بات اگر دو چار غلطیوں تک محدود ہوتی تو کچھ بات بھی تھی۔ معاملہ یہ ہے کہ پانچ برس کے دوران نریندر مودی نے غلطیوں پر غلطیاں کی ہیں اور مجال ہے جو کسی بھی بات پر ذرا سی بھی شرمندگی محسوس کی ہو۔ ایک بڑے لیڈر میں جو کچھ ہونا چاہیے وہ مودی میں برائے نام بھی نہیں جھلکتا۔ دور اندیشی تو خیر دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ قومی سطح کے فیصلے معقول حد تک غور و فکر اور مشاورت کے بغیر کیے جاتے رہے ہیں۔
ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد نریندر مودی کو ایسا بہت کچھ کرنا تھا جو اُنہیں حقیقی معنوں میں قومی سطح کا لیڈر ثابت کرتا۔ اُنہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے معاملے میں دوسروں سے بہت آگے اور بڑھ کر ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونے کا ایک اچھا موقع ملا مگر افسوس کہ یہ موقع بُری طرح ضائع کردیا گیا۔ چار عشروں سے بی جے پی اور اُس کی ہم خیال جماعتیں محض نفرت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرتی آرہی ہیں۔ ریاستی سطح کا اقتدار الگ چیز ہے اور قومی سطح پر حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا اور بات ہے۔ گجرات میں اقتدار کے مزے لوٹنے اور خوب تجربہ پانے والے نریندر مودی سے قوم نے امیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ کچھ کر دکھائیں گے۔ اے وائے ناکامی کہ مودی ملک کو ڈھنگ سے چلانے کے معاملے میں نرے بُودے اور گاؤدی ثابت ہوئے ہیں۔
پانچ برس کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں نے گائے کی حفاظت کے نام پر سیاست کو بنیادی وتیرہ بنایا اور ملک بھر میں خرابیوں کی آگ پر مزید تیل چِھڑکا۔ ایک زمانے سے بی جے پی مسلمانوں کو نشانے پر لیے ہوئے ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر ہی اقتدار پر قابض ہوتی آئی ہے۔ اس حوالے سے بی جے پی کی سوچ میں بظاہر کوئی بڑی یا بنیادی تبدیلی اب تک واقع نہیں ہوئی۔
اقتدار کے آخری ایام میں نریندر مودی نے مرکز میں اقتدار کا تسلسل یقینی بنانے کی خاطر ایک بڑا خطرہ مول لیا اور منہ کی کھائی۔ جنگی جنون کو ہوا دے کر پاکستان کو چھیڑا گیا تاکہ عوام کی زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں حاصل کرکے اُنہیں انتخابی معرکے میں احسن طریقے سے بروئے کار لایا جاسکے۔ یہ مہم جوئی بھونڈی تدبیر کی طرح الٹی پڑگئی اور ہڈی بن کر گلے میں پھنس گئی۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ کل تک بھارتی میڈیا جنگی جنون کا راگ الاپ رہا تھا۔ سٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے وار لارڈز کی خواہش تھی کہ ملک کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔ اگر پاکستان نے بالا کوٹ حملے کے جواب میں بھارتی فضائیہ کو دُھول نہ چٹائی ہوتی تو شاید محدود پیمانے کی جنگ چھیڑ بھی دی جاتی۔ دو طیاروں کی تباہی اور ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری نے روایتی ردِ جارحیت کا کردار بحسن و خوبی ادا کیا اور یوں خطہ جنگ کی بھٹی میں جھونکے جانے سے محفوظ رہا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ملک کے نامور تجزیہ کار اور تجزیہ نگار مودی سرکار کو لتاڑ رہے ہیں کہ جب صلاحیت و سکت کا فقدان ہے تو بہت بڑے پنگے لینے کی کیا ضرورت تھی! اشوکا یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور تاریخ کے پروفیسر اور کارنیگی انڈیا میں سینئر فیلو سری ناتھ راگھون نے Theprint.in پر شائع ہونے والے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ نریندر مودی نے بعض معاملات کو عوامی سطح پر لاکر ریاست کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ سری ناتھ راگھون کا استدلال ہے کہ بہت سے معاملات سفارتی سطح پر اچھے لگتے ہیں یعنی اُنہیں وہیں تک رہنے دینا چاہیے۔ اگر بین الریاستی نوعیت کے ہر معاملے کو عوامی سطح پر لاکر سیاسی فوائد بٹورنے کی کوشش کی جائے تو معاملات کی خرابی بڑھتی ہی ہے‘ گھٹتی نہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں دو معاملات کا مثال کی حیثیت سے خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ پہلا معاملہ ہے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کا اور دوسرا ہے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے سے متعلق کوششوں کا۔
سری ناتھ راگھون لکھتے ہیں کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت اور مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے کے معاملے میں چین کی طرف سے پاکستان کے لیے بھرپور حمایت کے اظہار سے بھارت برہم ہوا۔ بھارتی قیادت نے اِسے پوری بھارتی قوم کی صریح توہین سے تعبیر کرتے ہوئے معاملے کو عوامی سطح پر لانے سے گریز نہیں کیا۔ معاملات میڈیا کے ہاتھ میں گئے تو مزید اُچھلے۔ اب سبھی یہ مان رہے ہیں کہ ان دونوں معاملات میں وزیر اعظم مودی نے فاش غلطی کی۔
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بعض معاملات میں بھارتی قیادت نے چین کو اس حد تک مشتعل کیا ہے کہ اُس نے موقع ملنے پر کاری ضرب لگانے میں تساہل کا مظاہرہ کیا ہے نہ ہچکچاہٹ کا۔ ممبئی حملوں میں چین کا ایک شہری بھی ہلاک ہوا تھا مگر اس کے باوجود چینی قیادت نے ان حملوں کی کھل کر مذمت نہیں کی اور اس حوالے سے بھارتی موقف کی حمایت کا سوچنے سے بھی گریز کیا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ بھارت نے امریکہ سے سویلین نیوکلیئر ڈیل کی تھی۔ یہ امریکہ کی طرف انتہائی واضح جھکاؤ تھا۔ اس کے جواب میں چین نے پاکستان کی طرف بھرپور جھکاؤ ظاہر کردیا۔
بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن نے اپنی کتاب ''چوائسز‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت نے کئی مواقع پر امریکہ کی طرف واضح جھکاؤ دکھایا ہے اور پھر یہ چاہا ہے کہ چین ایسا کچھ نہ کرے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ جب کبھی بھارت امریکہ کی طرف جھکا ہے‘ چین نے علاقائی سطح پر معاملات کو متوازن کرنے کے لیے پاکستان کی طرف واضح جھکاؤ دکھایا ہے۔ شیو شنکر مینن نے اس امر پر تاسّف کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی قیادت معاملات کو بھانپنے میں نا اہلی اور تساہل کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
شیو شنکر مینن‘ سری ناتھ راگھون‘ جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو اور دوسرے بہت سے مصنفین اور دانشوروں نے بھارتی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ممکنہ عواقب و نتائج کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا کرلیا کرے۔ تمام معاملات کو انتخابی سیاست کی چوکھٹ پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی کو سمجھنا ہوگا کہ خطے میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ پاکستان کے لیے چین ناگزیر ہے اور چین کے لیے پاکستان۔ اگر بھارت ہزاروں میل دور واقع امریکہ کی آغوش میں بیٹھ سکتا ہے تو پاک چین تعلقات میں استحکام پر واویلا کرنے کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے؟
بھارتی مصنفین اور مبصرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں چین نے بھارت اور پاکستان دونوں سے تعلقات مستحکم رکھنے کے حوالے سے غیر معمولی مہارت اور دانش کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت چین تجارت اور سرمایہ کاری کا حجم اِتنا بڑا ہے کہ اُنہیں سفارتی مناقشوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ مگر خیر‘ چین محض بھارت سے وابستہ معاشی مفادات کے تابع ہوکر پاکستان کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہ تنے ہوئے رَسّے پر چلنے جیسا معاملہ ہے۔ بھارتی قیادت اور بالخصوص نریندر مودی کو اس حوالے سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے۔ چین نے اب تک یہ ثابت کیا ہے کہ ایک بڑی طاقت تمام معاملات کو متوازن رکھتے ہوئے چلتی ہے‘ بھارت کی طرح محض جذباتی فیصلوں کی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیتی۔
نریندر مودی کے لیے انتخابی مہم بہت بڑے چیلنج کی صورت سامنے کھڑی ہے۔ انہوں نے بیگانوں کو تو ناراض کیا ہی تھا‘ اپنوں کو بھی خوش نہیں رکھ سکے ہیں۔ میڈیا میں اُن کے خلاف بولنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ کیا اب بھی وہ کوئی سبق نہیں سیکھیں گے؟