تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     20-03-2019

سروے اور ’’تبدیلی‘‘

پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کا کہنا تھا:میں عوامی آدمی ہوں(عوام کے جذبات وخواہشات کو بخوبی سمجھتا ہوں)اس لیے ان ''سرویز‘‘پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ ٹاک شو میں انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ (IRI)کا سروے زیر بحث تھا۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے اس امریکن ادارے کا شمار‘ان عالمی اداروں میں ہوتا ہے‘ جو اس حوالے سے خاص اعتبار اور ساکھ کے حامل ہیں۔ پاکستان میں احمد بلال محبوب کے پلڈاٹ اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ بھی ان ہی میں شمار ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیںکہ ''رائے عامہ ‘‘ کو ''متاثر ‘‘کرنے کے لیے خانہ ساز اداروں کی خانہ ساز سروے رپورٹس بھی تیار (اور شائع) کروائی جاتی ہیں‘ لیکن آئی آر آئی‘ گیلپ اور پلڈاٹ جیسے اداروں کو اپنی ساکھ‘ کسی بھی اور چیز سے عزیز تر ہوتی ہے (کہا جاتا ہے‘ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی ان اداروں کی رپورٹس کو بہت اہمیت دیتی تھیں)؛ اگرچہ عالمی شہرت یافتہ ان اداروں کی رپورٹس کے بارے میں بھی بعض پڑھے لکھے لوگ خاص تحفظات رکھتے ہیں۔ہمارے دوست‘ پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد جناب شبیر احمد خان بھی ان ہی میں شامل ہیں۔ ان کے بقول:ان سرویز میں اصل بات یہ نہیں ہوتی کہ ''جواب‘‘ کیا ہے؟ بلکہ اصل چیز ''سوال‘‘ہوتاہے۔ یہ سوال ''Open ended‘‘ بھی ہوسکتے ہیں‘(جن کے ایک سے زیادہ جوابات ہوں) او ر ان میں جو جواب ''مطلوب‘‘ ہو‘ اسے رپور ٹ کا حصہ بنالیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی یہ سوال کرے کہ آپ اب اپنی بیوی پر تشدد تو نہیں کرتے؟ اور جواب ''ناں‘‘ میں ہوتواس کایہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ میں''اب‘‘ تشدد نہیں کرتا‘ پہلے کرتا تھا۔ شبیر احمد خاں کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں ہائر ایجوکیشن کے دوران ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر سے سرویز کے بارے میں 2کورس پڑھے ‘ کہ یہ کیسے کنڈکٹ کئے جاتے ہیں؟ ان میں کیا تکنیک استعمال کی جاتی ہے؟اس میں یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ سوسائٹی کے کسی طبقے سے او رکس علاقے میں انٹرویو کئے گئے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ شادی شدہ زندگی کے مسائل پر سروے کرتے ہوئے‘ آپ نے ان لوگوں سے بھی انٹرویوکئے جو غیر شادی شدہ تھے۔پروفیسر شبیرکے بقو ل :سروے ایک Tricky gameہوتی ہے۔لیکن حقائق جاننے کے لیے ایماندارانہ سروے بھی کروائے جاتے ہیں۔کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور کی تیاری کے لیے سروے کرواسکتی ہے کہ کس طبقے میں‘ کس علاقے میں لوگوں کے مسائل کیا ہیں؟ وہ ٹکٹ دینے سے قبل امیدواروں کے بارے میں بھی رائے عامہ جاننے کا اہتما م کرسکتی ہے۔اسی طرح مختلف کمپنیاں ‘ مختلف ادارے اپنی (اور اپنے حریفوں کی) پراڈکٹس یا (عوام کو مہیا کی جانے والی) سروسز کے حوالے سے سروے کرواتی ہیں اور اس سلسلے میں (ممکنہ حد تک ) حقائق جاننے کی کوشش کرتی ہیں‘ کہ ان کی روشنی میں بہتر حکمت عملی وضع کرسکیں۔ 
آئی آر آئی کے اس سروے میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ 17فیصد لوگوں کی رائے میں عمران خان کی (بطور وزیر اعظم) کارکردگی' 'بہت اچھی‘‘‘ اور 40فیصد کے خیال میں''اچھی ‘‘ ہے‘ ان کی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں بھی مجموعی طور پر56فیصد افراد کی رائے یہی ہے ۔ عمران خان (اور ان کی تحریک انصاف) نے جوانتخابی وعدے کئے‘ ان کی تکمیل کے لیے26فیصد افراد ایک سال اور14فیصد دوسال کی مدت دینے کے حق میں ہیں۔
لیکن سروے میں‘ عمران خان (اور ان کی پی ٹی آئی)کے لیے کچھ چشم کشاحقائق بھی ہیں۔ ان کا سارا زور کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف ہے۔وہ ''چوروں اور ڈاکوئوں‘‘ کو کوئی رعایت ‘ کوئی چھوٹ دینے پر آمادہ نہیں لیکن عام لوگوں کی ترجیحات مختلف ہیں جن کے خیال میں غربت ‘ بیروزگاری اور مہنگائی تین اہم ترین مسائل ہیں(کرپشن کا خاتمہ اس کے بعد آتا ہے)۔39فیصد مہنگائی کو‘18فیصد غربت کو اور15فیصد بے روزگاری کو اہم ترین مسائل قرار دیتے ہیں۔عمران خان کے چاہنے والوں میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہے اور 18سے35سال کے ان ووٹرز میں77فیصد کے خیال میں نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔
عوام کے روز مرہ مسائل کے حوالے سے حکومتی کارکردگی پر رائے عامہ کے بعض پہلو بھی اہم اور دلچسپ ہیں۔بجلی کی فراہمی کے حوالے سے 9فیصد لوگ نہایت اطمینان کا‘30فیصد قدرے اطمینان کا‘26فیصد نہایت بے اطمینانی کا اور31فیصد بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہیلتھ کیئر کے حوالے سے9فیصد نہایت مطمئن‘ 28فیصد مطمئن‘28فیصد غیر مطمئن اور31فیصدنہایت غیر مطمئن ہیں۔مہنگائی پر قابو کے سلسلے میں 4فیصد نے نہایت اطمینان‘12فیصد نے قدرے اطمینان‘ 30فیصد عدم اطمینان اور 54فیصد نے نہایت عدم اطمینان کا اظہار کیا۔تعلیمی شعبے کی اصلاح کے حوالے سے 13فیصد نہایت مطمئن ‘ 30فیصد قدرے مطمئن‘ 24فیصد غیر مطمئن اور 31فیصد نہایت غیر مطمئن نظر آئے۔ غربت میں کمی: 3فیصد نہایت مطمئن‘ 13فیصد قدرے مطمئن‘ 30فیصد غیر مطمئن اور51فیصد نہایت غیر مطمئن ‘۔بے روزگاری میں کمی:2فیصد نے نہایت اطمینان‘ 11فیصد نے قدرے اطمینان‘ 32فیصد نے عدم اطمینان‘ اور54فیصد نے نہایت عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
سروے میں18سال اور اس سے اوپر کی عمر کے 3,991افراد سے براہِ راست رابطہ کیا گیا۔ (رپورٹ میںاس کا ذکر نہیں کہ ان میں کتنے فیصد کا تعلق کس طبقے سے اور کس صوبے /علاقے سے تھا)
لیکن ایک اہم ترین بات سروے کا ''دورانیہ‘‘ ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ سروے گزشتہ سال یکم سے بائیس نومبر کے دوران کیاگیا‘ عمران خان کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ...خود خان صاحب نے اس کے لیے 100دن کا تعین کیا تھا اور عوام پر مہنگائی کا عذاب تو اس کے بعد ٹوٹا‘بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوش ربا اضافہ‘ سروے کے بعد کی سوغات تھی۔بے روزگاری میں اضافہ بھی اس کے بعد ہوا۔ جی ڈی پی کا5.8سے تقریباً3فیصد پر آجانا‘ افراطِ زر کا 8.5فیصد تک (ان چار سال میں بلندترین سطح پر ) پہنچ جانا‘ عام آدمی تو کیا پڑھے لکھوں کو بھی معاشیات کے ان اعداد وشمار کی سوجھ بوجھ نہیں لیکن روز مرہ استعمال کی اشیا میں تقریباً200فیصد اضافے کا کمر توڑ بوجھ تو سبھی کو خوب محسوس ہورہاہے۔
گزشتہ شب ایک آن لائن ٹیکسی کو کال کی۔ وہ 2منٹ کے فاصلے پر تھا۔ اسے آنے میں10منٹ لگ گئے ۔اس نے معذرت کی کہ رستے میں کچھ میڈیسن لینے کے لیے رک گیاتھا‘والد صاحب کے لیے شوگر کی‘ والدہ کے لیے بلڈ پریشر کی اور بڑے بھائی کی اہلیہ کے لیے یورک ایسڈ کی ادویات ۔اور پھر وہ پھٹ پڑا: گزشتہ ماہ کی نسبت اب ان دوائیوں کی قیمت تقریباً دوگنی ہو گئی تھی۔ اس نے بات جاری رکھی: ہرچیزکو آگ لگ گئی ہے۔ ان مہینوں میں بجلی اور گیس کے بلوں نے سارا بجٹ درہم برہم کردیا تھا۔کچن کے اخراجات بھی تقریباً دوگنا ہوگئے ہیں۔ اس کے بھائی کے بچے لوئر مال کے ایک سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں۔ دودن پہلے ان کی کاپیاں بھی اردوبازار سے تقریباً ڈیڑھ گنا قیمت پر خریدیں ۔ پھر اسے آئندہ کے اندیشوں نے آلیا‘ دوماہ بعد رمضان آرہاہے۔تب چیزوں کی قیمتیں کہاں جاپہنچیں گی۔ اس کے بعد گرمیاںاور ان میں بجلی کے بل ۔میں نے بات کاٹی‘ ووٹ کسے دیاتھا؟ سرجی! ہم جوائنٹ فیملی ہیں۔ والد صاحب‘ والدہ ‘بڑا بھائی اور بھابی صاحبہ ''شیر ‘‘ کے پکے ووٹر ہیں۔ میں نے ‘ دوچھوٹے بھائیوں اور بہن نے''تبدیلی‘‘ کو ووٹ دیا تھا... لیکن اس ''تبدیلی ‘‘ کے لیے تو نہیں دیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved