تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     25-03-2019

مولانا تقی عثمانی اور پروفیسر خالد حمید

دو استادوں پر حملہ ہوا۔ مولانا تقی عثمانی استاذ تھے بلکہ استاذالاساتذہ۔ خالد حمید بھی استاد تھے۔ ایک کو اللہ نے محفوظ رکھا اور ایک اپنی جان ہار گیا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے سماج نے کس ردِ عمل کا مظاہرہ کیا؟
ایک ردِ عمل وہ بھی تھا جس کا اظہار نیوزی لینڈ کے سماج نے کیا۔ ایک دہشت گرد سے مکمل لا تعلقی کا اعلانِ عام۔ ایسی لا تعلقی کہ ماں نے بھی بیٹے کو بیٹا ماننے سے انکار کر دیا۔ تعریف موسلا دھار بارش کی طرح آرڈرن پر برس رہی ہے۔ وہ اس کی مستحق بھی ہیں۔ آزمائش کے لمحے میں وہ پورے عزم اور فکری یک سوئی کے ساتھ اس طرح کھڑی ہو گئیں کہ تاریخی عمل کا رخ موڑ دیا۔ حالیہ تاریخ میں شاید وہ منفرد شخصیت ہیں جس نے تنِ تنہا وقت کے بہاؤ کو اس طرح متاثر کیا ہو۔
ماضی قریب میں تاریخ پر اثر انداز ہونے والی اور شخصیات بھی بہت گزریں مگر ان کا کردار منفی رہا۔ انہوں نے تاریخ کو متاثر ضرور کیا مگر اس طرح کہ زمین فساد سے بھر گئی۔ انسانی جاں ارزاں ہو گئی اور نفرت کا کاروبار چمک اٹھا۔ آرڈرن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ کو مثبت طور پر متاثر کیا۔ انہوں نے نفرت نہیں، محبت کو ارزاں کیا۔ وہ جس نظامِ اقدار کو مانتی ہیں اس کے دفاع کے لیے میدان میں نکل آئیں اور ہوا کا رخ بدل دیا۔ 
اُس معاشرے کو بھی داد دیجیے کہ وہ بھی اپنی لیڈر کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی اقدار سے وابستگی کا عملی ثابت فراہم کر دیا۔ مغرب جس مذہبی و سماجی تنوع کا علم بردار ہے، نیوزی لینڈ کا معاشرہ اس کی عملی تصویر بن گیا۔ اس نے ظالم کا نہیں، مظلوم کا ساتھ دیا۔ اس نے عملاً یہ بتایا کہ مذہبی رواداری کیا ہوتی ہیں۔ روشن خیالی کا مطلب، مذہب دشمنی نہیں، مذہبی تنوع کا احترام ہے۔
مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی ہمارا معاشرہ بھی ظلم کے خلاف اس طرح ہم آواز ہو۔ کبھی وہ بھی اپنی اقدار کے لیے اس طرح کھڑا ہو جائے کہ اس کا وجود اس کی عملی تصویر بن جائے۔ ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کی غیر معمولی اکثریت ہے۔ اسلام کا نظامِ اقدار ایسا عالی شان ہے کہ سبحان اللہ۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی ذات والا صفات میں یہ اقدار مجسم ہو گئی تھیں۔ جو ایمان کے ساتھ ان کی صحبت میں بیٹھے، ان کی اخلاقی پاکیزگی کا عالم یہ تھا کہ عالم کے پروردگار نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا۔ مگر آج وہ اقدار کہاں گئیں؟ اقبال ہم سے پوچھتے رہے: تھے تو وہ آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
بہاول پور میں ایک استاد کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ ہمارے نظامِ اقدار میں استاد اور شاگرد کا رشتہ باپ اور بیٹے کا رشتہ ہے۔ اگر ہم ان اقدار پر یقین رکھتے تو پورا معاشرہ سراپا احتجاج بن جاتا۔ کوئی ایک آواز ایسی نہ ہوتی جو اس ظلم کے خلاف بلند نہ ہوتی۔ قاتل کا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا۔ تعلیمی اداروں میں اضطراب ہوتا اور طلبا تنظیمیں استاد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتیں۔ محراب و منبر سے احتجاج ہوتا۔ سکول اور مدرسے کے اساتذہ ہم آواز ہوتے۔
افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ معاشرہ اس حادثے سے لا تعلق رہا۔ سیاسی جماعتیں، مذہبی تنظیمیں، میڈیا۔ کہیں سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی بھی تو بہت کمزور۔ یہ معاشرہ اپنی اقدار کے ساتھ وابستگی کا عملی ثبوت نہیں دے سکا۔ اقدار کے ساتھ اس کی وابستگی تو کھیل تماشے کے ساتھ اس کے تعلق سے بھی کمزور نکلی۔ اس سے زیادہ ردِ عمل کا اظہار تو ہم کرکٹ میچ میں ہار جیت پر کر دیتے ہیں۔
مولانا تقی عثمانی کو اللہ نے بچایا ورنہ مارنے کی کوشش میں تو کوئی کمی نہ تھی۔ حملہ آور کون تھے، اس کا سراغ تو انشااللہ لگا لیا جائے گا مگر میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ اہلِ علم کے باب میں یہ معاشرہ کتنا حساس ہے؟ علما کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ مولانا تقی عثمانی ایک سنجیدہ صاحبِ علم کی شہرت رکھتے ہیں۔ علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مسلکی شناخت رکھنے کے باوجود، فرقہ وارانہ معرکہ آرائی سے دور رہتے ہیں۔ تشدد کی مذمت کرتے اور باہمی احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ ان جیسی شخصیت پر حملہ ہو تو پورے معاشرے کو سراپا احتجاج بن جانا چاہیے تھا۔ افسوس کہ اس معاملے میں بھی ہم اپنی روایت کی پاسداری نہ کر سکے۔
اصلاح کا آغاز تو ہوا ہے مگر رفو کا کام بہت ہے۔ چالیس سال تک جس تصورِ مذہب اور سماجی رویے کو فروغ دیا گیا، اس نے ہمیں اخلاقی طور پر کنگال کر دیا۔ انسانی جان کی حرمت سے لے کر اختلافِ رائے کے احترام تک، ہماری سب قدریں پامال ہو گئیں۔ نئی نسل کو ہم نفرت اور ہیجان کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ نئی نسل تو یہ بھی نہیں جانتی کہ استاد کون ہوتا ہے اور کسی معاشرے کی اخلاقی اور علمی زندگی کے لیے تقی عثمانی جیسے لوگوں کا زندہ رہنا کیوں ضروری ہے؟ ڈیگال نے کہا تھا: سارتر فرانس ہے۔ اہلِ علم و دانش کی ایک زندہ معاشرے میں یہی اہمیت ہوتی ہے‘ بلکہ ان کی یہ اہمیت ہی کسی معاشرے کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔
اس معاشرے کو پھر سے زندہ کرنا ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پھر سے زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں پہلے زندگی موجود تھی۔ ہم ایک توانا روایت اور تہذیب کے وارث ہیں۔ ہمیں کسی نقالی کی ضرورت نہیں، صرف خود کو بازیافت کرنا ہے۔ اس روایت کو زندہ کرنا ہے جو اختلافِ رائے کے احترام کی حامل تھی۔ جس میں انسانی قدروں کو اہم سمجھا جاتا تھا۔
ہمارا ایک المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض دانش ور ہمیں دوسروں سے تصادم پر ابھارتے رہے ہیں۔ وہ ہمیں درس دیتے رہتے ہیں کہ ہماری ناکامیوں کے اسباب خارج میں ہیں۔ وہ ہمیںدوسروں سے نفرت کا سبق پڑھا کر مسلم معاشروں میں ہیجان پیدا کرتے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارا اسلام اس وقت ثابت ہوتا ہے جب ہم دوسروں سے نفرت میں دھنس جائیں۔ سوال یہ ہے کہ بنیادی اخلاقیات پر ایمان رکھنے والا کوئی ذی ہوش نیوزی لینڈ سے نفرت کر سکتا ہے؟
یہ نفرت کا نہیں تقابل کا وقت ہے۔ یہ خود احتسابی کا وقت ہے۔ اقبال نے کہا تھا: عشق کی ایک جست نے کر دیا قصہ تمام۔ آگہی کا ایک لمحہ اگر میسر آ جائے تو قومیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ وہ ایک لمحہ تھا جب آرڈرن نے ایک فیصلہ کیا کہ مجھے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے، قطع نظر اس کے کہ ظالم کا تعلق میری صف سے ہے یا مظلوم کا۔ یہ ہماری کتابِ ہدایت کا درس تھا جسے ہم نے فراموش کر دیا۔
دنیا میں آخری فتح اسی کی ہوتی ہے جس کا اخلاق برتر ہو۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اقدار کے معاملے میں فتح و شکست کے الفاظ بے معنی ہوتے ہیں۔ اخلاق کی فتح تو قدرت کا فیصلہ ہے۔ سوال یہ ہے کون اس کا مظاہرہ کرتا ہے؟ امریکہ یا اس سے پہلے سوویت یونین یا اس سے بھی پہلے انگریزوں نے ہمارے لیے اتنا بڑا چیلنج نہیں کھڑا کیا تھا جتنا بڑا چیلنج نیوزی لینڈ کی قوم نے کھڑا کر دیا ہے۔ یہ اخلاقی برتری کا چیلنج ہے۔
میں امریکہ کا سامنا کر سکتا ہوں کہ مادی قوت کے بل پر حاصل کر گئی برتری نے مجھے نفسیاتی طور پر کبھی مرعوب نہیں کیا۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد تو برتری کا سوال ہی نہیں رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے میرے سامنے ایک پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ میں اسے اسی وقت عبور کر سکتا ہوں جب اخلاقی طور پر بلند تر جگہ پر کھڑا ہو جاؤں۔ میرے اسلاف نے اخلاق کے ایسے ایسے پہاڑ کھڑے کر دیے تھے کہ دنیا جب ان کو عبور نہ کر سکی تو سرنگوں ہو گئی۔
میں اس چیلنج پر اسی وقت پورا اتر سکتا ہوں جب ایسا معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاؤں جہاں مولانا تقی عثمانی اور پروفیسر خالد حمید جیسے استادوں کا احترام کیا جاتا ہے، ان کی جان نہیں لی جاتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved