کہا کوہان کا ڈرہے، کہا کوہان تو ہوگا ! ہمارے کرم فرمامیاں نواز شریف آئندہ وزیراعظم بننے کی سرشاری سے تو لطف اندوز ہو ہی رہے ہیں لیکن ابھی ہونٹوں اور پیالی کے درمیان بہت سی رکاوٹیں ایسی بھی ہیں جن کا ان کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے، عمران خان سے تو ان کا مقابلہ ہے ہی، لیکن صدر زرداری انہیں ایک اور ہی طرح کے خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد نوازشریف کی راہ میں اس حدتک مزاحم ہونا ہے کہ وہ اتنی اکثریت حاصل نہ کرسکیں کہ آسانی سے حکومت بناسکیں اور جس میں وہ بعض سیٹوں پر اندر خانے یا علی الاعلان تحریک انصاف کی حمایت کرکے یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اصل حریف ابھی تک نواز شریف ہی ہیں نہ کہ عمران خان۔ جبکہ نوا زشریف اگر چاہیں بھی تو یہ سلوک پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں کرسکتے یعنی کسی جگہ پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے عمران خان کے امیدوار کی حمایت کرسکیں کیونکہ اب وہ اپنا اصل حریف پیپلزپارٹی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہی کو سمجھتے ہیں، اور، حقیقتاً ایسا ہے بھی ! یہ کیا کررہے ہو ، یہ کیا ہورہا ہے ؟ عمران خان کے حمایتی بعض دوستوں نے یکایک اپنی توپوں کے منہ موصوف کی طرف کرکے گولہ باری شروع کردی ہے ، ان کا یہ عمل ہمدردی کی کسی ذیل میں نہیں آتا بلکہ اس سے اس کے متوقع ووٹروں میں مایوسی اور بددلی پھیلنے کا خدشہ ہے ، بیشک بعض جگہوں پر غلط ٹکٹ بھی دیئے گئے ہوں لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ …ایلیکٹ ایبلز ، کی وافر تعداد عمران خان کے پاس تھی ہی نہیں، اور، دوسرے یہ کہ موجودہ فضا میں تحریک کو جو ووٹ بھی پڑیں گے، عمران خان کی وجہ سے ہی پڑیں گے ، ان کے سامنے امیدوار کوئی بھی ہو، غلطیاں تو ہم سب کرتے ہیں، اگر عمران خان بھی اس سلسلے میں کوئی غلطی کرگئے ہیں تو بھی موصوف کی حوصلہ افزائی اور تحریک کے ووٹروں کو بدظن کرنے کی نہیں بلکہ ہلہ شیری اور دلجوئی کی ضرورت ہے۔ الیکشن میں بھرپور کامیابی نہ سہی، کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان تبدیلی کی علامت بن چکا ہے؟ نیز اس نے 80فیصد ٹکٹ جو بہترین لوگوں کو دیئے ہیں ، اس کا کریڈٹ بھی دینا چاہیے۔ ایک افواہ جو حقیقت بھی بن سکتی ہے! یہ افواہ لوگوں میں تیزی سے گردش کررہی ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں اپنی کمزوریوں کی تلافی ووٹرز میں پیسہ چلانے سے کرے گی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق جتنا روپیہ ان زعماء نے گزشتہ پانچ برسوں میں اکٹھا کرلیا ہے، اس میں سے کھلا خرچ کرکے وہ ووٹ خرید بھی سکتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میںپیسے پیسے پر مرمٹنے والے دکاندار لوگ ہیں جو کھٹیا سووٹیا،کے فارمولے پر عمل پیرا رہیں گے اور اربوں کھربوں کی اپنی نیک کمائی کو ہوا نہیں لگائیں گے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے اس طرح پیسہ خرچ کرنے والوں کے لیے باقاعدہ سزامقرر کررکھی ہے لیکن اب تک اپنے اقدامات بلکہ عدم اقدامات کی وجہ سے وہ جس حدتک اپنا مذاق اڑواچکا ہے، اس سے یہ امید ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر قدم اٹھا سکے جبکہ اس کام کی مانیٹرنگ بھی الیکشن کمیشن کے لیے چڑیوں کا دودھ ہی لانے کے مترادف ہو گا، حالانکہ اگر چاہے تو نواز لیگ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ خرید سکتی ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اس خوش فہمی ہی میں مبتلا رہے گی کہ ایک واضح اکثریت اس کے ساتھ ہے اور اسے اس طرح کا کوئی طریقہ اپنانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بالآخر بولے تو سہی! مشرف کے حوالے سے ایک طویل اور پراسرار خاموشی کے بعد بالآخر میاں صاحب نے لب کشائی شروع کردی ہے اور کہا ہے کہ مشرف کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے جبکہ سینیٹ میں منظور ہونے والی مشرف مخالف قرارداد کے پرجوش حامیوں میں نواز لیگ کے زعماء بھی شامل تھے جس میں مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلانے کی پرزور سفارش کی گئی ہے۔ اگرچہ جس مبینہ ڈیل کے تحت مشرف وطن واپس آئے ہیں اس میںمبینہ طور پر میاں صاحب کی طرف سے زبان بندی کی شق بھی شامل تھی لیکن صاحب موصوف ایک دفعہ پہلے بھی اس جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرچکے ہیں جب جلاوطنی کے دوران سیاست میں حصہ لینے کی ان پر پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم اسی سلسلے کی ایک افواہ یہ ہے کہ مشرف کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی اسی ڈیل کا حصہ ہے جس کے تحت ان کی وطن واپسی ممکن ہوئی ہے، اور ، آئندہ بھی معاملات اس ڈیل کے مطابق ہی چلیں گے، یعنی رفتہ رفتہ پانی اپنا راستہ خود بنالے گا، اس لیے مشرف مخالف عناصر کو زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ابھی بھی پاکستان ایسے ملکوں میں شمار نہیں ہوتا جہاں کسی سابق ڈکٹیٹر کو صحیح معنوں میں اس کے کیفر کردار کو پہنچایا گیا ہو۔ اس لیے یار لوگوں کو موصوف کی گرفتاری پر ہی قناعت کرلینی چاہیے ! ایک اور سازش ! اگلے روز میاں نواز شریف کرائے کے ایک طیارے پر لاہور سے حاصل پور جارہے تھے کہ راستے میں طیارے کی ونڈسکرین چٹخ گئی جس پر طیارہ ایمرجنسی لینڈنگ کے ذریعے نیچے اتار لیا گیا۔ خوش قسمتی سے میاں صاحب سمیت سبھی مسافر محفوظ رہے۔ اسی دوران میاں شہباز شریف نے برادر بزرگ کی خیریت دریافت کی ، حالانکہ انہیں اس کے ساتھ ساتھ طیارے کے خیریت بھی دریافت کرنی چاہیے تھی۔ ہمارے خیال میں یہ بھی ایک سازش ہی کا نتیجہ ہے جو الیکشن ملتوی کروانے سے بھی بڑی سازش ہوسکتی ہے۔ خیال ہے کہ کسی شرپسند نے طیارے پر غلیل کا حملہ کیا ورنہ اچھی بھری ونڈ سکرین اپنے آپ کیسے ٹوٹ سکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوران طعام کوئی ہڈی ونڈ سکرین پر جالگی ہو اور اس طرح اسے چٹخا دیا ہو، اور، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت میاں صاحب کو تازہ ہوا کی ضرورت پیش آئی ہو جس کے لیے ونڈ سکرین توڑنا ضروری ہوگیا ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سازش کی تھیوری کو نظر انداز کردیا جائے جبکہ انہی سازشوں کے سلسلے میں ایک کڑی یہ بھی ہے جس کے تحت ایاز امیر کو بہلاپھسلا کر تحریک انصاف کی حمایت پر مجبور کرلیا گیا ہو۔ سازشیوں کا منہ کالا ! آج کا مطلع محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے کہ مل بیٹھے نہیں اور ذائقہ انجیر جیسا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved