تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-03-2019

سُرخیاں‘ متن اور تازہ ترین غزل

نواز شریف کے گُردوں کا مرض شدید‘ بازو 
میں تکلیف بدستور موجود ہے: مریم نواز
سابق اور سزا یافتہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کے گردوں کا مرض شدید اور بازو میں تکلیف بدستور موجود ہے‘‘ اگرچہ ایک سینئر یور الوجسٹ نے ان کے معائنے کے بعد انہیں نارمل قرار دیا ہے‘ لیکن نارمل ہونے کے باوجود اُن کا مرض شدید ہو سکتا ہے اور اگر اس رپورٹ کو درست سمجھ لیا جائے تو یہ بھی ایک سازش ہے‘ جس کے تحت ان کو ضمانت سے محروم کرانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ گردے نواز شریف کے ہیں‘ یورالوجسٹ کے نہیں اور یہ بھی درست نہیں ہے کہ اگر اُن کی ضمانت ہو بھی جائے ‘تو بھی وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے‘ لیکن ایک بار اُنہیں ضمانت پر رہا کر کے تو دیکھیں کہ آخر یہ لانچیں کس مرض کی دوا ہیں اور ہوائی سفر تو اُنہیں ویسے بھی کوئی خاص پسند نہیں ہے۔قصہ مختصر‘ ایک بار انہیں رہا کریں اور پھر تماشا دیکھ لیں‘ یہ رہا گھوڑا اور یہ رہا اُس کا میدان‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ آپ اگلے روز نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
نظریۂ پاکستان کی جڑوں پر کلہاڑی 
مارنے والے باز آ جائیں: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نظریۂ پاکستان کی جڑوں پر کلہاڑی مارنے والے باز آ جائیں‘‘اور یہ بیان اس لیے بھی ضروری تھا کہ میرے ایک سابقہ بیان پر جو شور مچایا جا رہا ہے‘ اس میں کچھ کمی آ جائے ‘ورنہ تو میرے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ نظریۂ پاکستان کس چڑیا کا نام ہے؛ اگرچہ یہ محاورہ بھی غلط ہے ‘کیونکہ یہاں چڑیا کی بجائے چڑا ہونا چاہیے تھا ‘تاکہ محاورے میں ذرا مردانگی پیدا ہوتی‘ اس لیے مخالفین کو میرے بیانات کی بجائے محاوروں کی درستی پر غور کرنا چاہیے‘ کیونکہ اُردو ہماری قومی زبان ہے اور ایک تو اعلان کے باوجود اسے نافذ نہیں کیا جا رہا اور دوسرے اس کی صحت کا بھی کسی کو خیال نہیں ‘ اس لیے قوم کو اپنی صحت کے ساتھ ساتھ‘ وہ جیسی بھی ہے‘ قومی زبان کی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے‘ جس کے لیے والد صاحب سے کہوں گا کہ جہاں وہ جانے والے ہیں‘ وہاں اُن کے پاس وقت کافی ہوگا اور وہ زبان کی صحت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکمران کشکول اٹھائے پاکستان کا وقار نیلام کر رہے ہیں: لیاقت بلوچ
قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ''حکمران کشکول اُٹھائے ملک کا وقار نیلام کر رہے ہیں‘‘ جو کہ اصولی طور پر غلط ہے‘ کیونکہ جو چیز نیلام کرنا مطلوب ہو‘ ہاتھ میںاُسی کا ہونا ضروری ہوتا ہے‘اس لیے سب سے پہلے حکمرانوں کو نیلامی کے قواعد و ضوابط سیکھنا ہوں گے‘ جس طرح میں امارت کے قواعد و ضوابط سیکھ رہا ہوں‘ لیکن ایک دو روز تک سراج الحق صاحب چارج سنبھال لیں گے اور میرا یہ سارا کام بیچ میں ہی رہ جائے گا‘ اس لیے قائم مقام ہونے کی مدت زیادہ نہیں تو کم از کم چھ ماہ ضرور ہونی چاہیے ‘ورنہ تو جب ذرا مزہ آنے لگتا ہے تو نومنتخب امیر آ جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ریلوے یونین کے کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم کو پاک فوج کی صلاحیتوں اور قربانیوں پر فخر ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''قوم کو پاک فوج کی قربانیوں اور صلاحیتوں پر فخر ہے‘‘ اور اُمید ہے کہ بہت جلد قوم ہماری قربانیوں اورصلاحیتوں پر بھی فخر کرنا شروع کر دے گی‘ مثلاً: فیاض چوہان صاحب کی شکل میں ہماری قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے‘ بلکہ میری قربانی کی نوبت بھی بس آتے آتے رہ جاتی ہے‘ جبکہ تازہ ترین خطرہ سپیکر چوہدری پرویز الٰہی سے ہے؛ حالانکہ انہیں سپیکری پر ہی قناعت کرنی چاہیے ‘کیونکہ سپیکر کو تو وزیراعلیٰ بھی جناب ِسپیکر کہہ کر مخاطب ہوتا ہے؛ البتہ اس ردو بدل کے نتیجے میں اگر مجھے سپیکر بنا دیا جاتا ہے اور کل کو اُنہیں بھی مجھے جناب سپیکر کہنا پڑا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا‘ جو مہنگائی کی حالیہ لہر کی وجہ سے اور بھی زیادہ ہو گیا ہے‘ اس لیے ہمارا سب سے پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ مہنگائی وغیرہ کی ان لہروں کو روکا جائے‘ کیونکہ پانی کو سکون سے بہنا چاہیے‘ تاکہ مہنگائی بھی قدرے سکون میں رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پی ٹی آئی کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب اس ہفتے کی یہ تازہ غزل:
یہ بظاہر جو ہواؤں پہ سوار آدمی ہوں
بیٹھ جاؤں گا ابھی‘ گرد و غبار آدمی ہوں
کرچیاں ہیں مری بکھری ہوئی چاروں جانب
ٹوٹا آئینہ ہوں‘ بے حدّ شمار آدمی ہوں
اک عجب کھیل ہے رہ رہ کے یہ ہونا میرا
ایک ہی بار نہیں‘ میں کئی بار آدمی ہوں
کہیں پہنچیں کہ بھٹک جائیں‘ یہ قسمت ان کی
ورنہ میں سب کے لیے راہگزار آدمی ہوں
رنگ جو اُڑ گئے‘ خود میرے اُڑائے ہوئے ہیں
اب بھی کہنے کو تو میں نقش و نگار آدمی ہوں
یہ جو میں ہنستا ہنساتا ہوا پھرتا ہوں یہاں
میں ہی اندر سے کوئی زار و قطار آدمی ہوں
میرے اپنے ہی خس و خار پہ نظریں ہیں مری
صرف اپنے ہی لیے ہوں جو شرار آدمی ہوں
بوجھ اپنا بھی اُٹھایا نہیں جاتا مجھ سے
نہ کسی کے لیے میں دار و مدار آدمی ہوں
آگے جانا ہے کہ واپس پلٹ آنا ہے‘ ظفرؔ
بیچ دریا میں کھڑا آر نہ پار آدمی ہوں
آج کا مقطع
غسلِ صحت‘ ظفرؔ مبارک ہو
مرضِ عشق سے شفا پائی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved