موسم بدل گیا ہے۔ اگرچہ صبحیں اور شامیں قدرے خنک ہوتی ہیں لیکن دھوپ میں تمازت آ گئی ہے۔ پنکھے چلنے لگے ہیں‘ ایئر کنڈیشنرز کی صفائی بھی شروع ہو چکی ہے۔ کمبل‘ کوٹ اور گرم ملبوسات الماریوں میں چلے گئے ہیں۔ البتہ ''ہاف سلیو‘‘ ابھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ادھر سیاسی موسم بھی بدل رہا ہے۔ بدھ کو بلاول کی آمد پر اسلام آباد میں کورٹ کے باہر ''جیالوں‘‘ کی گرما گرمی نے سیاسی درجہ حرارت کو اچانک کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے انہیں پانچ تانگوں کی سواریاں قرار دیا لیکن ہمارے خیال میں اہم چیز تعداد نہیں‘ جیالوں کا موڈ اور جوش و جذبہ تھا۔ برادرم رئوف کلاسرا کے کالم میں بھی‘ جیالوں کے پولیس سے لڑنے مرنے... پولیس کو مارنے اور جواباً مار کھانے کا ذکر ہے (اگرچہ جیالوں کے اس ''رومانس‘‘ پر ان کا دل‘ ایک اور سوچ کے ساتھ‘ لہو سے بھر گیا)۔ ٹی وی سکرینوں پر‘ ہمیں تو تعداد بھی اچھی خاصی لگی۔ موقع پر موجود ہمارے بعض اخبار نویس دوست انہیں کم از کم ڈیڑھ‘ دو ہزار قرار دے رہے تھے۔ ظاہر ہے‘ اس کے لیے ملک بھر سے تو کارکنوں کو نہیں بلایا گیا تھا۔ ان میں غالب تعداد پنڈی/ اسلام آباد کے گردونواح کی تھی۔ کہا جاتا ہے‘ پیپلز پارٹی پنجاب میں انتخابی لحاظ سے غفرلہ‘ ہو چکی۔ جنوبی پنجاب میں دوتین پاکٹس ہیں‘ جہاں جدی پشتی الیکٹ ایبلز کے سہارے بھرم قائم ہے۔ البتہ اس بار پوٹھوہار میں بھی راجہ پرویز اشرف اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
بلاول کی کورٹ آمد پر طاقت کا مظاہرہ اس حقیقت کا مظہر تھا کہ ووٹر نہ سہی‘ پارٹی کا ورکر اب بھی موجود ہے (ضرورت اسے متحرک کرنے کی ہے)۔ جیالوں کے جوش و جذبے سے حکومت کے اعصاب بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے‘ حکومتی ترجمانوں کا لب و لہجہ اسی دبائو کی چغلی کھا رہا تھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی طاقت کے اس مظاہرے کو ہم ایک اور حوالے سے بھی نیک فال سمجھتے ہیں۔ پاکستان قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا‘ لیکن اس کے بعد ''وفاقیت‘‘ یہاں نئی سیاسی حقیقت تھی۔ 16 دسمبر 1971ء کے بعد ''نیا پاکستان‘‘ بھی ایک وفاق ہے‘ ریاستی اداروں کے ساتھ ملک گیر سیاسی جماعتیں بھی جس کے استحکام کے لیے بنیادی ضرورت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں طاقت کے اس مظاہرے سے سندھ کو بھی ایک خوشگوار پیغام گیا ہے۔
ہمیں یہا ںجناب مجید نظامی (مرحوم) سے اپنا ایک انٹرویو یاد آیا(شامی صاحب کے ہفت روزہ کے لیے‘ بزرگ اور معتبر ومحترم مدیر کا یہ بائیو گرافک انٹرویو‘ نوائے وقت جوائن کرنے سے خاصا عرصہ پہلے کی بات ہے)۔ 1970ء کے الیکشن کا ذکر ہوا ‘ تو نظامی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے امید وار ملک حامد سرفراز کو نہ صرف خود ووٹ دیا ‘بلکہ دیگر دوست احباب کو بھی انہیں ووٹ دینے کے لیے کہا۔ لاہور کے ملک حامد سرفراز ‘ جمہوری تحریکوں میں اپنے سرگرم کردار کے باعث ملک کے دونوں حصوں میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے تھے۔ نظامی صاحب سے بھی اچھی رسم وراہ تھی۔ لیکن ملک حامدسرفراز کو ووٹ دینے کا سبب ذاتی تعلق نہیں تھا۔ نظامی صاحب کا خیال تھا کہ حامد سرفراز کے ووٹوں سے شیخ مجیب کو یہ پیغام جائے گا کہ ہزار میل کے فاصلے پر‘ ملک کے اس حصے میں بھی ان کے لیے سپیس موجود ہے۔مغربی پاکستان میں پیر صاحب پگاڑا بھی شیخ کے حامیوں میں شامل تھے۔ شیخ مجیب‘ انتخابی مہم کے لیے ادھر آئے بھی تھے۔ بد قسمتی سے لاہور کے گول باغ (موجودہ ناصر باغ) میں ان کا انتخابی جلسہ بعض''محب وطن‘‘ نوجوانوں کی ہنگامہ آرائی کا شکار ہوگیا۔
ایک رائے یہ بھی ہے (اور خاصا وزن بھی رکھتی ہے) کہ جیالوں کا یہ اظہارِ یک جہتی‘ نوجوان بلاول کے لیے تھا‘ ان کے والد بزرگوار کے لیے نہیں۔ جدہ میں ہمارے قیام کے دنوں میں دلشاد جانی بھی وہاں ہوتے تھے۔ جدہ میں نہیں‘پورے سعودی عرب میں‘ پارٹی کے جیالوں میں نمایاں ترتھے۔ بھٹو صاحب اور بی بی کے خلاف ایک لفظ بھی انہیں گوارا نہ ہوتا۔ کچھ عرصہ پہلے‘ کئی اور پاکستانیوں کی طرح ‘بوریا بستر لپیٹ کروطن واپس آگئے۔ لیکن اب سیاسی عشق میں وہ گرمیاں نہیں رہیں۔وہ جو فراز نے کہاتھا ؎
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی‘ ترے نام سے‘ پہلے پہلے
میرے گزشتہ کالم ''بلاول اہم ہوگئے ‘‘ پر ان کا واٹس ایپ تھا'' بھائی جی! بلاول پر لکھنے کا شکریہ ۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ بلاول مستقبل میں ایک کامیاب لیڈر بن سکتاہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹی کو اپنے والد اور پھوپھو کی مداخلت کے بغیر‘ آزادانہ طور پر چلائے۔ اسے کسی کی کرپشن کا دفاع نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے والد اور پھوپھو کی بجائے اسے اپنے عظیم نانا اور والدہ کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھانا چاہیے۔ پارٹی کے پرانے اور نئے کارکنوں کو عزت واحترام دیتے ہوئے‘ اسے یونین کونسل کی سطح پر پارٹی کی تنظیم نوکرنی چاہیے‘‘۔
ہمیں بھی اس رائے میں وزن لگتا ہے کہ زرداری صاحب ‘نوجوان بلاول پر اپنا سایہ نہ پڑنے دیں۔زرداری صاحب کے خلاف کرپشن کی داستانوں میں مبالغہ بھی ہوگا‘لیکن سیاست میں اصل چیزPerceptionہوتا ہے اور یہی پرسیپشن زرداری صاحب کا اصل مسئلہ ہے۔وہ جو کہا جاتا ہے ‘ بدسے بدنام برا۔
محترمہ کے پہلے دور میں‘ انہیں ''ٹین پرسینٹ‘‘ کا خطاب ملا۔ دوسرے دور میں ‘بعض ستم ظریف''سینٹ پرسینٹ‘‘ کہنے لگے (یہاں تک کہ وہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے الزام سے بھی محفوظ نہ رہے)کہا جاتا ہے کہ محترمہ کو بھی اس مسئلے کا احساس ہوگیا تھا۔ ایک وفا شعار بیوی کے طور پر وہ اپنے زیرعتاب شوہر کا ہر طرح خیال رکھتیں۔ آصفہ کو گود میں اٹھائے اور بلاول او ربختاور کی انگلیاں تھامے‘ زرداری سے ملاقات کے لیے جیل کی طرف جاتے ہوئے ان کی تصاویر‘ دیکھنے والوں میں ہمدردی کا ایک خاص جذبہ پیدا کرتیں‘ لیکن انہوں نے پارٹی معاملات سے زرداری صاحب کو الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔ 5اپریل 1999ئ(نوازشریف کے دوسرے دورِ اقتدار میں) وہ بچوں کے ساتھ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوگئیں ۔ کہا جاتا ہے‘ انہیں جسٹس عبدالقیوم ملک اور جسٹس نجم الحسن کاظمی پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بنچ کے فیصلے کی سن گن ہوگئی تھی اور خود وزیر اعظم نوازشریف کی بھی خواہش تھی کہ وہ فیصلے سے قبل بیرون ملک چلی جائیں۔(ان کی بیرون ملک روانگی کے دس دن بعد (15اپریل کو) احتساب بنچ نے ایس جی ایس ریفرنس میں محترمہ (اور زرداری ) کو پانچ پانچ سال قید بامشقت ‘ 86لاکھ ڈالر جرمانے اور سرکاری عہدے کے لیے نااہل ہونے کی سزا سنادی۔ فیصلے کے وقت زرداری عدالت میں موجود تھے اس فیصلے سے قبل شہبازشریف ‘ سیف الرحمن اور جسٹس عبدالقیوم ملک کی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو ‘ الگ کہانی ہے)۔مشرف دور کے 6سال بھی زرداری صاحب نے جیل میں گزارے اور 2004ئکے اواخر میں رہائی کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔لیکن پیپلز پارٹی کی سیاست میں اب ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ (رہائی کے بعد عمرے کے لیے وہ محترمہ کے ساتھ سعودی عرب آئے ...اور بڑے میاں صاحب کے انتقال پر تعزیت کے لیے محترمہ کی سرور پیلس (جدہ) آمد پر بھی وہ ان کے ہمراہ تھے۔ اسی ملاقات میں میثا ق جمہوریت کے تصور نے جنم لیا)۔بیرون ملک قیام کے دوران‘ محترمہ کا بیشتر وقت دبئی میں اور زرداری صاحب کا امریکہ میں گزرتا۔ لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخطوں کی تقریب میں بھی زرداری صاحب نہیں تھے۔ لندن یا دبئی میں پارٹی کی اعلیٰ سطحی میٹنگز میں بھی‘ وہ موجود نہ ہوتے۔ محترمہ 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی پر‘ زرداری صاحب کو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دبئی چھوڑ آئی تھیں۔ ان کی المناک موت پر‘ بغاوت پر آمادہ سندھی نوجوانوں کی طرف سے لگائے گئے نعرے کے جواب میں ''پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے نے زرداری صاحب کے گزشتہ سارے گناہ دھوڈالے۔ ان کی پارٹی چوتھی بار برسراقتدار آگئی اور وہ ملک کے سب سے بڑے منصب (صدارت) پر بھی فائز ہو گئے‘ لیکن بدقسمتی ان کے تعاقب میں رہی‘ اور آج پھر یہ صورتحال ہے کہ پارٹی کے بہی خواہوںکے خیال میں بلاول‘ پارٹی کو نئی زندگی دے سکتے ہیں‘ بشرطیکہ زرداری صاحب کے سائے سے محفوظ رہیں۔