایک انتخابی اجتماع پر حملہ کیا گیا۔ کوئی دن نہیں جاتا‘ جب اے این پی کے کسی لیڈر یا امیدوار کو شہید نہ کیا جاتا ہو۔ تحریک طالبان پاکستان باضابطہ یہ اعلان کر چکی ہے کہ ’’جمہوریت غیراسلامی ہے اور اس کے تحت ہونے والے انتخابات کو روکنے کے لئے ہم مسلح کارروائیاں کریں گے۔‘‘ اس سے پہلے وہ تین لبرل جماعتوں کے نام لے کر دھمکی دے چکے ہیں کہ ان جماعتوں کی انتخابی مہم کو متاثر کرنے کے لئے‘ وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کریں گے۔ جن تین جماعتوں کا انہوں نے نام لیا‘ ان میں سے دو کے امیدوار قتل کئے جا چکے ہیں اور جس تیسری جماعت یعنی پیپلزپارٹی کا نام لیا گیا تھا‘ اس کی انتخابی مہم بہت ہی سست اور بے دلی سے چلائی جا رہی ہے۔ کوئی بڑا لیڈر انتخابی مہم میں عملاً حصہ نہیں لے رہا۔ بلاول بھٹو زرداری سے امید لگائی گئی تھی۔ اب ان کے لئے خطرہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ عام جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہونا‘واقعی ان کے لئے انتہائی خطرناک ہو چکا ہے۔ پرویزمشرف نے کارگل میں بے نام فوجی کارروائی کر کے ہرچند احمقانہ مہم جوئی کی تھی لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہر بار اسی طرح کی حماقت کریں۔ عین ممکن ہے انہوں نے انتخابات سے عین پہلے واپسی کا فیصلہ کسی سہارے یا امکانی حادثے کے پیش نظر کیا ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ فوج کا ادارہ پرویزمشرف کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اطمینان محسوس کر رہا ہو گا۔ جو لوگ جال میں پھنسے ہوئے ایک بے بس شکار کو تکلیف میں دیکھ کر مزے لے رہے ہیں‘ مجھے ان کے مزے دیرپا نہیں لگتے۔ سوال اٹھے گا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ایسا کوئی بھی وقت نہیں ہوتا‘ جس میں آنے والے دنوں کے لئے کچھ نہ کیا جا سکے۔ درجنوں آپشنز ہوتی ہیں۔ فی الحال حکومت انتخابات سے پہلے ان میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو مدعو کرے اور ان کے سامنے مشرف کا معاملہ رکھ کر‘ اسے حل کرنے کیلئے متفقہ تجاویز حاصل کرے۔ تمام سیاسی رہنمائوں کو ایجنسیوں کی رپورٹوں کی روشنی میں داخلی اور اندرونی خطروں سے آگاہ کر کے‘ ان سے تجاویز حاصل کرے۔ قدرت کوئی نہ کوئی راستہ ضرور دکھا دے گی۔ لیکن موجودہ صورتحال میں بے لگام انتخابی مہم اور آنے والے حالات سے نمٹنے کے لئے کسی متفقہ امکانی لائحہ عمل کے بغیر‘ انتخابی نتائج سیاسی کشمکش کو تیز اور بے قابو کر سکتے ہیں۔ابھی لوگ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ نتائج میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ ضروری نہیں سب کی توقعات پوری ہو جائیں۔ مجھے ایسی کوئی قیادت نظر نہیں آ رہی‘ جو انتخابات میں مایوسی کو حوصلہ مندی سے ہضم کر جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved