تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     21-03-2019

قرآن مجید اور ہماری ذمہ داریاں

رتی پنڈی ضلع قصور کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے‘ جس تک پہنچنے والے راستے نا ہموار ہیں ۔ انسان رات کے وقت کٹھن اور تاریک راستے سے گزرتے ہوئے بغیر کسی رہنما کے باآسانی رتی پنڈی نہیں پہنچ سکتا۔ اس گاؤں میں دنیاوی اعتبار سے بہت سے مسائل ہیں ۔تعلیمی ادارے ‘ علاج ومعالجے کی سہولیات اور پختہ سڑکیں اس علاقے کے لوگوں کا حق ہیں‘ جو ان کو عرصہ دراز سے حاصل نہیں۔ اس علاقے کے لوگ دنیاوی اعتبار سی بہت سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود دینی اعتبار سے مولانا یعقوب کے مدرسے تعلیم کو احسن طریقے سے حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا یعقو ب اس علاقے کی پہچان ہیں اور کثیر تعداد میں طلباء ان سے علم حاصل کرتے آ رہے ہیں۔آپ علاقے کے بچوں کی تعلیم وتربیت میں ایک عرصے سے مصروف ہیں۔ مولانا یعقوب نے 19مارچ کو بچوں کے حفظ قرآن کے موقع پر سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد کیا اور مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔ مولانا یعقوب کی نیکی اور تقویٰ اور محبت کی وجہ سے میں ان کو انکار نہ کر سکا اور میں نے جلسے میں جانے کی حامی بھر لی۔ عشاء کی نماز کے بعد میں کوٹ رادھا کشن کے پاس سے گزرتے ہوئے پر پیچ اور ناہموار راستوں کے ذریعے جب رتی پنڈی کے جامعہ میں پہنچا تو وہاں پر لوگوں کی کثیر تعداد سالانا جلسہ تقسیم اسناد میں شریک تھی۔ مجھ سے بیشتر مولانا احمد حسن ساجد بڑے ہی خوبصورت انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ سٹیج پر علاقے کی نمایاں شخصیات جن مولانا یوسف ربانی‘ فیض اللہ غوری ‘ حاجی ثناء اللہ اور دیگر احباب براجمان تھے۔ میں نے اس موقع پر جہاں پر نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والے طلباء میں اسناد تقسیم کیں‘ وہیں پر مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ قرآن مجیدکو حفظ کرنے والے بچوں میں کئی کم سن بچے بھی شامل تھے۔ اس روح پرور اور پر کیف منظر کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال ابھرنے لگا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نزول قرآن کے موقع پر سورہ حجر کی آیت نمبر 9 میں اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ ''بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیا اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 49 میں اس امر کا ذکر کیا‘ بلکہ وہ واضح آیات ہیں سینوں میں جو علم دئیے گئے ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کے لیے فقط لکڑی کی چھالوں ‘ کا غذکی تہوں‘چمڑے کی پشتوں کو استعمال نہیں کیا‘ بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مقصد کیلئے انسانوں کے سینوںکو جس انداز میں منتخب کیا‘ یقینا یہ غیر معمولی اور مخیر العقول بات ہے‘ جو قرآن کی صداقت کی آئینہ دار ہے۔ تقسیم اسناد کے بعد میں نے قرآن مجید اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ جن کو بعض اضافوں اور ترامیم کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں: 
قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہماری زندگی گزارنے کے مکمل لائحہ عمل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے ہماری چند اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں: ۔
1۔ ایمان: قرآن مجید پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 4میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ دیکھنے میں آیا ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام سمجھنے کے باوجود مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن مجید کی تلاوت سے غافل ہے اور جس انداز میں قرآن مجید کے ساتھ وابستگی اختیار کرنی اور اس کو پڑھنا چاہیے ‘ مسلمان اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہے۔ دنیا بھر کے علوم کو سمجھنے اور غوروفکر کرنے کی کوششیں کرنے والا مسلمان قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے حوالے سے جو اس کی ذمہ داری ہے‘ اس کو حقیقی معنوں میں نبھانے سے قاصر نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں اور اس کی برکات کو سمیٹنا چاہیے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعث اجروثواب ہے اور ہر حرف کی ادائیگی پر انسان کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کے قلوب کو طمانیت اور آسودگی حاصل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر121 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''وہ لوگ جنہیں ہم نے دی کتاب وہ اسکی تلاوت کرتے ہیں جو اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس (قرآن) پر اور جو انکار کرتا ہے اس (قرآن) کا تو وہی لوگ ہی نقصان اُٹھانے والے ہیں ‘‘اسی طرح سورہ محمد کی آیت نمبر2 میں ارشادہوا: ''اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور وہ ایمان لائے اس (قرآن) پر جو نازل کیا گیا محمد ﷺپر اور وہی حق ہے‘ ان کے رب کی طرف سے (اللہ نے) دور کرد یں‘ ان سے ان کی برائیاں اور ان کے حال کی اصلاح کردی۔‘‘ 
2۔ قرآن مجید کو سمجھنا اور غوروفکر کرنا: جہاں پر قرآن مجید کی تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں پر قرآن مجید کو سمجھنا بھی چاہیے۔ اس بات کا باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید پر غوروفکر اور توجہ نہیں کرتی جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی آیات پر غوروفکر اور تدبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ص کی آیت نمبر 29میں ارشا د فرماتے ہیں: ''(یہ) ایک کتاب ہے ہم نے نازل کیا ہے‘ اسے آپ کی طرف بابرکت ہے ‘تاکہ وہ غوروفکر کریں اس کی آیات میں اور تاکہ نصیحت پکڑیں عقل والے‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو (بھلا) کیا وہ غوروفکر نہیں کرتے قرآن میں یا (ان کے) دلوں پر ان کے تالے (لگ گئے ) ہیں‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قمر کے کئی مقامات پر اس بات کو واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے؛ چنانچہ سورہ قمر میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''اور بلاشبہ یقینا ہم نے آسان بنا دیا ہے‘ قرآن کو نصیحت کے لیے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔‘‘
3۔ قرآن مجید پر عمل کرنا:جہاں پر قرآن مجید پر غوروفکر کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر کی اطاعت کرنا اور اس کے سامنے سر تسلیم کو خم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کے مختلف مقامات پر اپنی اطاعت اور حضرت رسول ﷺکی تابعداری کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتے ہیں:''ایمان والوں کی بات محض یہی ہوتی ہے‘ جب وہ بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ وہ فیصلہ کرے ان کے درمیان یہ کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ۔‘‘قرآن مجید پر تدبر کرنے اور سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ 
4۔ قرآن مجید کا ابلاغ کرنا: جہاں پر قرآن مجید پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں پر قرآن کے پیغام کی تبلیغ کرنا بھی اہل ایمان کی ذمہ داری ہے‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ قرآن مجید پر عمل کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے ابلاغ میں کوتاہی کرتی ہے۔ چنانچہ اپنے عمل کوکئی مرتبہ اپنے حلقہ احباب ‘اعزاء واقارب اوراپنے گھروالوں تک نہیں پہنچایا جاتا؛حالانکہ تبلیغ کرنا انبیاء علیہم السلام کا طریقہ کار ہے اور ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر حکم دیا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہو تم بہترین اُمت (جسے) نکالا(پیدا کیا) گیا ہے‘ لوگوں (کی اصلاح) کے لیے(کہ) تم حکم دیتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو برائی سے اور تم ایمان لاتے ہو اللہ پر‘ اور اگر ایمان لے آتے اہل کتاب(تو) یقینا بہتر ہوتا ان کے لیے اُن میں سے کچھ ایمان لے آئے ہیں اور اُن کی اکثریت نافرمان ہی ہے۔‘‘ 
5 ۔ قرآن مجید کے احکامات کا نفاذ: جہاںپر قرآن مجید کی آیت کی تبلیغ کرنا انتہائی ضروری ہے ‘وہیں پر اپنی اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں جس حد تک ممکن ہو اس کے احکامات کی تنفیذ کے لیے بھی جستجو کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کئی مقامات پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ حکم تو بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے حکم کے نفاذ کی برکت کے حوالے سے سورہ مائدہ کی آیت نمبر66 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیاگیا اُن کی طرف اُن کے رب کی طرف سے ضرور وہ کھاتے(اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے‘ ان میں سے ایک گروہ میانہ رو ہے اور بہت سے ان میں (ایسے ہیں کہ ) برا ہے جو وہ عمل کرتے ہیں۔‘‘
ہم سب کو بحیثیت مسلمان قرآن مجید کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ تاکہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہو سکیں اور ہمارے پیش نظر علامہ اقبالؔ کا یہ شعر ہمہ وقت رہناچاہیے ؎ 
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر 
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved