تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-03-2019

… چپ رہنے کی لذّت کیا جانو!

عیوب و نقائص ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں اور اُن کے ہاتھوں مصائب کی تعداد و شدت بھی دوچند ہوئی جاتی ہے‘ مگر ہم ہیں کہ اس حوالے سے سوچنے اور سمجھنے پر آمادہ ہونے کو تیار نہیں۔ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی بہت سی خرابیاں معاشی سطح پر بھی الجھن اور پریشانی کا باعث ہوئی جاتی ہیں۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہو کہ تمام معاملات آپس میں جُڑے ہوئے ہی تو ہوتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی پہلو کو باقی تمام پہلوؤں سے الگ کرکے دیکھا نہیں جاسکتا۔ 
اللہ کی ذات ستّار العیوب ہے اور ہم ہیںکہ ''انصار العیوب‘‘ کے منصب پر فائز رہنے پر بضد ہیں! ماحول کو خرابیوں سے پاک رکھنا ہر انسان کا فرض ہے اور اس معاملے میں ہمیں کوئی استثناء حاصل نہیں‘ مگر نہ جانے کیوں ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ خرابیوں کے بڑھتے رہنے پر بھی ہم مشکلات سے دوچار نہیں ہوں گے‘ ہماری زندگی میں سادگی و پُرکاری ہی رہے گی! 
بولنے میں اللہ نے بڑی طاقت رکھی ہے۔ جو لوگ بولنا جانتے ہیں وہ بہت کچھ پاتے ہیں۔ بولنے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں کیا ہے‘ کتنا دم خم ہے اور کسی کو متاثر کرنے کی صلاحیت و سکت کس قدر ہے۔ ٹھیک ہے جناب‘ مگر بولنے کی عادت تب پروان چڑھائی جائے جب اندر کچھ ہو۔ جب باطن کھوکھلا ہو‘ خالی برتن کے مانند ہو تو بولتے رہنا محض پریشانی کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ بولنے کا ہنر اُنہیں زیبا ہے‘ جنہوں نے اپنے باطن کو کام کی باتوں سے مزیّن کیا ہو۔ کنویں میں ڈول ڈالیے تو وہی کچھ باہر آتا ہے‘ جو کنویں میں ہوتا ہے۔ کنواں اگر کھاری پانی کا ہو تو ڈول میں میں کھاری پانی ہی بھرے گا اور اگر کنواں خشک ہو تو؟ ظاہر ڈول کو خالی ہی باہر آنا پڑے گا۔ 
یہی معاملہ اُن کا ہے ‘جو اپنے باطن کے کنویں کا معیار بلند کیے بغیر بولنے کا ڈول ڈالتے رہتے ہیں۔ بولنا ہنر ہوا کرتا تھا‘ مگر اب عادت ہے‘ بلکہ ''ہَوکا‘‘ ہے۔ فیض احمد فیضؔ سے غلطی ہوئی ‘جو انہوں نے کہہ دیا ع 
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے 
یاروں نے آزاد لبوں کو ''آزار‘‘ میں تبدیل کرلیا! ایک زمانہ تھا کہ جب کوئی لب کُشا ہوتا تھا تو کوئی بات کہنے کی کوشش کرتا تھا اور ما فی الضمیر بیان کرنے کو اہم ذمہ داری‘ بلکہ فریضہ تصور کرتا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ لوگ جب کچھ چھپانا چاہتے ہیں تو بولنے پر تُل جاتے ہیں! کوئی بولنے پر تُلا ہو تو سُنتے رہیے اور بات سمجھنے کی کوشش کرکے اپنا سَر ان دیکھی دیواروں سے ٹکراتے رہیے! 
آج کا پاکستان بولنے والوں کا پاکستان ہے۔ لوگ بات بے بات بولنے پر کمر کستے ہیں اور اس محاذ پر ایسی دھما چوکڑی مچاتے ہیں کہ دشمن کی سماعت کے مورچوں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرے کے دوران میڈیا کے پھیلاؤ اور بالخصوص ٹی وی چینلز کی مہربانی سے اس قوم کو اور کچھ ملا ہو نہ ملا ہو‘ بولتے رہنے کا خبط تو مل ہی گیا ہے۔ چینلز پر پیش کیے جانے والے تجزیوں اور تبصروں ہی کا یہ کمال ہے کہ روزمرہ گفتگو بھی ٹاک شو کا انداز اختیار کرچکی ہے۔ غالبؔ کے ایک خط میں منقول ہے ؎ 
پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا 
اِک ذرا چھیڑیے‘ پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے! 
آج بیشتر پاکستانیوں کی ذہنی کیفیت یہ ہے کہ حال بھی پوچھئے تو ایسا لگتا ہے‘ جیسے گھوڑے کو ایڑ لگادی گئی ہو۔ موقع غنیمت جان کر حال بھی یوں بیان کیا جانے لگتا ہے ‘گویا موسمی امور کا ماہر اینکر کا اشارہ پاکر اپنا سیگمنٹ شروع کر رہا ہو! 
بولنے کا معاملہ ایسا ہوگیا ہے کہ پوچھئے ایران کی تو بیان کی جاتی ہے توران کی۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘ کے مصداق لوگ اِدھر اُدھر کی کارآمد و لاحاصل باتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر سماں باندھنے کی کوشش کر گزرتے ہیں۔ کسی نہ کسی طور اپنے دل کا حال بیان کرکے سکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ اب اگر سُننے والے بے حال ہوجائیں تو یہ اُن کا نصیب! 
یہ سب کیوں ہے؟ جو کچھ کانوں کے ذریعے سے ذہن میں انڈیلا جائے گا ‘وہ کسی نہ کسی صورت باہر بھی تو آئے گا۔ اگر کوئی یومیہ بنیاد پر تین چار ٹاک شو جم کر دیکھے گا اور دن بھر خبروں بالخصوص بریکنگ نیوز سے بھی اپنی سماعت کو ''آسودہ‘‘ کرے گا وہ بولنے پر کمر بستہ ہوکر دوسروں کی سماعت کو بھی تو آلودہ کرے گا! جو کچھ ذہن میں داخل ہوتا ہے اُسے باہر بھی تو آنا ہوتا ہے۔ ع 
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا 
ہمارے احباب میں بھی کئی ہیں ‘جنہوں نے از خود نوٹس کے تحت خود کو تجزیہ کار اور مبلغ کے درجے پر فائز کرلیا ہے۔ اُن کے ذہن میں یہ ''نکتۂ جاں فزائ‘‘ سماگیا ہے کہ کسی کو بھی کچھ جاننا ہو تو اُن سے جانے! جب وہ کچھ بیان کرنے پر آتے ہیں تو انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دل جلاکے سرعام رکھ دیا 
ایک دور وہ بھی تھا کہ لوگ بولنے کیلئے موزوں ترین موقع کا انتظار کرتے تھے۔ بیشتر معاملات خاموشی کی زبان سے موقف بیان کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ خاموش رہنا ہنر بھی تھا اور اعلیٰ اخلاقی قدر بھی۔ بیان کرنے کے لیے کچھ جمع ہو جائے تب تک لوگ خاموش رہنے کو دانش کی علامت گردانا کرتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ خاموش رہنے کو حماقت‘ بلکہ کم و بیش گناہ کا درجہ حاصل ہے۔ لوگ اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی معاملے میں چپ رہنے کی صورت میں کہیں باقی دنیا سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ جو ریس چینلز میں لگی ہوئی ہے‘ وہی لوگوں میں بھی تو لگی ہوئی ہے‘ جو کچھ معلوم ہو جائے وہ بیان کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانا انتہائی نوعیت کی نفسی پیچیدگی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لوگ کسی بات کو چند منٹ کے لیے بھی اپنے پاس رکھنا گوارا نہیں کرتے۔ بولنے کو‘ بولتے رہنے کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ کسی سے کسی کا پتا بھی پوچھئے تو جواب میں پورے علاقے اور پھر شہر کا احوال سُننے کو ملتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی کے اشہب ِ گفتار کو لگام دینے کی کوشش کرتے ہوئے انسان سوچتا ہے ؎ 
تو اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے 
امید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے 
گزرے وقتوں کی بہت سی نشانیوں میں خاموشی بھی صفِ اول میں جگہ ملی ہوئی تھی۔ یہ ایک اہم وصف ہوا کرتا تھا جو بہت سے عیوب پر اس طور پردہ ڈالے رہتا تھا کہ خرابیوں کا گراف بلند نہیں ہو پاتا تھا۔ یاروں نے اس وصف کو یوں رخصت کیا ہے کہ خال خال دکھائی دیتا ہے۔ لازم سا ہوگیا ہے کہ اس قوم کو بولنے سے زیادہ خاموش رہنا سکھایا جائے۔ بیشتر معاملات میں خاموشی ہی اِکسیر ہوا کرتی ہے‘ اگر کوئی سمجھے۔ حالات ہمیں گفتگو کی چورنگی پر لائے ہیں اور گھمائے ہی جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ اس حد تک بڑھا ہے کہ ہم گھن چکر ہوکر رہ گئے ہیں۔ اچھا ہے کہ اس سفر میں خاموشی اور گفتگو میںکم آمیزی کا پڑاؤ بھی آئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved