تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-03-2019

آئینہ خانہ

غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہوتی ہیں ۔ صدیاں ہوتی ہیں شاعر نے کہا تھا؎
آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
تباہی امتحان اور آزمائش سے نہیں ہوتی۔ انحصار مبتلا ہونے والے کے ردّ عمل پہ ہوتا ہے۔ مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ مشکلات اور مصائب، حالات کے مارے آدمی اور اقوام کو زندہ و بیدار بھی کر سکتے ہیں۔ 
منگولیا کی ایک خستہ سی جھونپڑی میںتموچن نامی تیرہ سالہ چھوکرا، دھند اور دھوپ میں، زندگی کی مسافت اور منزل کے مخمصے میں تھا۔ ڈاکوئوں نے اس گھر پہ حملہ کیا۔ مال و اسباب لوٹ کر لے گئے۔ خوف سے سمٹ جاتا تو آئندہ زمانے کیا، بستی کی بڑی بوڑھیاں بھی، یہ کہانی یاد نہ رکھتیں۔ تاریخ کی لوح پر وہ فاتح اعظم بن کر ابھرا۔ وسطی ایشیا سے دمشق تک کی مٹی اس نے پامال کر ڈالی۔ اس کا قانون صدیوں تک سلطنتوں میں رائج رہا۔ چنگیز خان، منگولوں کا سردار بنا ۔ مدّتوں اس کے ورثا نے دنیا پہ حکومت کی۔
کہنے والے کہہ سکتے ہیں ،وہ تو ایک غارت گر تھا۔ ایک سفّاک اور بے رحم قاتل۔ جس سے نفرت کی گئی۔ جس کی اولاد نے اس کا مذہب ترک کر دیا، خود اسے ترک کر ڈالا۔
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 
لیکن پھر فتوحات کی منگولی وراثت، اس کی اولاد سے رکن الدّین کو منتقل ہوئی۔ ویسا ہی بارہ تیرہ برس کا ایک اور لڑکا۔ تاریخ نے اسے سلطان الظاہر رکن الدّین بیبرس کے نام سے یاد رکھّاہے۔
قتل و غارت کے تاتاری طوفان میں، ماوراالنہر سے بھاگا۔ بھاگتے بھاگتے مصر پہنچا اور غلام بنا لیا گیا۔ بے دست و پا اور بے نوا انسانوں پہ تب یہی بیتا کرتی۔ ہوش سنبھالا تو گرتے پڑتے غلاموں کی اس فوج کا حصّہ ہو گیا، جو لرزتے، کانپتے بادشاہ ،تاتاریوں کی مزاحمت کے لیے مرتب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
تاریخ کی دس عظیم ترین جنگوں میں سے، دو کا فاتح یہ غلام تھا۔ ملٹری سائنس کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایک مثالی کردار۔ آزمائش کے ایّام میں اس کی ہمت اگر ٹوٹ گئی ہوتی؟
ایک ایک منزل سر کرتے آخر کار وہ دریائے نیل کی وادیوں کا سپہ سالار بن کے ابھرا۔ پہلی ہی بار تاتاریوں سے سامنا ہوا تو ایک لاکھ کے لشکر میں سے تیس ہزار کو اس نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ دوسری جنگ ہمیشہ یاد رکھّی جانے والی حکمت سے جیتی۔اپنی سپاہ سمیت سالار غائب ہو گیا۔ چنگیز خان کے وارث خیمہ و خرگاہ استوار کر چکے تو مورچوں اور خندقوں سے بیبرس کے جانباز نکلے اور غنیم کو ریوڑ بنا دیا۔
یہ قراردادِ پاکستان کے ایام ہیں۔ ان سنہری ایام کی یاد‘ جب ہمارے ہجوم نے قوم میں ڈھل جانے، آزادی حاصل کرنے اور اپنا الگ وطن حاصل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ رہنمائوں کے اس رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ نے باغوں کے شہر لاہور کے موسمِ گل میں زبانِ حال سے جب یہ کہا تھا:
میں ظلمت ِشب میں لے کے نکلوں گااپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا
افسوس کہ قنوطیت کی ماری یہ قوم اپنے قائد کا راستہ بھول گئی۔یکسر بھول ہی گئی۔
لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے ممبئی میں ڈیرہ جمایا اور وکالت کا آغاز کیا تو جواں سال آدمی پہ بیتی کیا تھی؟ وہ خود کہتے ہیں کہ تین سال تک ایک بھی مقدمہ نہ ملا۔ بے داغ لباس پہنے، جیسا کہ عمر بھر ان کا شعار رہا، ہر روز گھر سے نکلتے۔ یہ کہ ،پیدل جائوں یا سواری پر۔ گردن فراز، اپنی تقدیر پہ شاکر‘ اکثر وہ پیدل ہی پہنچتے۔
