ہمارا پروردگار صاف صاف حکم دیتا ہے کہ '' اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے‘ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرواور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہو اور ‘نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو‘‘(سورۃ بنی اسرائیل 23)اسی سورہ کی اگلی آیت میں اسی بابت پھرفرمایا گیا ہے کہ ''اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو: اے میرے رب‘ جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے‘ اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما‘‘(سورہ بنی اسرائیل24)۔
ماں باپ کی فضیلت کے حوالے سے اور ان کے مرتبے کے بارے میں قرآن کی 31ویں سورہ میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ ''اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے‘ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو (انسان) میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے‘ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘(سورہ لقمان14 )۔
لاہور کی ایک درمیانے درجے کی آبادی میں ایک انتہائی عمر رسیدہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے شادی شدہ بیٹے‘ بہو اور ایک جوان بیٹی کے ساتھ رہ رہی تھی اوروہ اپنی بہو اور اس کی ماں کے انتہائی نا مناسب اور ظلم کی حد تک روا رکھے جانے والے رویے پر خاموشی سے زندگی کے دن گزار رہی تھی۔ اس کی بہو کا ہر وقت یہی شکوہ رہتا کہ میرے خاوند کی کم تنخواہ میں گھر کا خرچہ اور کرایہ ہی پورا نہیں ہوتا‘ اوپر سے اماں کی بیماری اور دوائیوں کے اخراجات اور ساتھ جوان نند کی تعلیم کے اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ دسمبر کی ایک صبح اس کا بیٹا اور بہو اپنے کمرے اور باورچی خانے کا سامان بڑے بڑے ڈبوں میں باندھنے لگے۔ ماں حیران ہو کر پوچھنے لگی کہ بیٹا یہ کیا کر رہے ہو؟ جس پر بہو نے تڑاخ سے جواب دیا کہ ہم نے نیا گھر کرائے پر لے لیا ہے ‘وہاں جا رہے ہیں۔ ماں نے پوچھا: ہماراسامان ؟ جس پر بیٹے نے ہلکی آواز سے‘ لیکن بہو نے سفاک لہجے میں کہا کہ آپ نہیں‘ صرف ہم یہاں سے جا رہے ہیں ۔ماں نے بیٹے کاہاتھ پکڑکرکہا :چاند اس گھر میں مجھ بوڑھی ماں اور بیٹیوں جیسی اپنی جوان بہن کو اکیلا چھوڑ جائو گے؟وہ اکلوتا بیٹا اپنی بوڑھی اور بیوہ ماں ، جس نے جوانی میں ہی اپنے خاوند کی اچانک وفات کے بعد بیوگی کاٹی دن رات ایک کرتے ہوئے ‘نہ جانے کس طرح پال پوس کا بڑا کیا‘ اسے تعلیم دلائی‘ اپنی شادی کے سنبھالے ہوئے زیورات میں سے کچھ بیچ کر اور باقی سے اس کی دلہن کیلئے نئے فیشن کے زیور بنوا کر اس کی شادی کی، آج اپنے اس بیٹے کو سامان لے جاتے ہوئے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی‘ لیکن اس اکلوتے نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ چند دنوں بعد جب کرائے کیلئے مکان کی مالکہ نے گھنٹی بجائی تو بیوہ عورت کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ بے چارگی سے جوان بیٹی کو دیکھتے ہوئے‘ اسے گھر میں رکھی جمع پونجی لا کر کرایہ دینے کو کہا اور جیسے ہی مکان کی مالکہ باہر نکلی تو دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونا شروع ہو گئیں۔
ایسے معاشرے میں جہاں سگے ساتھ چھوڑ گئے‘ وہاں ایک بوڑھی اور فشار خون میں مبتلا خاتون کو جب اپنی جوان بیٹی کے ساتھ اکیلے میں رہنا پڑے تو کیااس پر کیا بیت رہی ہو گی ‘ یہ وہی جان سکتی ہے یا وہ‘ جنہیں معاشرے کی آوارگی اور خصلت کا تھوڑا سا بھی اندازہ ہے‘ کیونکہ یہاں پر تو پانچ سات برس کی بچیاں بھی گندی ذہنیت سے محفوظ نہیں؟میںحیران ہوں کہ وہ کیسا بیٹا ہے‘ جس کی پیدائش کیلئے اس کے ماں باپ نے نہ جانے کیا کیا دعائیں مانگتے ہوئے کتنے حسین خواب دیکھے ہوں گے‘ جسے9ماہ تک اپنے پیٹ میں لئے ہوئے ماں اس کی خوبصورتی نیک عادات اور طویل صحت مند زندگی کی دعائیں مانگتی رہی ہو گی‘ جس کی خاطر اس نے اپنی جوانی تیاگ دی‘ جس کو بچپن میں توتلی زبان بولتا سن کر وہ خوشی سے پاگل ہو جاتی ہو گی اورجب اس نے چلنے کیلئے پہلا قدم اٹھایا تو اس کو دیکھ کر اپنی بانہوں میں لپیٹ لیاہو گا‘تاکہ اس کا لعل کہیں گر نہ جائے۔کاش! وہ بیٹا‘ قرآن پاک کا یہ فرمان پڑھ لیتا کہ ''اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے‘ اور اگر وہ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک بنائے ‘جسے تو جانتا بھی نہیں تو ان کا کہنا نہ مان‘ تم سب نے لوٹ کرمیرے ہاں ہی آنا ہے ‘تب میں تمہیں بتا دوں گا جو کچھ تم کرتے تھے‘‘ ّ(سورۃ العنکبوت8) ۔
ایک قریبی عزیزہ کی زبانی جب اس کے ہمسائیگی میں ہونے والی یہ کہانی سنی تو میرے اندر ماں باپ کے حقوق پر یہ کالم فرسائی کی تحریک اٹھی۔ذہن نشین رہے کہ جس مکان میں بیوہ اپنی بیٹی سمیت موجود ہے‘ اس کے تین پورشنز میں دوسرے کرایہ دار بھی ہیں اس لئے وہ یہ گھر چھوڑ کر کسی دور آبادی میں کم کرایہ کا گھر لینے کو تیار نہیں شائد ماں کو ہر روز امید رہتی ہے کہ اس کا اکلوتا بیٹا ابھی آ کر اسے سینے سے لگا لے گا؟۔بیٹے اور بہو کو گئے ہوئے چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ ماں بیٹی کس طرح بائیس ہزار روپے اس گھر کا کرایہ ادا کرتی ہیں؟۔ پانی بجلی اور گیس کے بل کیسے ادا کرتے ہوں گے ؟
قرآن ِپاک میں والدین کے حقوق بارے واضح احکامات ہیں۔اسی بابت ایک آیت یہ ہے کہ ''اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘ بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے‘‘ (سورۃ لقمان13) ۔ الغرض قرآن حکیم میں اﷲ نے اپنے بندوں سے واضح کہا ہے کہ ''اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی‘ کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا‘ اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں‘ یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا‘ تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح کر‘ بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں‘‘ ( سورۃ الاحقاف15)۔
قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حقارت یا غلط رویہ رکھنے پر اپنی شدید ناراضی اور غصے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہوئے انسانوں کو خبردار کیا ہے ''اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم پر تف ہے‘ کیا تم مجھے یہ وعدہ دیتے ہو کہ میں قبر سے نکالا جاؤں گا؛ حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر گئیں‘ اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کر رہے ہیں کہ ارے تیرا ناس ہو ایمان لا‘ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے‘ پھر وہ کہتا ہے کہ یہ ہے کیا (چیز)‘ مگر پہلوں کے افسانے (ہی ہیں)‘‘...''یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے حق میں بھی ان لوگوں کے ساتھ اللہ کا قول پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے جن اور انسان ہو گزرے ہیں‘ بے شک وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں‘‘( سورۃ الاحقاف17-18 )۔
اب یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی یاد کرانے کی ضرورت ہے کہ اﷲ کا عذاب بہت ہی شدید اور تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ اٹل بھی ہے‘ اس لئے اے انسانو... اب بھی وقت ہے‘ اب بھی مہلت ہے ‘اپنے ماں باپ کے قدموں میں جھکے رہو‘ ان سے پیار و محبت سے بات کرو اپنی ضروریات کو ان کے آرام پر قربان کر دو...ورنہ یاد رکھنا کہ قہر الہٰی کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہو ‘کیونکہ ایسے لوگوں کیلئے اس کا عذاب ِ عظیم سامنے ہے ‘جو اس قدر درد ناک ہو گا کہ فرشتے بھی پناہ مانگیں گے۔