کرپشن کا سامنا صرف پاکستان کو ہی نہیں ‘ دنیاکے کئی ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ امریکہ میں حالیہ برسوں کے دوران اس میں اضافہ ہوا۔ ایسی بہت سی خبریں سننے کو ملیں۔یہ خبریں کیا امریکہ میںناخوشگوارماحول پیداکررہی ہیں؟یہ سوال ابھی باقی ہے۔ امریکہ کرپشن کے چنگل میں پھنس چکا ہے‘ جس کا شاید اسے اندازہ بھی نہیں۔ 2016ء کے بعد صدرٹرمپ کی جانب سے بظاہر اس''فساد‘‘ کے بارے میں تشویش کا خدشہ ظاہرکیا گیا تھا‘جیسا کہ ''نیو یارک ٹائمز‘‘ نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی‘ جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں آنے سے قبل‘ جعلی اداروں‘ ٹیکس سکیموں اور سستے کاروباری معاملات پر پابندیوں کا ذکر کیا گیا ۔ ٹرمپ کے حالیہ عمل سے پتا چل رہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روایات کو تبدیل نہیں کیا ۔ صدر بننے کے بعد سے ٹرمپ نے‘ امریکی آئین کوکئی بارنظر انداز کیا۔ ٹیکس دہندگان کو ایک لاکھ ڈالر کے بلوں پر چھوٹ دی گئی۔ٹرمپ نے اپنی بیٹی اور ساس کو حساس اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا‘ جس کے وہ اہل نہیں تھے۔سابقہ انتخابی مہم کے چیئرمین پال مین فورٹ اور دیگر مشیروں کوکرپشن کے الزام میں سزائیں ہوئیں۔ سابق نیشنل سکیورٹی کے مشیر‘ مائیکل فلن نے ایف بی آئی سے جھوٹ بولا۔ ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے ایڈمنسٹریٹر‘ سکٹ پریوٹ اورسیکرٹری داخلہ ریان زینک نے احتجاجاً استعفیٰ دیا۔
ٹرمپ نے اپنے وعدے پورے کرنے کی بجائے‘وعدہ خلافی کرتے ہوئے امریکی عوام کو دلدل میں دھکیل دیا۔ حیرت کی بات ہے کہ شفافیت کے بین الاقوامی ادارے‘ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق؛ امریکہ کا گراف کرپشن کرنیوالے ممالک میں بڑھا ہے ۔ ٹرمپ حکومت کو یہ مسئلہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ سکینڈلز پر غور کریں‘ تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ 2008 ء کے مالیاتی بحران کا مطالعہ کریں۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ وسائل ان کے قبضے میں ہیں‘ انہوں نے خود کو قائل کیا کہ وہ مالی وسائل فراہم کر چکے ہیں۔وہ کرپشن کی معاملے کو کم کرنے کے لئے کوشاں رہے‘ لیکن بحران نے اہم مالیاتی اداروں کے اندر‘ بدعنوانی کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا۔ان میں کم شرائط پر قرضوں کی پیشکش ‘ ایجنسیوں کی درجہ بندی‘ بینکوں کی من مانیاں‘ یہاں تک کہ کچھ تعلیمی ماہرین کی طرف سے سنگین بدعنوانیاں امریکی میڈیا کی شہ سرخیوں میں موجود رہیں۔ آنے والے دنوںمیں دنیا کی معیشت کو کچلنے والے ذمہ داران کو جوابدہ ہونا پڑے گا‘ مگریہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا انہیں سزا دی جاسکتی ہے؟
امریکی عوام پریشانی میں مبتلاہیں۔بوئنگ 737 ہوائی جہاز کے حالیہ حادثے ہمارے سامنے ہیں۔ دو حادثوںکے سبب ان کا حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ۔ظاہر ہوتا ہے کہ بوئنگ نے نئے ہوائی جہاز کی مارکیٹ میںجگہ بنا لی ہے۔ اضافی پائلٹ کی ٹریننگ کی ضرورت کو کم کر دیا ہے۔ امریکی وفاقی ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن‘ ریگولیٹرز کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار اور مستحکم بنایا گیا‘ تاکہ ان جہازوں کی زیادہ سے زیادہ منظوری لی جا سکے۔دنیاکی دلچسپی ان طیاروں میںبڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ وہ آخری ملک ہے‘ جہاں گزشتہ مہینے ایسے حادثات ہوئے۔ ایتھوپیاکوحکم دیا گیاکہ وہ طیارے کے بلیک بکس کوامریکہ کی بجائے فرانس کوبھیجیں۔
یہ کوئی راز نہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے بااختیار اداروں میں داخلہ‘ خالص قابلیت کی بنیاد پر ملتا ہے؛اگر والدین داخلہ کراتے وقت بھاری رقم بطور عطیہ دیتے ہیں‘ تو اس کی بدولت بہت مدد کی جاتی ہے‘ لیکن پچھلے دنوںاس طرز کا ایک کیس بھی سامنے آیا۔ مشہور شخصیت ‘ولیم سنگر (ایک پیشہ ور مشیر داخلہ) کے بچوں کو ایک ایلیٹ کلاس سکول میں داخلہ دیا گیا‘ جس کے ٹیسٹ ان کے بچوں نے پاس نہیں کیے تھے‘ کیونکہ وہ اس کے اہل نہیں تھے۔ایسے نہ جانے کتنے اورکیس ہمارے سامنے ہیں؟ گزشتہ کئی عشروں میںامریکہ میں فوجیوں اور پادریوں سمیت کئی متعدد اداروں کے سنگین سکینڈل سامنے آئے۔کیتھولک چرچ میں جنسی واقعات اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی خوفناک تاریخ کے علاوہ‘ امریکی فوج کی صفوں میں جنسی حملے کی سنگین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ وسیع پیمانے پر خریداری سکینڈل سامنے آئے ۔2014ء میں34 میزائل لانچ کنٹرول افسران کے مہارتی امتحانوں میں سکور کو غلط طور پر پیش کر کے‘ پاس کرنے کا سکینڈل اور دیگر ایسوسی ایشنز ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ بدعنوانی کا عنصرموجودہ وائٹ ہاؤس تک محدود نہیں‘ بلکہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور صنعتیں بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ اتنا سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود ‘ امریکہ میںمسائل جوں کے توں ہیں۔
یہ معاملہ کیوں ہے؟ بدعنوان معقول طور پر نااہل ہیں۔وسائل کی بجائے جہاں وہ ضروری سمجھتے ہیں رشوت‘ کک بیکس اور دیگر سستے انتظامات سے اپنے لیے ماحول کوسازگار بنا لیتے ہیں۔ ملازمت یا معاہدے حاصل کرنے کے لئے امیر اور طاقتور اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہین اور باصلاحیت افراد کو خارج کر دیا جاتا ہے اور نااہل شخص‘ان عہدوں پر براجمان ہو جاتا ہے۔یہ صرف امریکہ ہی نہیں‘ بہت سے ممالک میں یہی قانون رائج ہے3 اوریہی عام روایات بن چکی ہیں۔دنیا کو بدلنا ہو گا۔ زیادہ ایمانداری اور قانون ساز لوگوں کو آزمانے کا موقع دینا چاہیے‘ تاکہ معاشرے میں بدعنوانی کا خاتمہ ہو اور بہترین دنیا تشکیل پا سکے۔