آخر کار1500 روپے ماہوار پہ مجسٹریٹ کی ملازمت ملی۔ ہندوستان کے صنعتی اور کاروباری دارالحکومت میں بہترین دماغوں کا ایک انہماک سے اب وہ مطالعہ کرنے لگے ۔ خیال و فکر کا چراغ روشن رکھّا۔مستعفی ہوئے اور خیر خواہوں نے تعجب کا اظہار کیا‘ تو فرمایا: اس ٹھاٹ کی وکالت کروں گا کہ پندرہ سو روپے روزانہ کمالیا کروں گا۔ سونے کی قیمت ان دنوں 30 روپے تولہ تھی۔ آخر آخر ساڑھے تین ہزار روپے ایک دن کا صلہ تھا۔
ابھی کہاں ، ابھی ہندوستان کے انبوہ نے ایسے ایک لیڈر کو دیکھنا تھا، اپنا وقت جو کبھی رائیگاں نہ کرتا۔ ہزاروں برس سے اس سر زمین کا شیوہ خوئے غلامی تھا،خوف، احساسِ کمتری اور عدم تحفظ ۔ وہ مگر ایسا دلاور کہ حزن اور اندیشہ اس کی کھال میں داخل نہ ہو سکتا ۔کسی حریف سے ذاتی طور پر الجھنے میں کبھی خودکو رائیگاں نہ کیا۔ جھوٹ، وعدہ شکنی اور خیانت سے ، ہر حال میں گریز کرنے والا شہ سوار۔
پہاڑ سی مشکلات اس نادرِ روزگار کی راہ میں حائل تھیں۔ ایک محدود سے مکتبِ فکر سے وہ اٹھا تھا۔ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھا تو، رفتہ رفتہ، بتدریج وسعتِ فکر و نظر پائی۔ اپنے عہد کے مذہبی اور سیاسی دیوتائوں کے مقابل، آخر کار اپنی قوم کا غیر متنازعہ لیڈر بن کے ابھرا...ہر تعصب اور ہر تقسیم سے پاک۔ ہمالہ کی رفعت سے اپنے میدانوں پہ نظر کرنے والا! مؤرخ سٹینلے والپرٹ کہتا ہے: بیسویں صدی کا سب سے قد آور آدمی ۔
نجیب اور شائستہ مفتی محمد تقی عثمانی کی گاڑی پر کل حملہ ہوا۔ مولانا عامر شہاب سمیت تین آدمی جان ہار گئے۔ یہ ملال اور سوگ کی گھڑی ہے مگر کیا محض ملال اور سوگ کی ؟ کھرا اور غیر جذباتی تجزیہ کرنے کی نہیں؟ اجیت دوول اور کرشنا مینن نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اپنی پسندکے محاذ پر بھارت شب خون مارے گا ۔منقسم سماج کو اور زیادہ تقسیم کرنے کو فرقہ واریت اور لسانیت کی آگ بھڑکانے کی تدبیر وہ فرمائیں گے۔
افسوس کہ ہم نے ان کی مدد کی اور بھرپور مدد۔
مہاتیر محمد کی موجودگی میں اس یلغار کا مقصد، اندیشہ اور انتشار پھیلانا تھا، ہراس اور کم مائیگی کا ماحول پیدا کرنا۔ مفتی محمد تقی نجابت اور شرافت کا ایک زندہ استعارہ ہیں۔ کبھی فرقہ واریت میں مبتلا نہ ہوئے۔ کبھی شائستگی سے دستبردار نہ ہوئے۔ صدمہ فطری ہے، مگر کیا صرف صدمہ ہی؟ اپنے معزز مہمان کو بھول کر، ہم گریہ پہ اترے اور گر پڑے۔ سنسنی پھیلائی اور پھیلاتے رہے۔ درندہ صفت حریف کی آرزو بھی یہی تھی۔
ابھی کل کی بات ہے، ابھی آج کا واقعہ ہے۔ نیوزی لینڈ کی دھان پان وزیراعظم آرڈرن ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ ان سے کیوں سبق نہ سیکھا؟ پچپن لاکھ کی آبادی میں صرف 55 ہزار مسلمان ۔ کوئی بڑی اقلیت بھی نہیں۔ روشن ضمیر رہنما نے بے حسی برتنے سے انکار کر دیا۔ تاریک خونیں ساعت کو روشنی میں ڈھال کے رکھ دیا، مشعل میں پرو دیا۔ قوم کو متحد کر ڈالا۔ قانونی یا غیر قانونی، اسلحہ کی فراوانی کے معاشروں ، امریکہ ،پاکستان اور افغانستان میں، برسوں نہیں، عشروں سے اس موضوع پر مباحث جاری ہیں۔ کس طرح نجات پائی جائے، آخر کس طرح؟
آٹھ دن میں قضیہ نیوزی لینڈ نے نمٹا دیا۔ بھاری آتشیں ہتھیاروں پر پابندی لگا دی۔ مصیبت کے ماروں کو گلے لگایا، جی جان سے، دل کی گہرائیوں سے۔ اپنی غم زدہ قوم کو طاقت و توانائی بخشی ۔ دلوں کو امید سے بھر دیا۔ امکانات کے کتنے ہی آفاق روشن کر دیئے۔ پوری ریاضت سے تراشے گئے، مسلمانوں کے خلاف تین عشروں سے جاری مغربی دانشوروں کے سنگین بیانیے کو ٹھوکر پہ رکھّا۔بھاپ بنا کر اڑا دیا۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دل جیت لئے۔ اپنے عصر کے تیور ہی بدل ڈالے۔ نفرت بیچنے والے نام نہاد مغربی لیڈر تاریخ کے چوراہے پر نامراد کھڑے ہیں۔ اسلحی، مالیاتی اور ابلاغی قوّت کے پہاڑ، پرزہ پرزہ !
غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہوتی ہیں ۔ صدیاں ہوتی ہیں شاعر نے کہا تھا؎
آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved