تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-03-2019

کمال کر دیا؟

بیس مارچ کو آصف علی زرداری اور بلال بھٹو زرداری سمیت پی پی پی سندھ کی تمام لیڈرشپ جب تھر کول سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے کا افتتاح کر رہی تھی تو کچھ ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر بھٹو کے جیالوں نے نہیں بلکہ زرداری صاحب کے متوالوں نے عمران خان کو تھر کول پاور ہائوس سے بجلی پیدا کر کے دکھانے کے لڑاکا عورتوں کی طرح طعنے دینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ بلاول بھٹو سے مراد علی شاہ اور سعید غنی سے مرتضیٰ وہاب تک ہر ایک نے وقفے وقفے سے پریس کانفرنس کر کے ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ عمران خان کو ہم نے یہ بجلی پیدا کر کے دکھا دی ہے۔ گو کہ ابھی محض چند درجن میگا واٹ بجلی ہی پیدا ہو گی‘ لیکن کسی بھی اچھے مقصد اور عوامی بھلائی کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی کے لئے کی جانے والی ہر کوشش کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے‘ اور ایسے اقدامات اور فیصلوں کو بحیثیت قوم ہم سب کو سراہنا چاہئے۔ پی پی پی کے بارے میں تو سبھی کہتے ہیں کہ یہ محض آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے بڑ ے بڑے کام کرنے میں سب سے زیادہ مہارت رکھتی ہے۔ لیکن اگر کسی کے مزاج گرامی یا طبعِ نازک پہ گراں نہ گزرے تو انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ تھر کول کا یہ منصوبہ‘ جس کے ایک مرحلے کا وہ افتتاح کر رہے ہیں‘ انہوں نے کب اور کس وقت شروع کیا تھا؟ اپنی تمام پریس کانفرنسوں میں انہوں نے اس پر اٹھنے والا اخراجات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اگر انہیں یہ بتا دیا جائے کہ تھر کول کے اس منصوبے پر ملکی دولت کے اب تک اتنے کھرب روپے خرچ ہو چکے ہیں‘ تو ممکن ہے وہ بڑے سکون سے سنیں‘ لیکن اس کی امید کم ہے‘ کیونکہ آج کل نون لیگ اور زرداری صاحب کا فلوس گروپ مجھ غریب پر کوئی زیادہ ہی مہربان ہے۔ ایسی ایسی زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ کیا کہنے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پی پی پی کے اس منصوبے‘ جس کا ابھی افتتاح کیا گیا ہے‘ کے متعلق اگر بلاول بھٹو یا ان کے والد محترم زرداری صاحب عوام کو کچھ بتا دیں تو مہربانی ہو گی‘ ورنہ میں بتائے دیتا ہوں کہ وہ منصوبہ جس پر ان لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے‘ اس کی افتتاحی تقریب یا ایم او یُو پر دستخط کرنے کی شاہانہ رسم سمجھ لیں‘ 6 اکتوبر 1994 (22 سال قبل) کو اسلام آباد میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی اس تاریخی عمارت میں‘ جہاں 1973 میں پاکستان کا متفقہ آئین منظور ہوا تھا‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کی موجودگی میں پاکستان کی وزارتِ پانی و بجلی اور ہانگ کانگ کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار گورڈن وو کی کمپنی کنسالیٹڈ الیکٹرک پاور ایشیا (CEPA) کے درمیان تھر کول سے بجلی پیدا کرنے کے لئے 8 ارب ڈالر کے منصوبوں کے MOU پر دستخط کئے گئے تھے اور اس عالی شان تقریب میں شرکت کے لئے بیرون ملک اور پاکستان کے طول و عرض سے کوئی 60 سے زائد شخصیات کو سرکاری اخراجات پر ہوائی جہازوں کے ذریعے اسلام آباد لایا گیا تھا۔ اس تقریب میں غیر ملکی سفارت کار، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہان، ملکی اور بین الاقوامی بینکوں کے اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ مرحوم، وزیر اعظم کے توانائی کے خصوصی مشیر شاہد حسن‘ پٹرولیم کے وزیر انور سیف اللہ خان شریک تھے۔ اس تمام کارروائی کو قومی نشریاتی رابطے پر اس وقت کے واحد پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک گھنٹہ تک براہ راست دکھایا گیا تھا۔ تقریب میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے خطاب میں قوم کو خوشخبری دیتے ہوئے ملک میں سستی اور وافر بجلی پیدا ہونے کی نوید سنائی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو (وزیر اعظم پاکستان) کی موجودگی میں اس سمجھوتے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ہانگ کانگ کی CEPA ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے کوئلے سے چلنے والا 5280 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگائے گی اور اس کے علا وہ مزید دو ارب بیس کروڑ ڈالر تھر میں کوئلے کی کانوں کی ترقی اور ان سے کوئلہ کی ترسیل کا تیز تر نظام قائم کرنے کیلئے خرچ کئے جائیں گے۔ ہال میں تشریف فرما شخصیات اور پی پی پی کے اراکین اسمبلی، وزرا اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کی بھر پور تالیوں کی گونج میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا ''یہ کوئی خیالی منصوبہ نہیں ہے‘‘۔ ان کا وہ خطاب آج بھی پاکستان بھر کے اخبارات و رسائل اور پی ٹی وی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ انہوں نے ہانگ کانگ کے گورڈن وو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ''میں نے انہیں ہدایات جاری کر دی ہیں کہ کوئلے سے چلنے والے اس پاور پلانٹ پر 'آئندہ تیس دنوں‘ میں کام شروع کر دیا جائے‘ جس کیلئے دو ارب ڈالر ایکویٹی کی رقم جناب گورڈن وو اپنی جیب سے لگا رہے ہیں‘‘۔ اس پر پورا ہال ایک مرتبہ پھر کئی سیکنڈ تک تالیوں سے گونجتا رہا۔
گورڈن وو نے اپنی جوابی تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ تھر کے مقامی کوئلے سے پاکستان کو سستی بجلی فراہم ہو گی‘ جس سے پاکستان ایک ''چھوٹا ایشین ٹائیگر‘‘ بن جائے گا۔ اس وقت کے سیکرٹری پانی و بجلی سلمان فاروقی نے اپنی افتتاحی تقریر میں بڑے فخریہ انداز سے کہا تھا ''ہم آج اکیسویں صدی میں داخلے کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں اور آج آپ کو ایک مزید خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ تھر کول کے آج ہونے والے معاہدے کے علاوہ پندرہ دن قبل یعنی 24 ستمبر 1994 کو ہم نے ایک اور دیا روشن کیا ہے۔ اس روشن کئے گئے نئے دیے کی وضاحت کرتے ہوئے سلمان فاروقی نے چوبیس ستمبر کو امریکی سرمایہ داروں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ طے شدہ چار ارب ڈالر کے توانائی معاہدے کا حوالہ دیا اور بتایا کہ یہ معاہدہ امریکی انرجی سیکرٹری ہیزل اولیری کی قیادت میں حکومت پاکستان اور امریکہ کے درمیان طے ہوا ہے۔
حکومت پاکستان اور گورڈن وو کی کمپنی CEPA کے درمیان معاہدے کی جو تفصیلات اس تقریب میں بیان کی گئیں‘ ان کے مطابق ''سیپا‘‘ نے کراچی سے لے کر گڈانی کی ساحلی پٹی کے ساتھ کوئلے سے چلنے والے 8 تھر کول پاور یونٹ نصب کرنے تھے‘ جن میں سے ہر یونٹ 660 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہو گا‘ اس طرح ان آٹھ پاور یونٹس سے مجموعی طور پر 5280 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ مہمان خصوصی کی نشست پر تشریف فرما وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ تھر کول پاور پراجیکٹ سلسلے کا پہلا پاور یونٹ دسمبر 1997 میں با قاعدہ کام شروع کر دے گا۔ جب یہ معاہدہ کیا گیا‘ اس وقت قوم کو بتایا گیا تھا کہ تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے ان پاور پلانٹس کی مکمل تنصیب اور انہیں چلانے کی لاگت سات سے آٹھ لاکھ ڈالر فی میگا واٹ ہو گی۔ 
اگر تھر کول میں لگائے جانے والے آٹھ پاور یونٹس میں سے مختصر سا ایک یونٹ 14 سالہ اقتدار میں مکمل کر لیا گیا ہے تو یقیناً ایک اچھی پیش رفت ہے‘ لیکن اس کیلئے عمران خان صاحب کی طعنہ زنی اس لئے کی جا رہی ہے کہ وہ تھر کول کے صرف اس ایک منصوبے کے 4 ارب 22 کروڑ ڈالروں کا حساب مانگ رہے ہیں؟ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ یہ چار ارب بائیس کروڑ ڈالر آج پاکستانی کرنسی کے حساب سے کتنے بنتے ہیں تو جناب4,22,000,0000x140 کو ضرب دے کر دیکھ لیجئے۔ اگر پھر بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو پھر ٹرین مارچ کرنے والوں سے پوچھ لیجئے۔
عمران خان کی طعنہ زنی اس لئے کی جا رہی ہے کہ وہ تھر کول کے منصوبے کے 4 ارب 22 کروڑ ڈالروں کا حساب مانگ رہے ہیں۔ چار ارب بائیس کروڑ ڈالر کتنے بنتے ہیں تو 4,22,000,0000x140 کو ضرب دے کر دیکھ لیجئے۔پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو ٹرین مارچ والوں سے پوچھ لیجئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved