جب سے چین نے عالمی سطح پر اپنی حیثیت منوانے کا سفر شروع کیا ہے‘ تب سے امریکا اور یورپ دونوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ جب سنگھاسن ڈول رہا ہو تو شہنشاہ بھی گھبرا جایا کرتے ہیں۔ پہلے یورپ اور پھر امریکا نے مجموعی طور پر چار صدیوں تک دنیا کو زیر نگیں رکھا ہے۔ اب یہ بالا دستی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی سطح پر کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے چین کمر کس کر میدان میں آگیا ہے۔ ''سینٹر آف گریویٹی‘‘ تبدیلی کے مرحلے میں ہے۔ چین چاہتا ہے کہ اہم فیصلوں میں واشنگٹن‘ لندن اور پیرس کے ساتھ اب بیجنگ بھی شریک ہو۔ ایک ایسا عالمی نظام تیاری کے مرحلے میں ہے ‘جس میں بہت کچھ چین کی مرضی کا ہوگا۔
امریکا زیادہ پریشان ہے۔ اس وقت عالمی نظام اس کے ہاتھ میں ہے۔ کہیں لالچ اور کہیں دھونس دھمکی کے ذریعے یہ نظام چلایا تو جارہا ہے‘ مگر خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے بالا دستی کے باوجود امریکا فیصلہ کن قوت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ سابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد پوری دنیا تنہا امریکا کی مٹھی میں آگئی تھی۔ یورپ اس کے ساتھ ضرور رہا ہے‘ مگر امریکا نے اُسے مجموعی طور پر حاشیہ برداروں کے خانے میں رکھا ہے۔ سرد جنگ کے بعد کی صورتِ حال میں امریکا کے لیے پوری دنیا کو قابو میں رکھنا انتہائی دشوار ثابت ہوا ہے۔ اُس کی سیاسی قیادت اور فوج دونوں ہی اس وقت over-stretched ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھکن بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی قیادت کا سانس پھول رہا ہے۔ ہاں‘ ہانپتے ہانپتے بھی امریکا چاہتا ہے کہ ہاتھ سے کچھ نہ جائے۔ خیر‘ معاملات اب پوری طرح اُس کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ عسکری مہم جوئی کے دن ہوا ہوئے۔
آئیے دیکھیں کہ امریکا کس حد تک پریشان ہے۔ امریکی جنرل جوزف ڈنفرڈ نے کہا ہے کہ گوادر پورٹ کی تعمیر کی مد میں پاکستان پر چین کے 10 ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ چین اب ''پریڈیٹری اکنامکس‘‘ استعمال کر رہا ہے‘ یعنی جس طور درندے اپنے شکار کو دبوچتے ہیں‘ بالکل اُسی طور چینی قیادت بھی قرضوں کا جال بچھاکر چھوٹے اور کمزور ممالک کو دبوچ رہی ہے۔
جنرل جوزف ڈنفرڈ نے مسلح افواج سے متعلق سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ سری لنکا میں چین نے گہرے پانی کی (ہمبنٹوٹا) بندر گاہ تعمیر کی اور 99 سال کیلئے لیز پر لیتے ہوئے‘ اس کی آمدنی میں اپنے لیے 70 فیصد حصہ مقرر کرالیا ہے۔ تعمیرات کے حوالے سے مالدیپ پر چین کے ڈیڑھ ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔
جنرل جوزف ڈنفرڈ نے سینیٹ کمیٹی کو مزید بتایا کہ چینی قیادت قرضوں کا جال پھیلاکر اثر و رسوخ بڑھارہی ہے۔ متعدد ممالک محسوس کر رہے ہیں کہ چین سے معاشی دوستی کیلئے چکائی جانے والی قیمت بہت بھاری ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لیے چین سرمایہ کاری تو کر رہا ہے‘ مگر متعلقہ ممالک کو زیادہ فوائد حاصل نہیں ہو رہے اور بین الاقوامی معیارات بھی نظر انداز کیے جارہے ہیں۔
جنرل جوزف ڈنفرڈ نے خبردار کیا کہ پس ماندہ ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑنے کی چینی کوششوں پر فوری رسپانس کی تیاری نہ کی گئی‘ تو امریکی فوج کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوں گی۔ چین پڑوسیوں کے ذریعے عسکری مہم جوئی کی صورت میں بعض ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اُس کے ہم نوا و مطیع ہوجائیں۔ اس حوالے سے بحر ہند اور بحرالکاہل کے معاملات خاص طور پر قابلِ ذکر و غور ہیں۔ امریکی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو کچھ چین اس وقت بحیرۂ جنوبی چین میں کر رہا ہے‘ وہ خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔
کمال ہے کہ دنیا کو چین سے وہ ملک ڈرا رہا ہے‘ جس نے ایک زمانے سے چھوٹے اور کمزور و پس ماندہ ممالک کا ناک میں دم کر رکھا ہے! چین اگر افریقہ‘ ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کو قرضے دے رہا ہے تو حیرت کی کیا بات ہے کہ ایک زمانے سے امریکا اور یورپ یہی کھیل تو کھیلتے آئے ہیں۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی آڑ میں امریکا اس کے یورپی حاشیہ برداروں نے جنوبی امریکہ‘ جنوبی ایشیا‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ مشرقِ وسطٰی اور افریقہ میں قرضوں کا جال پھیلاکر درجنوں معیشتوں کو عبرت ناک تباہی سے دوچار کیا ہے۔
مغربی تجزیہ نگار کئی برس سے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا رونا رو رہے ہیں۔ پس ماندہ ممالک اور خطوں کو ڈرایا جارہا ہے کہ چین انہیں کھا جائے گا۔ بیشتر تجزیے اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی بچگانہ ہیں۔ جس طور دو پڑوسنیں کسی معمولی سی بات پر جھگڑے کے دوران کوسنے دیتی ہیں ‘بس کچھ ویسے ہی کوسنے ان تجزیوں میں چین کو دیئے جارہے ہیں!
ویسے چین کے نام کا رونا رونے والوں میں بھارتی تجزیہ نگار بھی کم ہیں نہ پیچھے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا مسعود اظہر کے معاملے پر ہندوستان ٹائمز کے لیے مضمون میں انیرُدّھ بھٹاچاریہ نے لکھا ہے ''پاکستان کو تحفظ فراہم کرنے کی چین کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ بیجنگ اب اسلام آباد کو کھل کر فائدہ پہنچانے سے متعلق بے نقاب ہوچکا ہے۔ چین معاشی و عسکری قوت کے اعتبار سے امریکا کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے اُس کی امنگیں ناپختہ ہیں ‘تاہم اتنا ضرور ہے کہ پاکستان کی گندی طرزِ عمل کے معاون کی حیثیت سے بیجنگ نے واشنگٹن کی جگہ لے لی ہے۔‘‘
مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق قرارداد کو سلامتی کونسل میں چین کی طرف سے ایک بار پھر ویٹو کیے جانے سے بھارتی قیادت کی دُم پر پاؤں پڑا ہے‘ مگر اُس کے پاس صرف زخم چاٹنے کا آپشن بچا ہے۔ انیرُدّھ بھٹاچاریہ نے مزید لکھا ''1993ء کی ہالی وڈ فلم 'گراؤنڈ ہاگ ڈے‘ میں مرکزی کردار فِل ہر صبح محض اس لیے بیدار ہوتا ہے کہ ایک ہی حقیقت سے پھر سامنا ہو۔ مسعود اظہر کے معاملے میں بھارت کو ٹرٹل بے‘ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا رہا ہے۔ مسعود اظہر کے معاملے میں چینی طرزِ فکر و عمل عالمی سطح پر اُس کی ساکھ مزید خراب کرے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر بیجنگ کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔‘‘
بھارتی تجزیہ نگاروں اور اینکرز کو اس بات کا خاص طور پر دکھ ہے کہ کل تک پاکستان جو کردار امریکا اور یورپ کے لیے ادا کرتا تھا‘ وہی کردار اب چین کیلئے ادا کر رہا ہے۔ افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے امریکی قیادت کی بے صبری پاکستان کی وقعت میں اضافہ کر رہی ہے۔ یہ بات بھارتی تجزیہ نگاروں کو بُری طرح کَھل رہی ہے۔ انیرُدّھ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ امریکی قیادت اب افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے ڈبل گیم سے تنگ آچکی ہے اور ہر قیمت پر یہ بساط لپیٹ دینا چاہتی ہے۔
معاملات کو امریکا کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے دیکھ کر چین اور پاکستان کی مخالفت کا گراف بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔ یہ مخالفت اس لیے ہے کہ سٹریٹیجک معاملات میں چین اور پاکستان دونوں کی وقعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی بھی پریشان ہیں‘ مگر بھارت تو بے حواس سا ہوچلا ہے۔ یہ سب کچھ اُس سے ہضم ہی نہیں ہو پارہا۔ جب بھی پاکستان کے لیے توقیر کا کچھ سامان ہوتا ہے‘ اہلِ بھارت کے دل اور پیٹ میں کچھ کچھ ہوتا ہے! بھارت اور اس کے حاشیہ برداروں کو دل کی دُکھن اور پیٹ کی گڑگڑاہٹ چھپائے رکھنے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