بازار میں روزمرہ استعمال کی اشیا سے لے کر تعمیرات‘ آرائش‘ ملبوسات اور برقی مشینوں تک‘ ہمیں ہر چیز غیر ملکی چاہیے ۔ ہم دیسی چیز خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ سامراجی غلامی‘ خود غرضی اور دکھاوے کی مسابقت نے ہمیں ولایتی کی دھن میں مگن کررکھا ہے ۔ آج کی بات نہیں‘یہ سلسلہ گزشتہ دو صدیوں سے جاری ہے ۔ ہمارے اعلیٰ اوردرمیانی طبقات‘ جو قومی مزاج کا تعین کرتے ہیں‘مقامی اشیا کو اہمیت دے کر مقبول کرسکتے تھے لیکن وہ اپنے جائز اور ناجائز وسائل کے زور پر قیمتی درآمدی اشیا کی مانگ پیدا کرچکے ہیں۔ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد کے علاوہ مضافاتی اضلاع کے بازاروں کا سرسری سا نظارہ کریں‘ نہیں لگتا کہ آپ پاکستان میں ہیں۔ دبئی کی تجارتی ثقافت آہستہ آہستہ ہماری منڈی پہ غالب آچکی ہے ۔ دبئی قابل ِ تقلید نہیں‘ اور نہ ہی اس کا تعلق عرب تاریخ‘ ثقافت‘یا قومی روایات سے ہے ۔ تیل کی دولت سے ریت کے ٹیلو ں پر محلات ‘ برج اور مغرب کے شہروں کا مصنوعی عکس ڈال دیا گیا ہے ۔ ہمارے خواب اسی عکس کی دھندلی سی نقل ہیں۔
اقتدار ‘ طاقت اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت اُن طبقات کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو مادی وسائل رکھتے ہیں ۔سماجی اور فکری گراوٹ اس نہج تک پہنچ چکی کہ عوام اور مقتدر طبقات علمی اور فکری سوچ کو تخیلاتی اور غیر حقیقی سمجھتے ہیں ۔ حرص اور لالچ کے مارے یہ افراد اور طبقات اندرونی طور پر کمزور ہوتے ہیں‘ اس لیے وہ علم اور حقیقت سے فرار چاہتے ہیں ۔ جب دولت کے بل پر قائم زندگی کا مصنوعی پن معاشرے کے لیے نمونہ بن جائے ‘ عام فہم مثال میں اسے ''بھیڑچال ‘‘ کہتے ہیں۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی اسی گرداب میں پھنس چکا ہے۔
نئی روشن خیالی نے ترقی کی تعریف‘ معیار‘ سیاست کی نوعیت اور اس کا معاشرے کے ساتھ عمرانی معاہدہ تبدیل کردیا ہے ۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ریاست کا منڈی میں کردار کم سے کم ہو۔ بمشکل ایک کمزور ریفری کا۔ منڈی میں دولت کی افزائش کے لیے سرمایہ کاری ہوگی‘ کچھ لوگ سرمایہ دار ہوںگے‘ زیادہ طبقات صارفین کے ہوں گے‘ اور سرمایہ دار طبقہ دولت مند ہوتا جائے گا۔کہا جاتا ہے کہ اگر ریاست مداخلت نہ کرے‘ محض تماشائی رہے‘ تو سرمایہ کاری بڑھے گی‘ اور آخر کار اس کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے ۔ سب لوگ خوشحال ہوجائیں گے۔ یہ ہے وہ نظریہ جو کسی تغیر کے بغیر سابق نوآبادیاتی ریاستوں نے من و عن اپنا رکھا ہے ۔ شیر والے پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانا چاہتے تھے۔ خیر جو کچھ انہوںنے بنایا‘ اُس کی قلعی پانامہ پیپرز نے کھول دی۔ حکمران طبقوں اور اُن کے حامی دانشوروں سے التجا ہے کہ پاکستان کو پاکستان ہی رہنے دیں۔ اس کی اپنی تاریخ‘ ثقافت اور تہذیب ہے ۔ کوئی د و معاشرے یا اُن کا قومی ماحول یکساں نہیں ہوتا۔ کامیاب اقوام سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے‘ اُن کے معاشرے کو خود پر لاگو نہیں کرلیا جاتا۔ بے شک ترقی‘ خوشحالی اور عوام کو آسودہ کرنے کے اصول عالمگیرہیں لیکن انہی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے دیس میں بنائی ہوئی ایشیا پر اعتماد کریں۔ اسی سے آپ کے سرمایہ کار‘ آپ کے مزدور اور محنت کش کو کام ملے گا۔اپنا گھر اپنا ہوتا ہے‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اسی سے اپنائیت ملتی ہے ‘ اسی کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت اس میں ترقی کے رنگ بکھریں گے جب ہم مقامی ساخت کی اشیا استعمال میں لائیں‘ اورامپورٹڈ اشیا کے خبط اور مال جمع کرنے کی بیماری سے نجات حاصل نہ کرلیں۔ جی ہاں‘ یہ ایک بیماری ہے ۔ جن افراد نے زندگی کا راز پالیا‘ اور جو مذہب‘ رہن سہن یا تاریخ سے آگاہی رکھتے ہیں‘ وہ زر کی پرستش کو بیماری سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ دولت پیدا نہ کی جائے۔ قومی دولت کی افزائش ہو‘ افراد آسودہ ہوں‘ معاشرے میں عام لوگوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے‘ لیکن یہ تبھی ممکن جب ریاست میں معاشی انصاف پیدا کرنے کی فکر اور صلاحیت موجود ہو۔ مخیر حضرات خیرات سے معاشرے کو آسودہ نہیں کرسکتے ۔ پاکستان میں فلاحی کام کرنے والوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے پوری دنیا سے زیادہ ہے ۔ یہ اچھی بات ہے ‘ لیکن افراد کے فلاحی کام ریاست کے کردار کا متبادل ہرگز نہیں۔ قومی پیداوار اور وسائل کی افزائش کے لیے پاکستانی خریدار کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا‘ تاکہ وہ پاکستانی مصنوعات استعمال کرے ۔ بازار میں سبزی کاٹنے کی چھری بھی لینے جائیں تو وزیر ِآباد کی نہیں ‘ تھائی لینڈ اور چین کی ملے گی ۔ آج کل گاہک یہی چیز پسند کرتا ہے مگر جو چھری وزیر ِآباد کی ہے ‘ اس معیار کی دنیا میں کہیں نہیں ملے گی ۔ ہمارا پرچون فروش شوکت عزیز اور پرویز مشرف کی معاشی پالیسیوں کی بدولت درآمد شدہ اشیا فروخت کرکے توانا ہوچکا ہے ۔ اب وہ دیسی مال فروخت نہیں کرے گا تاوقتیکہ صارف اُسے مجبور کر دے ۔ کسی سٹور یا مارکیٹ کا چکر یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہمارا اصل معاشی مسئلہ کیا ہے ۔
پرچون فروش کو منافع چاہیے ۔ وطن کی محبت زر کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ چکی ۔ تبدیلی سرکار اگر واقعی تبدیلی چاہتی ہے تو اپنے کردار ‘ عمل ‘ مثال سے دیسی اشیا استعمال کرنے کی روایت ڈالنی ہوگی۔سرکاری دفتر ‘ سکول‘ جامعات‘ وزرا کے دفاتر ‘ وزیر ِاعظم کے گھر سے لے کر ایوان ِصدر تک‘ ہر جگہ پاکستانی ساختہ اشیا استعمال کرنے کی روایت ڈالی جائے ۔ ان پر فخر کیا جائے‘ اس بات کاچرچا کیا جائے‘ ان اشیا کی تعریف کی جائے ۔ اگر تشہیر قوم کا کوئی بھلا کرسکتی ہے تو وہ یہی ہے ۔ بے لگام برآمدات نے ہماری معیشت تباہ کردی ہے ۔ اس میں سیاستدان‘ درآمدکنندگان اور کسٹم کا عملہ‘ سب کی چاندی ہے۔ کون سی چیز ہے جو پاکستان میں تیار نہیں ہوسکتی؟ پنجاب میں ایک دہائی تک مسلسل حکومت کرنے والوں نے کئی بڑے منصوبوں پر وقت اور وسائل ضائع کردیے‘ کبھی سستی روٹی کے نام پرمن پسند لوگوں میں اربوں روپے بانٹے ‘ لاکھوں کی تعداد میں لیپ ٹاپ چین سے منگوائے اور اپنے نام سے بیگ تیار کرکے تقسیم کردیے ۔ دنیا میں کوئی حکومت بتادیں جس نے لیپ ٹاپ تقسیم کرکے قوم کو تعلیم یافتہ بنایا ہو۔ اس طرح کمپیوٹر ٹیکنالوجی ترقی نہیں کرتی ۔ سب نے دیکھ لیا کہ تندور میں سستی روٹی لگانا اور لیپ ٹاپ فراہم کرنا یکساں نتائج کا حامل نکلا۔ تو ہم اس تندوری سیاست سے کب نجات پائیں گے ؟ چین‘ ملائیشیا اور بھارت بھاری خریدار ی سے پہلے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا معاہدہ کرتے ہیں۔ ہم لیپ ٹاپ کیوں نہیں بناسکتے ؟ صرف پرزے جوڑنے کا نہیں‘ پرزے بنانے کا اہتمام بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن جب سیاست اور ٹھیکید اری بیک وقت کرنی ہوتو پھر ایسے منصوبے ہی بنتے ہیں۔
معیشت کی بحالی کے لیے ہمیں دیسی کی تلاش میں نکلنا ہوگا۔ دکاندار سے مطالبہ کریں۔ آپ کا مسلسل اصرار اسے مقامی اشیا فروخت کرنے پر مجبور کردے گا۔ وہ جذبہ ٔحب الوطنی سے سرشار ہوکر خود ایسا نہیں کرے گا۔ یہ کام صارفین کو کرنا ہے ۔ سب سے بڑی ذمہ داری حکمران طبقوں کی ہے ۔
آنجہانی جسونت سنگھ‘ جو بعد میں بھارت کے وزیر ِدفاع بنے ‘ سے میری ملاقات 1984ء میں دہلی میں اُن کے گھر پر ہوئی ۔ مسٹر سنگھ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں قائد ِاعظم محمد علی جناح پر ایک معرکتہ الارا کتاب بھی لکھی۔ جودھ پور کی ریاست کے راجہ تھے‘ راجپوتوں کے شاہی خاندان سے تعلق ‘ اُن کی حویلی کا فرنیچر‘ آرائش و زیبائش سب راجستھانی رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ وہ مجھے انٹرویو کے لیے اشوکا ہوٹل ‘ جہاں اُن کا دو کمروں پر مشتمل دفتر تھا‘ میں اپنے ساتھ لے گئے ۔ اُن کے پاس ہندوستان میں بنی مورس گاڑی تھی۔ وہ امپورٹڈ کار استعمال کرسکتے تھے ‘ لیکن انہوںنے ہندوستانی ساختہ گاڑی کو ترجیح دی۔ ہندوستان کے سابق وزیر ِاعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی ہمیشہ مورس گاڑی ہی استعمال کی ۔ پسماندہ طبقے سے اٹھ کر دہلی کے وزیر ِاعلیٰ بننے والے کجریوال کی سادگی ملاحظہ فرمائیں پھر اُن کا اپنے سیاست دانوں سے موازنہ کریں۔
دراصل دیسی کو گھٹیاکے طور پر پیش کرنے کی روایت برطانوی سامراج کا ہتھکنڈا تھی ۔ وہ مقامی اشیا سے نفرت ابھار کر مارکیٹ میں اپنی اشیا کا غلبہ چاہتے تھے ۔ ہم ابھی تک اُ س روش کو کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟ تو آج کے بعد دیسی کا مطالبہ کیجیے۔ اپنے لیے‘ پاکستان کے لیے ۔ یہی سب سے بڑی تبدیلی ہے ۔