تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-03-2019

ایک تہذیب‘ کئی رنگ

جب کرائسٹ چرچ‘ نیوزی لینڈ میں ایک پاگل شخص نے پچاس نمازیوں کو شہید کر دیا تو ہمارے ہاں ایک پرانی بحث دوبارہ چھڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے مغرب اور مغربی معاشروں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔ یہ تاثر ارزاں کرنے کی کوشش کی گئی کہ قاتل کو گرفتار تو کر لیا گیا‘ لیکن وہ اکیلا نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف کی گئی سازش اور پھیلائی گئی نفرت کی ایک کڑی ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟ نہیں‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آئے روز خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں کہ کسی بندوق بردار شخص نے سکول‘ مارکیٹ‘ فیکٹری‘ کھیل کے میدان یا کسی اور عوامی مقام پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے بے گناہ شہریوں کی جان لے لی۔ یہ سازش نہیں ہوتی۔ اس قسم کے جرائم ذاتی رنجش‘ نفرت‘ خود شکنی یا شکستگی کے جذبات کے تحت ہوتے ہیں۔ برینٹن ٹیرینٹ آسٹریلوی باشندہ ہے۔ اُسے صرف مسلمانوں سے ہی نہیں‘ بلکہ رنگدار نسلوںکے تمام افراد سے نفرت ہے۔ اُس کا مسئلہ مذہب نہیں‘ نسل ہے۔ 
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کے یہودی نقل مکانی نہیں کر سکتے تھے۔ یورپی ممالک میں اُن کی قانونی اور سماجی حیثیت سفید فام مسیحیوں کے برابر نہیں تھی۔ صرف 80 سال پہلے کون سا ستم ہے جو جرمنی‘ فرانس اور دیگر ممالک میں یہودیوں پر نہ ڈھایا گیا ہو۔ اُن کی منظم نسل کشی کی گئی۔ ہالوکاسٹ ایک افسانہ نہیں‘ لہو رنگ تاریخی حقیقت ہے۔ یہودیوں کی نسل کشی کا تعلق بھی اُن کے مختلف نسل سے ہونے سے تھا۔ مذہبی فرق ثانوی تھا۔ یہودیوں نے اپنی بقا کی جنگ لڑی‘ اپنے مذہب‘ اپنی ثقافت‘ اپنی تاریخ اور روایت کا تحفظ کیا۔ وہ مظلوم تھے‘ مگر صہیونیت‘ جو ایک سیاسی نظریہ ہے لیکن مذہب کا سہارا لیتا ہے ‘ نے انہیں فلسطین میں ظالم بنا دیا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ کیا‘ جو جرمنی اور یورپ کے دیگر معاشروں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔ یہ تصور بھی درست نہیں کہ دنیا میں تمام یہودی اسرائیلی ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔ روشن خیال یہودی اسرائیلی ریاست کے فلسطینیوں پر مظالم کی حمایت نہیں کرتے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر جو آوازیں اٹھتی ہیں‘ وہ مذہب سے ماورا‘ انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے اٹھائی جاتی ہیں اور ان میں مسیحی‘ یہودی اور دیگر مذاہب کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ انسانی تہذیب کے حوالے سے کئی ایک تاریخی ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں‘ لیکن وقت اور جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر ایک کالم ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو کون سے ممالک تھے جہاں اس کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالے گئے؟ وہ شہر ریاض‘ تہران‘ انقرہ یا اسلام آباد نہیں تھے۔ سب سے بڑے جلوس لندن‘ پیرس‘ نیویارک اور دیگر مغربی ممالک میں نکالے گئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند مسلمان ممالک کے قائدین عراق پر حملے کے حق میں تھے۔ 
نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جسنڈا آرڈن نے سانحہ کے دوران بے مثال قیادت فراہم کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سزا اس لیے دی گئی کہ ہم تنوع کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم امن اور محبت سے رہنا چاہتے ہیں‘ اور شہید ہونے والے لوگ ہماری قوم‘ ہمارے معاشرے اور ملک کا حصہ تھے۔ کرائسٹ چرچ کے شہریوں کے جذبات دکھ‘ محبت اور بھائی چارے سے لبریز نظر آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ اٹھنے والے جنازے ان کے اپنے خاندان کے افراد کے تھے۔ ایسی نسلی اور مذہبی ہم آہنگی حالیہ تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ مسجد النور کے قریب شہریوں نے پھولوںکے انبار لگا دیے۔ یہ نفرت‘ نسلی اور مذہبی منافرت کے خلاف انسانی جذبات کا برملا اظہار تھا۔ 
مغربی ممالک کے رہنمائوں کی طرف سے دکھ کا اظہار کیا گیا۔ چند تنگ نظر سیاست دانوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر کہیں مسلمانوں کے خلاف تعصب ظاہر کرنے کی کوشش کی تو مغربی میڈیا نے ان کو کوریج نہیں دی‘ یا انہیں خاموش کرا دیا گیا۔ یہاں ایک نظر اپنے گریبان میں بھی ڈال لیتے ہیں۔ افسوس‘ صد افسوس‘ہمارے میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اس واقعے کو مغرب کی مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش کا حصہ قرار دیا۔ کچھ نے تو قاتل کا تعلق اسرائیل سے بھی جوڑنے کی کوشش کی۔ کہا گیا کہ اُس نے چند روز اسرائیل میں بھی قیام کیا تھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی ہوش مند لوگ عقل کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ جذبات کو عقل پر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ مگر یہاں تو مسئلہ ہی ہوش مندی کا ہے۔ عقل‘ دلیل‘ ثبوت‘ شواہد اور تاریخی ادراک کے بغیر محض جذبات سے مغلوب ہو کر دی گئی رائے‘ نفرت کا اظہار‘ اور سازش کی بو سونگھنے کی بے مثال مہارت ہماری صفت ہے۔ یہ اندر کا خوف اور عدم تحفظ کا احساس ہے جو ہمارے نیم خواندہ اور نام نہاد دانشوروں نے ہم پر طاری کر رکھا ہے۔ مغرب کے حوالے سے ہمارا مکالمہ اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اس نفرت نے انتہا پسندی کو ہوا دی ہے۔ دنیا اور تاریخ کے سبق سے عاری دھڑے مغرب کے خلاف جنگی جنوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس فکری انتشار اور جنون نے مغربی معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد‘ گزشتہ دو عشروں کے واقعات نے مغرب کے مسلمانوں پر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اب ان ریاستوں میں سفر کرنے والے مسلمانوں پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ مغربی ریاستوں کو اپنے شہریوں کا تحفظ درکار ہے؛ چنانچہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ اب انہوں نے اپنی سلامتی کے لیے جو حصار قائم کیے ہیں‘ وہ بہت پیچیدہ ‘ وسیع اور پریشان کن ہو چکے ہیں۔ 
مغرب مخالف تقریر اور تحریر کا ہمارے ہاں اس قدر تسلسل رہا ہے کہ ہماری نسلیں مغرب سے انجانے خوف کے سائے میں پروان چڑھی ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ امریکہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے درپے ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ یقینا خطرات کا قبل از وقت ادراک کرنا‘ ان کا تدارک کرنا‘ اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا زندہ اور کامیاب قوموں کا شیوہ ہے اور ریاستی اداروں کی یہی ذمہ داری ہے لیکن ہماری طرح ہمہ وقت خوفزدہ کوئی نہیں رہتا۔ دراصل خوف ایک طرح کی خود کلامی ہے۔ غیر حقیقی التباسات‘ مفروضے اور اوہام جب دل میں دبے رہتے ہیں تو وہ خوف کی جامد شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ گلوبلائزیشن نے قومی‘ مذہبی اور نسلی شناختوں کو اجاگر کیا ہے‘ لیکن یہ سلسلہ گزشتہ چند دہائیوں کی پیداوار نہیں‘ اس کا عمل نوآبادیاتی نظام سے شرو ع ہو گیا تھا۔ اس کی مکمل تفہیم اور پھر بیخ کنی کے لیے ہمیں کم از کم تین سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ماضی کو بھول کو حال میں زندہ رہنا‘ اور مستقبل کی طرف دیکھنا سیکھ لیں۔ 
آج کی دنیا کی جغرافیائی وسعتیں سمٹ چکی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی معلومات اور علم کو انگلی کی جنبش پر لے آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بڑے سے گائوں میں بیٹھے ہیں جہاں ہر گھر اور گھرانہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ آج ریاستوں کی جغرافیائی سرحدیں بے معنی ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شناخت کی سیاست توانا ہو رہی ہے۔ اور یہ ایک فطری بات ہے۔ ضروری ہے کہ شناخت کے اظہار کو مثبت رویوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ 
تمام لوگ‘ اقوام اور مذاہب ایک دوسرے سے الگ ہیں‘ اور الگ رہیں گے لیکن معاشرے مجموعی طور پر اجتماعی رویے اپناتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ملک بھی نسلی‘ مذہبی‘ تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے یک رنگ نہیں ہے۔ اب مغرب کا نسل پرست اس تنوع سے خوف زدہ ہے‘ بالکل اسی طرح‘ جس طرح ہمارے ہاں کا رجعت پسند۔ ہمارے ہاں سازش کی تھیوری سرگرداں ہے تو مغرب میں امیگریشن کے خلاف جذبات کھول رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں نفرت اور اجتماعیت کے درمیان لکیر کھنچ چکی ہے ۔ جیت یقینا انسانی اجتماعیت کی ہو گی۔ ہم ایک طویل تاریخی عمل کا حصہ ہیں۔ تاریخ انفرادیت کو پسند نہیں کرتی۔ یہ اجتماعیت سے عالمگیر اصول وضع کرتی ہے۔ کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد دکھائی دینے والی مذہبی ہم آہنگی‘ انسان دوستی اور ہمدری عالمگیر اصولوں کا اظہار اور جیت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved