80 سال پہلے، لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ کا اجتماع ہر لحاظ سے تاریخی نوعیت کا تھا۔ برطانوی راج کے سابق ہندوستان کے ہر کونے سے مسلمان عمائدین اکٹھے ہوئے۔ ایک فیصلہ، ایک عزم، جس نے اس خطے کی تاریخ بدل دی۔ مسلم قومیت کے تصور کی تشکیل اور ارتقا کے مراحل کئی صدیوں پر محیط تھے، مگر اس نظریہ میں سیاسی جان اُس وقت پڑنا شروع ہوئی جب برطانوی سامراج نے نوآبادیاتی ریاست کی منظم بنیاد رکھی، اور نئے ادارے ترتیب دینا شرو ع کیے۔
مغل سلطنت کے زوال، 1857ء کی آزادی کی پہلی تحریک، برطانوی حکومت کے مظالم اور مغلیہ دور کے مکمل خاتمے کے بعد مسلمان سیاسی، فکری اور سماجی انتشار کا شکار ہو چکے تھے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ ہندوستان کے ہر حصے میں بکھرے ہوئے مسلمان کبھی ایک نظریے، مذہبی مسلک یا سیاسی طور پر متحد اور یک جان تھے۔ لیکن پھر خطے میں دیگر مذاہب اور قومیتوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ برطانوی راج نے مقامی اکابرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر یورپ سے اٹھ کر انگریزوں نے کس طرح ہندوستان کی وسیع و عریض سلطنت کو ختم کیا، اور قدم جما لیے؟ ردِ عمل کے طور پر بیداری کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی آزادی سے پہلے تک کئی سوال سوچ پر حاوی رہے، لیکن سب سے بڑا سوال ایک تھا کہ ہم کون ہیں، یہ غلامی ہمارا مقدر کیوں بنی، اور ہم اس سے آزادی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ سوالات سب قومیتوں کے سامنے تھے۔ لیکن تاریخی پس منظر میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی اصلاح، تبدیلی اور تجدید کی کئی تحریکیں مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے لگی تھیں۔ مسلمان تقریباً ایک ہزار سال سے اس خطے کی تہذیب، تاریخ، سیاست، امن اور جنگ کا حصہ تھے۔ اُنھوں نے سلطنتیں قائم کیں، علمی اور فکری ادارے بنائے، ہندوستانی تہذہب، ادب اور ثقافت کو متاثر کیا۔ اُن کی خطے سے باہر شناخت ہندوستانی، بنگالی اور پنجابی مسلمان کے طور پر رہی، کہیں جغرافیائی شناخت غالب تھی، کہیں لسانی، اور کہیں پر وہ مقامی تھے، لیکن وہ ایک وسیع تر مذہبی حلقے سے وابستہ تھے، جو ان تمام شناختوں پر غالب تھا۔
مغربی سامراج نے کئی نظریات کی ترویج کی، جن میں قومیت کا نظریہ غالب تھا۔ مغربی سامراج کے کئی پہلو اور محرکات تھے، لیکن قومی طاقت، قومیت، اور اس کے ساتھ کمزور قوموں پر غلبہ حاصل کرنا، اور اُنہیں منڈیوں میں تبدیل کرکے اقتصادی فوائد حاصل کرنا سرِ فہرست تھا۔ ہندوستان اور دیگر نوآبادیاتی نظام کے نیچے دبی ہوئی دیگر اقوام نے بھی قومیت کا یہی نظریہ اختیار کیا کہ ہم ایک قوم ہیں؛ چنانچہ ہمیں آزادی، اور آزاد ریاست بنانے کا حق ہے۔
مسلمانوں کے تمام دھڑے متفق تھے کہ ہم ایک جداگانہ حیثیت، مذہب، ثقافت اور تاریخ رکھتے ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے اداروں میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی ملنا چاہیے۔ تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کے مواقع ملنے چاہئیں، منتخب اداروں میں ان کیلئے نشستیں مختص کی جائیں۔ انہی مقاصد کے حصول کے لیے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ہی کانگرس اور مسلم لیگ میں جداگانہ انتخابات کے مسئلہ پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ کانگرس کا نظریہ یک قومی تھا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ کے منشور، سیاست اور جدوجہد کی بنیاد دو قومی نظریے پر تھی۔ دو قومی نظریے کا ارتقا اور اس کی مقبولیت کے پیچھے کئی صدیوں پر محیط فکری تحریکیں تھیں۔ شروع میں مقصدیہی تھا کہ مسلمان قومیت کو آبادی کے تناسب سے ریاست میں طاقت کاحصہ دیا جائے۔ یہ ایک اصولی مطالبہ تھا، لیکن کانگرس اس پر راضی نہ تھی۔ کانگرسی رہنمائوں کی دلیل یہ تھی کہ پہلے ہندوستان کو برطانوی سامراج سے آزاد کراتے ہیں، اس کے بعد آزاد ہندوستان میں سیاسی مسائل حل کر لیں گے۔ مسلم لیگ کا مطالبہ یہ تھا کہ آئینی مسائل، خاص طور پر مسلمانوں کی نمائندگی کے مسئلے پر برطانیہ کے اقتدار چھوڑنے سے پہلے سمجھوتہ ہونا ضروری ہے۔
چالیس سال تک کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان مذاکرات‘ سیاسی تصادم اور کشمکش کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلمان اپنے اکثریتی صوبوں اور ریاستوں کی داخلی خود مختاری، اور اپنے نمائندگی کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے آئینی تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے مخالفین کچھ بھی کہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کی تشکیل اور قیامِ پاکستان کی جدوجہد آئینی اور قانونی تھی۔ مسلم لیگ کے مطالبات کے پیشِ نظر، اور آئینِ ہندوستان کے خدوخال طے کرنے کے لیے تین گول میز کانفرنسیں ہوئیں۔ دونوں جانب سے دلائل، تاریخی حوالے اور زمینی حقائق سامنے رکھتے ہوئے اپنا اپنا موقف پیش کیا گیا، لیکن اتفاق نہ ہو سکا۔
مسلمانوں کی صفوں میں کچھ دھڑے مسلم لیگ کے دو قومی نظریے سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ابوالکلام آزاد، خصوصاً جمعیت علمائے ہند مسلم لیگ کے تصور کی مخالفت کر رہے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو بھی وہی آزادی اور مواقع میسر آئیں گے جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ملیں گے۔ اُن کے نزدیک قومیت کی بنیاد مذہب نہیں، جغرافیہ تھا۔
جب تمام آئینی کاوشیں ناکام ہوئیں تو مسلم لیگ کی قیادت نے ایک الگ وطن، پاکستان کے قیام کیلئے سوچنا شروع کر دیا۔ قراردادِ پاکستان دراصل مسلمانوں کی سیاسی و جغرافیائی حقیقت کا اظہار تھی۔ اس سے تقریباً آٹھ سال قبل علامہ اقبال خطبہ الٰہ آباد میں اشارہ دے چکے تھے۔ اگر مسلمانوں کو آئینی تحفظ نہیں دیا جا سکتا تو کم از کم مسلمان اکثریتی علاقوں میں ایک الگ ریاست قائم کر دی جائے۔ میرے نزدیک یہ اکثریتی علاقے اگر ہندوستان کی بیرونی سرحد پر نہ ہوتے تو دو قومی نظریے کے مطابق حقوق کی جنگ تو لڑی جاتی، لیکن ایک مقتدر ریاست کا قیام ممکن نہ ہوتا۔
تصورِ پاکستان سے قراردادِ پاکستان اورپھر اس کے حصول کی منزل سادہ معاملہ نہ تھا۔ برطانوی حکومت ہندوستان کو تقسیم کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ کانگرس، مہاتما گاندھی، جو ہندوستان میں ایک مقبول، متحرک اور پرجوش رہنما کے طور پر ابھرے تھے، لچک دکھانے کو تیار نہ تھے۔ اُن کا موقف تھا کہ جو کچھ لینا ہے، ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے لے لو۔ لیکن مسلمانوں قیادت کو اعتماد نہ تھا، وہ اُن کی باتوں میں نہ آئے۔
آئندہ کا ہندوستان کیا ہو گا؟ اس کا ایک خاکہ، ایک عملی نمونہ مسلمانوں کے سامنے اُس وقت آیا جب 1937ء کے انتخابات کے بعد کانگرس کی وزارتیں بنیں۔ یہ تجربہ مسلمانوں کے لیے خوشگوار نہ تھا۔ کانگرس پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔ قانونی مساوات کی بجائے تعصب کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اس دور میں مذاکرات کی بجائے رنجشیں بڑھنے لگیں اور تصادم کی فضا گہری ہونے لگی۔ مسلمانوں کے اکثریتی علاقے ہندوستان سے الگ کر کے ایک آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔
قراردادِ پاکستان اسی جدوجہد کا اعلان، اور مسلمانوں کی اپنے مقصد کے ساتھ ہم آہنگی اور اتحادکا اظہار تھا۔ کچھ دھڑے اس تصور کے حامی نہیں تھے۔ اُن کے پیشِ نظر دو خدشات تھے۔ ایک یہ کہ مسلمان تین مختلف اکائیوں میں تقسیم ہو جائیں گے، اور اُن کا اجتماعی وزن کم ہو جائے گا۔ وہ بکھر جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ اگر پاکستان بن بھی گیا تو علیحدگی کا یہ تصور مزید لسانی اور علاقائی تحریکوں کو جنم دے گا۔ ابوالکلام آزاد نے ان خدشات کا اظہار دلائل کے ساتھ کیا تھا۔
مسلم لیگ اور قائدین کے نزدیک قیامِ پاکستان ناگزیر تھا۔ یہ ایک تاریخی عمل اور جغرافیائی جبر کا نتیجہ تھا۔ قائدِ اعظم کی ولولہ انگیز قیادت، مسلم قومیت کے تصور پر پختہ یقین، انتھک محنت اور توانا دلائل نے مسلمانوں کے دل میں آزادی کی تڑپ پیدا کر دی۔ مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان کو اپنی پہچان بنا لیا۔ اُنہیں پاکستان کی صورت اپنا روشن مستقبل دکھائی دینے لگا۔ وہ ہر قربانی کے لیے تیار تھے۔ تصورِ پاکستان اور قراردادِ پاکستان کی تعبیر عام مسلمانوں کے خلوص اور جذبے سے ہی ممکن ہوئی۔ لیکن عشرے گزرتے گئے، اور عام شہری دیکھتا رہا کہ ریاست کی طاقت، وسائل اور اقتدار پر کچھ طبقات غالب آتے گئے۔ یہ طبقات کبھی بھی عوامی جذبے سے ہم آہنگ نہ تھے۔ اس صورتِ حال کی عکاسی فیض نے بہت عمدگی سے کی ہے،
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں