پاکستانی قوم ''یومِ پاکستان‘‘ کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اسلام آباد میں فوجی پریڈ کے انتظامات کو آخری شکل دی جا رہی تھی۔ ملائیشیا کے تاریخ ساز وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر بن محمد اس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ جہاں وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء نے ہوائی اڈے پر جا کر اُن کی راہ میں آنکھیں بچھائی تھیں۔ مہاتیر بن محمد اب چورانوے سال کے ہو چکے۔ انہوں نے جدید ملائیشیا کی بنیاد رکھی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک معاشی سپر پاور بنا دیا۔ کئی سال اس کی قیادت کا فریضہ ادا کرنے کے بعد اقتدار کو خیرباد کہا، اور عملی سیاست سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی، لیکن چند ہی سال گزرے تھے کہ معیشت اور معاشرت کی گاڑی کو پٹڑی سے اترتے دیکھ کر جوش میں آ گئے۔ برسر اقتدار جماعت کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر اسے انتخابی شکست سے ہمکنار کیا، اور ایک بار پھر عنانِ اقتدار سنبھال لی۔ وہ سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے والے سیاست دان کے طور پر عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ چورانوے سالہ نوجوان ملائیشیا سے باہر کئی ممالک میں بھی ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خاص طور پر ان کے شیدائی ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے طور پر جب حکومت مخالف کردار ادا کر رہے تھے، تو اُس وقت بھی ان کی خصوصی دعوت پر ڈاکٹر مہاتیر محمد پاکستان آئے تھے، اور اہلِ دانش کی بڑی تعداد سے خطاب فرمایا تھا۔ عمران خان پاکستان کو جنوبی ایشیا کا ملائیشیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان میں ابھی تک ''بزنس فرینڈلی‘‘ ماحول بن نہیں پایا۔ یہاں کاروبار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، عدالت سے لے کر سیاست تک اور بیوروکریسی سے لے کر احتسابی اداروں تک سب کی مداخلت کی اپنی منفیّت اور اپنے اثرات ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر مہاتیر محمد کو صدرِ پاکستان نے اعلیٰ ترین اعزاز ''نشانِ پاکستان‘‘ عطا کیا ہے اور یوں دونوں ملکوں اور رہنمائوں کے درمیان قریبی تعلق پر مہر ثبت کر دی ہے۔
ڈاکٹر مہاتیر بن محمد کو پاک سرزمین پر قدم رنجہ فرمائے ہوئے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ کراچی سے دِل دہلا دینے والی خبر آ گئی۔ عالم اسلام کے ایک ممتاز ترین عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے لیے مسجد جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر گولیاں برسا دی گئیں۔ وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے، لیکن ان کا گارڈ اور ساتھی نشانہ بن گئے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کو پاکستان ہی نہیں پوری دُنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دارالعلوم کراچی کے نائب سربراہ ہیں، اور اپنے بڑے بھائی مفتی محمد رفیع عثمانی کے ساتھ مل کر ہزاروں کیا، لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکے ہیں۔ انہوں نے کبھی خود کو جماعتی سیاست میں الجھایا نہ دامن کو کسی فرقہ وارانہ مسئلے میں اُلجھنے کی اجازت دی۔ جدید اور قدیم علوم پر ان کی یکساں دسترس ہے۔ مذہبی تعلیم اپنے گرامیٔ قدر والد مفتی محمد شفیع مرحوم کی نگرانی میں حاصل کی۔ کراچی اور پنجاب یونیورسٹیوں سے ایم اے اور قانون کی ڈگریاں ان کو عطا ہوئیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے، سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے رکن کے طور پر بھی فرائض ادا کئے۔ فقہی اور قانونی معاملات پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ اُردو، عربی اور انگریزی پر یکساں قدرت رکھتے اور سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنے افکار کے چراغ جلا چکے ہیں۔ وہ احتیاط سے زبان کھولتے، احتیاط سے قلم اٹھاتے اور احتیاط سے قدم بڑھاتے ہیں۔ دِل آزاری کو ان کی مجلس میں دم مارنے کی اجازت نہیں ہے۔
مفتی محمد شفیع مرحوم دارالعلوم دیو بند کے ان جلیل القدر اساتذہ میں سے تھے، جنہوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر تحریک پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ قائد اعظمؒ اور قائد ملت لیاقت علی خان کی نگاہ میں وہ ایک انتہائی خصوصی مقام کے حامل تھے۔ مفتی صاحب مرحوم نے جنہیں ہم سب مفتیٔ اعظم کے طور پر جانتے اور مانتے ہیں، دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی، اور آج وہ اپنے معیار کے اعتبار سے پاکستان میں دینی علوم کی سب سے بڑی درسگاہ ہے۔ اس کے فارغ التحصیل دُنیا بھر میں جہالت اور بے دینی کے اندھیروں میں علم و عمل کے چراغ جلا رہے ہیں۔
76 سالہ مفتی محمد تقی عثمانی تحریک پاکستان اور پاکستان سے تعلق کے حوالے سے ممتاز ترین ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو اس کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ اسلامی بینکاری کی بنیاد رکھنے، اور اس کے لیے افراد کار فراہم کرنے میں ان کا کردار قائدانہ ہے۔ ان جیسے شخص پر حملہ کرنے والا کوئی ذی ہوش مسلمان یا پاکستانی تو ہو نہیں سکتا۔ جس شخص نے کسی کو اپنا دشمن سمجھا ہو نہ حریف، اُس پر حملہ کرنے والے کے ڈانڈے لازماً بیرون ملک ملتے ہوں گے اور سرحد پار بیٹھے ہوئے کسی عنصر ہی کی شہ پر (یا سازش سے) اِس گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا گیا ہو گا... یقینا یومِ پاکستان کی مسرت اہلِ پاکستان سے چھین لینے ہی کے لئے یہ منصوبہ بنایا گیا ہو گا۔ لیکن اللہ کے کرم نے اسے ناکام بنا دیا۔ ڈاکٹر مہاتیر کے استقبال کی رونق ماند نہ پڑی اور اہلِ وطن روایتی جوش و خروش سے اپنا قومی دن منانے میں کامیاب ہو گئے۔ اربابِ حکومت پر لازم ہے کہ اِس سفاکانہ اور جاہلانہ حملے کے ذمہ داروں کا سراغ لگائیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں اور اہلِ علم کی حفاظت کے لئے خصوصی انتظامات کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے لیے بلٹ پروف گاڑی اور چوکس محافظ دستے کا اہتمام کیا جائے۔ ان پر بھی لازم ہے کہ اپنے معمولات کو نئی ترتیب دیں۔ حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے حکام کے ساتھ تعاون کریں، پاکستان کا یہ سرمایہ کسی غفلت اور کوتاہی کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ لشکر میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی حیثیت جرنیل کی سی ہے، ہماری جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں پر بھی اِس حقیقت کا ادراک اور اعتراف لازم ہے۔
بستی بسنا کھیل نہیں ہے
بحریہ ٹائون کراچی کے معاملات کو بالآخر سپریم کورٹ نے اس دانش مندی سے سمیٹا ہے کہ جہاں اس سے وابستہ افراد کو ڈوبنے سے بچا لیا، وہاں حکومت کے خزانے کو بھرنے کا سامان بھی کر دیا۔ بحریہ ٹائون کو اس کے زیر تصرف آنے والی سرکاری زمین کی قیمت کے طور پر آئندہ سات برسوں میں 460 ارب روپے (تین ارب ڈالر سے زائد) ادا کرنا ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کے اِس فیصلے نے لاکھوں گھروں کو روشنیاں واپس کر دی ہیں۔ مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو معاملہ اتنا تھا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ ٹائون کی دور افتادہ زمینوں کا تبادلہ اپنی زمینوں سے کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ یوں کراچی کے قریب ویرانوں کو ایک جدید شہر میں تبدیل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو رہا تھا۔ 16 ہزار ایکڑ اراضی کی جو قیمت لگائی گئی ہے، وہ 60 لاکھ روپے کنال کے قریب بنتی ہے۔ بے آباد زمین کی یہ قیمت بہت زیادہ قرار دی جا سکتی ہے۔ بحریہ ٹائون نے اس کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کر کے جو کڑا چیلنج قبول کیا ہے‘ دُعا کی جانی چاہیے کہ وہ اس پر پورا اُترے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں دو دانشور دوست سر پکڑ کر بیٹھے تھے کہ ملک ریاض سستے چھوٹ گئے، اس پر ایک با خبر نے مجھ سے رابطہ کرکے بتایا کہ ملیر ضلع کے 43 دیہات میں اس وقت بھی 5,17000 ایکڑ اراضی ویران پڑی ہے۔ مذکورہ دانشور یا ان جیسے کوئی اور بالغ نظر بحریہ ٹائون سے وصول کی جانے والی قیمت پر اس سب کو فروخت کر ڈالیں، تو ایک سو ارب ڈالر وصول ہو سکتے ہیں، یوں پاکستان کے معاشی دلدّر دور ہو جائیں گے۔ سات سالانہ قسطوں میں بھی سو ارب ڈالر مل جائیں تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس لیے دوڑیے، بھاگئے اور گاہک ڈھونڈ لائیے۔ فی الحال سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ کراچی کے نزدیک نیا کراچی آباد ہو رہا ہے۔ حرمین شریفین کے بعد دُنیا کی سب سے بڑی مسجد وہاں ہو گی، ایسا سٹیڈیم بھی ہو گا جہاں ہزاروں تماشائی محفوظ فضا میں کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ تحفظ کی تلاش میں دبئی کا سفر اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ خامیوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر، یہ بھی تو یاد رکھنا پڑے گا کہ
دِل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)