ان کے نام پہ ہم قربان، میرے سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے : حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ یہ بھی کہ اعتدال پر رہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کے قریب تر!عقل کو اللہ نے تخلیق کیا تو اس پر ناز کیا اور فرمان صادر ہوا کہ جو بھی کسی کو عطا ہو گا، اسی کے طفیل ہوگا اور جو لیا جائے گا ،اسی کے سبب۔ بدترین حالات میں ،جب ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی زدمیں ہے ،جنرل اشفاق پرویز کیانی کے تازہ اظہارِ خیال سے امید کی ایک کرن پھوٹی ہے ’’اسلام ہی ملک کو متحد رکھنے والی طاقت ہے ‘‘ استحکام کی طرف پیش رفت کا ایک امکان ۔ اپنی بنیاد پر عمارتیں اور اپنے محور پر ادارے برقرار رہتے ہیں ۔ مؤذن، مرحبا بروقت بولا تری آواز مکّے اور مدینے تحریکِ پاکستان کے ولولہ انگیز ایّام میں یہ بابائے قوم کے پیغام کا اعادہ ہے ۔ تین صدیوں کی جدید سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا مدبّر۔ ناممکن کو جس نے ممکن کر دکھایا۔ وہ آدمی، جس نے ایک قوم تشکیل دی ، اسے آزادی دلائی اور اس کے لیے ایک وطن حاصل کیا۔ تین برس ہوتے ہیں،ٹی وی مذاکرے میں ، جب ایک ژولیدہ فکر نے یہ کہا کہ قائد اعظم ؒ سیکولر ازم کے حامی تھے تو اس ناچیز نے عرض کیا تھا: پوری سیاسی زندگی میں ، اس عظیم لیڈر نے ایک بار بھی یہ لفظ کبھی استعمال نہ کیا، کسی بیان ، کسی تقریر اور کسی بھی مجلس میں ۔ مگر وہ ڈھیٹ لوگ ہیں ۔ جھوٹ کی تکرار جاری رکھتے ہیں۔وہی گوئبلز کا نسخہ! ہولی ہوک ،سیکولر ازم کی اصطلاح کے ایجاد کنندہ نے 1896ء میں شائع شدہ اپنی کتاب میں لکھا : سچا سیکولر کوئی ہو نہیں سکتا، جب تک وہ خدا کے وجود سے انکار نہ کرے ۔اس پادری کو چرچ نے ذمہ داری سونپی کہ بائبل کے مختلف متون (Versions) کا مطالعہ کرکے ایک قابلِ قبول متن وہ مرتب کرے۔ ریاضت کے مہ و سال سے گزر کر اس نے کہا کہ انطباق نا ممکن ہے ۔ اس کا ایمان جاتا رہا ۔ اسے جیل جانا پڑا۔ ردّعمل میں اس نے مذہب سے بغاوت کی اور الحاد کا علم بلند کیا۔ پزیرائی اسے ملی کہ صدیوں سے چلے آتے چرچ کے مظالم سے مخلوق بیزار تھی۔ اسلام مختلف ہے ، بالکل ہی مختلف۔ پاپائیت کا ، مذہبی طبقے کی حکمرانی کا اس میں کوئی تصور ہی نہیں ۔ قرآن کا متن مستند ہے ۔ پروردگار ِ عالم کی ہمیشہ برقرار رہنے والی ضمانت یہ ہے\"ہم نے اسے نازل کیا اور ہم اس کے محافظ ہیں ۔\" تشریح وتفصیل کے لیے احادیث موجودہیں ۔ سختی کے ساتھ ان کی چھان بین کی گئی ۔ رسول اکرمؐ سے دو لاکھ روایات میں سے فقط چھ ہزار پہ مہر لگی ۔ ایک ذرا سا جھول ، ایک ادنیٰ سا سقم ، ایک بہت معمولی سا شبہ یا کسی راوی پر بے اعتمادی کا ایک ہلکا سا اندیشہ بھی پیدا ہوا، احتیاطاً اسے ترک کر دیا گیا۔ تحقیق کا ایسا کڑ امعیار تاریخِ انسانی میں کبھی تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا وہ فرمان معتبر محدّثین کے پیشِ نظر رہا کہ غلط بات جس نے ان سے منسوب کی وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔ امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ متفق ہیں ۔چودہ صدیوں کی علمی روایت کے سب امین متفق ہیں ۔ خواجہ حسن بـصریؒ سے خواجہ مہر علی شاہؒ تک سب صوفیا متفق ہیں ۔ مسلم برصغیر کا فکری رہنما اقبال تھا ۔ ملّا کو وہ مسترد کرتا ہے اور فرقہ واریت کو بھی ۔ اجتہاد کا وہ حامی ہے اور پرجوش حامی۔ دو ٹوک الفاظ میں قائد اعظم ؒ نے کہا تھا: قرآنِ کریم نئی مسلمان سلطنت کا دستور ہوگا۔ 14اگست کو کراچی میں ان سے حلف لیتے ہوئے لارڈ مائونٹ بیٹن نے جب یہ کہا کہ نو آزاد مملکت کو اکبرِ اعظم کی پیروی کرنی چاہیے ،باباکا جواب یہ تھا : جمہوریت کا سبق ہم نے چودہ سو سال پہلے پڑھا تھا ۔ ایک اخبار نویس نے جب کہا کہ کیا پاکستان پر پاپائیت مسلّط ہو گی ،تو سختی سے آپ نے اسے ڈانٹ دیااور اس کے سوال کو احمقانہ قرار دیا ۔ جنرل کیانی اسی فوج کے سربراہ ہیں ، جس کے فرزندوں نے دہشت گردی کے خلاف جاری جہاد میں اپنے پاک لہو سے ہزاروں گواہیاں رقم کی ہیں ۔ ربع صدی سے جس نے سیاچن کے برف زار کو گلزار بنا رکھا ہے ۔ برّی فوج کے صدر دفتر پر ہونے والا حملہ دراصل جنرل کیانی کے اغوا کا منصوبہ تھا ۔ وہ پسند کریں تو خود ہی تفصیل بیان کریں ۔ میں عرض کرتاہوں تو وہ ناراض ہوتے ہیں ۔ معاشی طور پر اپاہج کر دئیے گئے ، اپنے وطن میں انکل سام کی مزاحمت کے لیے جو کچھ بن پڑے ، وہ کر گزرنے پر تلے تھے۔ 2007ء میں جب وہ آرمی چیف بنا ئے گئے تو اپنے خاندان کو انہوںنے یکجا کیا اور یہ کہا: آج سے میری زندگی پاکستانی فوج کے لیے مختص ہے۔ الیکشن ہوئے تو کور کمانڈروں کو انہوںنے حکم دیا کہ دھاندلی ہونے نہ پائے۔ منتخب حکومت بنی تو آئی ایس آئی میں سیاستدانوں کی نگرانی کا بھٹو کے دور سے چلا آتا سلسلہ انہوںنے ختم کردیا ۔ یہ الگ بات کہ فورا ہی لوٹ مار کے ایک وحشت ناک باب کا آغاز ہو گیا۔ جیسا کہ وکی لیکس سے آشکار ہے ، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت اکثر لیڈر امریکہ کی دہلیز پہ نثار ہوگئے۔(کیا چوہدری نثار بھی؟ ) صرف ایک کپتان بچ رہا، عمران خان ۔ یہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے ، جو افغانستان میں امریکی عزائم کے خلاف خاموشی سے بروئے کار رہے اوراس حال میں بروئے کار کہ سیاسی قیادت امریکہ کی گود میں جا بیٹھی تھی، میمو گیٹ! دو بار نیٹو افواج کی رسد بند کی گئی اور دونوں بار یہ اقدام جنرل نے اٹھایا۔ رہے دہشت گرد تو اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ان کی مخالفت ضرور کی مگر پاکستانی عوام سے زیادہ عالمی قوتوں کے حلیف بن کر ۔ کپتان کی طالبان پالیسی سے ناچیز کو اختلاف رہا۔ اس میں البتہ کوئی شبہ نہیں کہ وہ واحد لیڈر ہے ، قبائلی علاقوں پر جو ایک موقف رکھتاہے ۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اور اس کے کاسہ لیس عرب ممالک اس کے خلاف ہیں اور طالبان بھی ۔ اسامہ بن لادن سے مبلغ ڈیڑھ ارب روپے وصول کرنے والے میاں محمد نواز شریف رانا ثنا ء اللہ کے ذریعے انتہا پسند تنظیموں سے رابطہ رکھتے ہیں ۔ نواز شریف ، مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن کو طالبان ثالث تسلیم کرتے ہیں ،کپتان کو نہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انکل سام کو بھی مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف پہ اعتماد ہے ۔ رہی جماعتِ اسلامی توطالبان کی بھرپور تائید کے باوجود قاضی حسین احمد کو ملّا عمر کے افغانستا ن میں داخل ہونے کی کبھی اجازت نہ ملی ۔ امریکہ تو ظاہر ہے کہ ان بنیاد پرستوں کا مخالف ہے ہی!این جی اوز کا سرپرست ، غیر ملکی سرمایے کے بل پر جو دندناتی پھر رہی ہیں ۔ ہیلری کلنٹن ، جنرل پیٹریاس اور ہالبروک کے ساتھ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے مذاکرات ! جو کچھ میں جانتا ہوں ، کبھی عرض کردوں گا۔ شور شرابا کرنے والی ہیلری کلنٹن کو انہوںنے سمجھایا ، پیٹریاس کی طویل خرافات پر یہ کہا\"I am not convinced\"اور ہالبروک کو اس وقت جھکنا پڑا ، جب انہوںنے اس کے ساتھ ملاقات سے گریز کیا۔ مسلسل اور بے پناہ دبائو کے باوجود وزیرستان میں آپریشن سے انہوںنے انکار کیا اور اس انکار پر قائم رہے ۔ان کے دو بڑے کارنامے ہیں ۔اوّل سی آئی اے اور پینٹاگان کی بدترین مخالفت کے باوجود بالآخر امریکی قیادت کو انہوںنے افغانستان میں مفاہمت پر آمادہ کر لیا ۔ اس سے زیادہ یہ کہ بھارت کو کابل میں انکل سام کا جانشین بنا دینے کا خوفناک منصوبہ انہی کے عزم سے برباد ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطّے میں قیامِ امن اور بھارت سے خوشگوار مراسم کی حمایت کرتے رہے ۔ کبھی کوئی سپہ سالار اس طرح تنی ہوئی رسّی پر نہ چلا ہوگا ، جس طرح انہیں چلنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے لیڈ رداد ضرور سمیٹیں ، حقیقت یہ ہے کہ چین کو گوادر سونپنے اور پاک ایران پائپ لائن کے معاہدے جنرل کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہ تھے۔ یہی سبب ہے کہ انسانی حقوق کے نام پرسرگرم بھارت اور امریکہ کے کاسہ لیس جنرل کو گالی دیتے ہیں ۔ وہ اخبار نویس بھی ، جو دہلی، دبئی ، لندن ، کابل او رواشنگٹن میں وصولیاں فرماتے ہیں ۔ سیکرٹ فنڈ کھلا تو انہی کے نام روشن ہوں گے۔ کٹھ ملّا اور کٹھ ملحد قائد اعظمؒ کو گالی دیا کرتے ۔ وہی اب جنرل کیانی کے لیے دشنام طراز ہیں ۔ ان میں سے بعض نے قائد اعظمؒ کو کافرِ اعظم کہا اور بعض نے انگریزوں کا ایجنٹ؛حالانکہ وہ خود ایجنٹ ہیں ۔جنرل کیانی فرشتہ نہیں مگر اعتدال پرہیں اور جو اعتدال پر ہوگا، ملک دشمن اس کی کردار کشی ضرور فرمائیں گے ۔ ان کے نام پہ ہم قربان، میرے سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے : حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ یہ بھی کہ اعتدال پر رہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کے قریب تر!عقل کو اللہ نے تخلیق کیا تو اس پر ناز کیا اور فرمان صادر ہوا کہ جو بھی کسی کو عطا ہو گا، اسی کے طفیل ہوگا اور جو لیا جائے گا ،اسی کے سبب۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved