تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     22-03-2019

نیوزی لینڈ بدل رہا ہے‘ ہم کب بدلیں گے؟

نیوزی لینڈ سانحے کا ردِ عمل ویسا نہیں ہوا جیسا دہشت گرد چاہتا تھا۔ ساری ہوا ہی الٹی چل پڑی ہے۔ دہشت گرد کا خیال تھا‘ اس واقعے کے بعد پوری دنیا کے سفید فام اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘ وہ ان کا ہیرو بن جائے گا اور مسلمانوں کے خلاف نائن الیون جیسی ایک نئی عالمی تحریک شروع ہو جائے گی۔ وہ امریکی صدر ٹرمپ کے خیالات سے بہت متاثر تھا اور اس نے یہ اقدام بھی ٹرمپ ایسے انتہا پسندوں کی شہ پر کیا تھا؛ تاہم ٹرمپ نے اگر اس واقعے کے بعد متاثرہ خاندانوں سے بہت زیادہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا تو دہشت گرد کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ٹرمپ ایسا کرتا تو اسے مغربی دنیا سے بہت زیادہ مخالفت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے جس خوبصورت انداز سے متاثرہ خاندانوں اور مجموعی طور پر مسلمانوں کی دلجوئی کی‘ اس سے ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا جس سے بھارتی میڈیا بلبلا اٹھا۔ پہلے تو بھارتی میڈیا نے دہشت گرد کے پاکستان کے دورے سے متعلق خبریں منفی انداز میں پھیلائیں اور جب اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وزیر اعظم جیسنڈا کی ماضی کی زندگی کے کچھ پہلوئوں کو منفی انداز میں دکھانا شروع کر دیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ تو ایک ڈی جے تھی‘ اور مسلم خواتین کے نقاب پہننے کی مخالف تھی۔ بھارتی ویب سائٹس اور فیس بک چینلز سے اس طرح کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلانے کا مقصد نیوزی لینڈ کی حکومت کے خلاف مسلمانوں میں بددلی اور فاصلے پیدا کرنا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں بھی بھارتی میڈیا کو بدترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں جتنی بھی شرانگیز مہم چلائی جاتی ہے یا دہشت گردانہ حملے کئے جاتے ہیں‘ ان سے کئی گنا شدت سے اسلام کا پیغام پھیلتا ہے اور مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے پوری دنیا کے ممالک کو یہ سبق سکھایا ہے کہ مظلوم ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے‘ اس کا کسی مذہب یا قومیت سے تعلق نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا اظہار کرنے اور اس کے دکھ میں شریک ہونے سے انسان کا عہدہ چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ اس کی قدر و منزلت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ روزانہ نیوزی لینڈ سے ایسی ویڈیوز اور ایسی خبریں آتی ہیں جو روح کو گرمانے کا باعث بنتی ہیں۔ دہشت گرد سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرنے والے نعیم راشد کی اہلیہ کا انٹرویو پوری دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ یہ محض ایک انٹرویو نہیں بلکہ صبرواستقامت اور ایمان کی پختگی کی ایسی داستان ہے جو مسلمان ممالک میں بھی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ نعیم راشد کی اہلیہ کے چہرے پر پھیلا نور اور مسکراہٹ یہ ثابت کر رہی تھی کہ ایک مسلمان کیلئے شہادت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ان کا شوہر اور ان کا بیٹا ان سے چھن گیا‘ لیکن انہوں نے اپنے انٹرویو میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولا جس سے قدرت سے کوئی گلہ یا ناراضی ظاہر ہوتی ہو۔ وہ گفتگو کے دوران مکمل طور پر مطمئن دکھائی دیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کے پیارے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے اور اللہ ایسے بندوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ نعیم راشد کا بیٹا تو ایک اور بچے کے اوپر لیٹا خود گولیاں کھاتا رہا جس سے وہ خود شہید ہو گیا جبکہ وہ بچہ بچ گیا۔ ہمارے ہاں اگر کوئی رشتہ دار طبعی موت بھی مر جائے تو خواتین زور زور سے بین شروع کر دیتی ہیں اور ایک ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں۔ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ آخرت پر ایمان نہ رکھے اور دل سے یقین نہ کرے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ ہر شخص نے اگلے جہان جانا ہے اور وہاں اپنے کئے کا حساب دینا ہے اور جو شخص ایسا ایمان رکھتا ہے‘ وہ کبھی بھی غم آنے پر اور اپنوں کے بچھڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ ہر حال میں اللہ پر راضی رہتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم چاہتیں تو اس واقعے کے بعد اسے مختلف رنگ دے کر ٹرمپ کی طرح الٹا مسلمانوں پر سختیاں عائد کر سکتی تھیں۔ عبادت گاہوں میں ان کے جانے پر پابندی لگ سکتی تھی اور انہیں ملک بدر کرنے کا بھی سوچا جا سکتا تھا‘ لیکن انہوں نے ایسا کوئی کام نہ کیا بلکہ پارلیمانی سیشن کا آغاز ہی تلاوت قرآن پاک سے کر دیا۔ السلام علیکم سے گفتگو شروع کی اور گن قوانین میں سختی لانے اور اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کا عندیہ دیا۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے یکجہتی کے لئے جمعہ کو نیوزی لینڈ کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر اذان نشر کی جائے گی۔ یہ بہت بڑا قدم ہے۔ اس سے نہ صرف پورے نیوزی لینڈ بلکہ پوری دنیا میں اسلام کا امن پسند چہرہ سامنے آئے گا۔ ذرا اندازہ کریں کہ نیوزی لینڈ کی کل آبادی چھیالیس لاکھ ہے۔ اس میں سے مسلمان صرف چھیالیس ہزار ہیں جو کل آبادی کا ایک فیصد بنتے ہیں۔ نیوزی لینڈ اس ایک فیصد اقلیت کو کس قدر اہمیت دے رہا ہے کہ ان کے لئے اپنے سرکاری میڈیا کے دروازے تک کھول رہا ہے۔ دوسری جانب ہم اپنے ملک کو دیکھیں تو سب کا حال سب کے سامنے ہے۔ ماضی میں چرچ پر حملوں کے واقعات میں کتنے حکمرانوں کا رویہ ویسا تھا جیسا کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اپنایا۔ زیادہ سے زیادہ چند روایتی بیانات پر اکتفا کیا جاتا رہا اور اگر کوئی حکمران ان کے حق میں کچھ زیادہ کہہ دیتا یا ان کے انداز میں ان سے ہمدردی کر بیٹھتا تو انتہا پسند طبقہ فوراً اٹھ کھڑا ہوتا۔ اب وہی وزیر اعظم جیسنڈا کے گن گا رہا ہے لیکن اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھنے کو تیار نہیں۔ یہ دوغلی پالیسی کب تک چلے گی۔ ساہیوال سانحے میں جو بچے یتیم ہوئے وہ بھی آج تک انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ کیا ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم آ کر انہیں گلے لگائے گی‘ انہیں دلاسا دے گی اور ان کے غم کو کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ جو کام ہم نے کرنا ہے وہ کوئی اور نہیں کرے گا۔
نیوزی لینڈ سانحے میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے اگر ہم سیکھنا چاہیں۔ ہمارے ہاں تو ایسے سانحات میں شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کو دئیے گئے چیک بھی بائونس ہو جاتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دنیا کی نمبر ون قوم کہلوانا چاہتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں مسجد کے باہر‘ پارکوں میں اور شہیدوں کے گھروں کے باہر پھولوں کے ڈھیر لگ گئے۔ روزانہ جوق در جوق وہاں غیر مسلم بچے جوان اور بوڑھے آتے ہیں‘ آنسو بہاتے ہیں‘ پھول رکھتے ہیں اور خود کو اس سانحے کا مجرم سمجھتے ہیں۔ آج پورا آسٹریلیا اداس ہے۔ اور تو اور مجرم کی والدہ تک اپنے بیٹے کو پھانسی لگتے دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ سب مسلمانوں سے یوں ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں جیسے ان کا کوئی اپنا جان سے چلا گیا ہو۔ وہ مسجدوں میں جا رہے ہیں اور نماز کے دوران پیچھے صف بنا کر مسلمانوں کی نمازوں اور نمازیوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ان میں بچے بھی ہیں بوڑھے بھی‘ خواتین بھی اور جوان بھی۔ انہیں کسی سیاسی جماعت‘ کسی لالچ یا کسی دبائو نے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ وہ یہ سب انسانیت سے محبت کے لئے کر رہے ہیں۔ ذرا خود سے سوال کیجئے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو انسانیت کے قدر دان ہیں‘ جو کسی مسیحی کسی ہندو کی وفات پر ان کے گھر جاتے ہیں‘ ان سے تعزیت کرتے ہیں ‘ ان کے حقوق کا خیال کرتے ہیں یا ان کے بچوں کی فکر کرتے ہیں۔ کتنے دھماکے ہوئے ان میں کتنے ہندو اور مسیحی مارے گئے۔ ہم میں سے کون ان کے گھر گیا ‘ کتنوں نے ان کے گھر کے باہر پھول رکھے‘ ان کی ڈھارس بندھائی یا ان کو گلے لگایا۔ آج اگر ہم نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور ان کے عوام کی تعریف کر رہے ہیں تو ہمیں اپنے اس رویے کا بھی گلا گھونٹنا چاہیے جو صرف دوسروں سے ہمدردی چاہتا ہے لیکن کسی دوسرے کو ہمدردی دینے کو تیار نہیں۔ 
جی ہاں نیوزی لینڈ بدل رہا ہے‘ سوال یہ ہے کہ ہم کب سدھریں گے‘ ہم کب بدلیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved