پچھلے کئی ماہ سے افغانستان سے نیٹو فورسز کے ممکنہ انخلا کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری امن مذکرات ‘پلوامہ واقعہ کے بعد پاک بھارت کشیدگی کی مہیب لہریں اورسانحہ نیوزی لینڈ جیسے ہوشربا واقعات کی وجہ سے ہماری داخلی سیاسی کشمکش پس منظر میں رہی۔مرکزی دھارے کے میڈیا نے مولانا فضل الرحمن کی اینٹی گورنمنٹ موومنٹ اور مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نوازشریف کی سرگرانی کو خاص اہمیت نہیں دی؛البتہ ذرائع ابلاغ نے حیرت انگیز طور پہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی کوٹ لکھپت جیل میں نوازشریف سے ملاقات اور جعلی بینک اکاؤنٹس میں زرداری اور بلاول کی طلبی جیسے ایشوز کو بھرپورکوریج دے کر پیپلزپارٹی کو اپوزیشن کی موثر قوت ظاہر کرنے میں معاونت کی؛اگر ہم غور سے دیکھیں تو بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے بعد آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کے جس مفاہمت کی ابتدا کی تھی اس سے پیپلزپارٹی کو اقتدار تو ملا مگر اس کی مزاحمتی قوت کند ہوتی گئی۔پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ٹکراؤ سے بچنے کی پالیسی نے بتدریج اس شوریدہ سر جماعت کی ساکھ کو مجروح رکھا۔
2013 ء میں قائم ہونے والی مسلم لیگی گورنمنٹ کے پہلے دو سالوں میں پیپلزپارٹی نے نہایت احتیاط کے ساتھ ذمہ دار اپوزیشن کا رول ادا کر کے نواز حکومت کو پی ٹی آئی کی مبینہ انتخابی دھاندلی کو جواز بنا کے اٹھائی گئی تحریک کے ہاتھوں گرنے سے بچانے کے لئے مزاحمتی رنگ دکھا کے کچھ عزت بچائی لیکن دھرنوں کے بعد پھر مفاہمت کی راہ اختیار کرکے پیپلزپارٹی نے نواز حکومت گرانے کے لیے طاہر القادری اور عمران خان کا ساتھ دینے میں عافیت تلاش کر لی۔اسی اتحادِ ثلاثہ نے مخالفانہ جدوجہد کے ذریعے وہ ماحول پیدا کیا جو پانامہ سکینڈل کو نتیجہ خیز بنانے کا نقاب ابہام بنا۔بلاشبہ مسلم لیگ نواز سے چھٹکارا پانے کی خاطر پیپلزپارٹی نے کندھا دینے کے عوض کچھ رعایتیں ضرور لی ہوں گی لیکن پی ٹی آئی کو برسراقتدار لانے کے لیے نئے سیاسی بندوبست کی استواری کی خاطر مسٹر زرداری نے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے مشترکہ امیدوار بنانے کی نواز لیگ کی پیشکش کو مسترد کر کے سیاسی طور پر نہایت مشکل فیصلہ کیا ‘جس کے مضمرات نے پیپلزپارٹی کی صفوں میں مایوسی بڑھا دی‘بہرحال اس تعاون کے بدلے انہیں 2018 ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی میں چالیس سے زیادہ نشستیں اور سندھ حکومت حاصل کرنے کے مواقع ملے‘جن کے وسیلے زرداری صاحب نے اپنی مفاہمتی پالیسی کے مضمرات پہ قابو پانے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔
عام انتخابات کی رات جب بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں کے انتخابی نتائج کے اجرا میں تاخیر ہوئی تو سب سے پہلے پیپلزپارٹی نے ہی دھاندلی کا الزام عائد کر کے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی دھمکی دی‘ لیکن الیکشن کے فوری بعد جب نواز لیگ سمیت بائیں بازو کی تمام قوم پرست پارٹیوں اور ایم ایم اے سے وابستہ مذہبی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے مزاحمت کی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا تو اُسے غیر موثر بنانے کے لیے بھی پیپلزپارٹی نے بالواسطہ طور پہ نئی حکومت اور نواز لیگ کے صلح جوصدر شہباز شریف کی مدد کی‘جو اپنی پارٹی خواہش کے برعکس اس مرحلہ پہ ٹکراؤ کی بجائے افہام و تفہیم کی راہ اپنانا چاہتے تھے ۔اگرچہ الیکشن کے بعد اپوزیشن کے اس پہلے اجلاس میں پیپلزپارٹی نے شرکت نہیں کی جس میں مولانا فضل الرحمن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو حلف لینے سے روکنے اور مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف گلی کوچوں میں پرجوش تحریک چلانے کی تجویز پیش کی تھی لیکن دوسرے اجلاس میں پیپلزپارٹی کے وفد نے شرکت کر کے مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر جماعتوں کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر کے عوام کو سڑکوں پہ لانے کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر رہ کے''مقابلہ‘‘کرنے کی اس تجویز پہ قائل کر لیا‘جسے لیگی لیڈر شہباز شریف کی تائید بھی حاصل تھی۔بلاشبہ یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے مشتعل جماعتوںکو مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف مہم جوئی سے روک کر گرینڈ اپوزیشن کی تشکیل کی راہ کھوٹی کی۔اس وقت کی مایوس کن فضا میں پیپلزپارٹی کی ایما پہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں سپیکر‘ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب میں مشترکہ حکمت عملی اپناتے ہوئے‘وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ‘سپیکر کے لئے پیپلزپارٹی اور ڈپٹی سپیکر کے لئے ایم ایم اے کا امیدوار لانے کا فیصلہ کیا۔سپیکر کے لئے پیپلزپارٹی نے خورشیدشاہ کو اورڈپٹی سپیکر کے لئے ایم ایم اے نے مولانا اسدمحمود کو امیدوار نامزد کیا تو پوری اپوزیشن نے انہیں ووٹ دیا لیکن جب قائدایوان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ کے نامزد امیدوار شہبازشریف کو یہ کہہ کے ووٹ دینے سے انکار کر دیا کہ نواز لیگ اپنا امیدوار تبدیل کرے۔پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی نے اکثریتی جماعت سے تعاون کی بجائے اقلیتی پارٹیوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر غیرجانبداری کی چادر اوڑھ لی۔آصف علی زرداری کا یہی طرز عمل اپوزیشن کی تقسیم کا محرک اور عمران خان کو وزارت اعظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کا زینہ بنا۔حیران کن طور پہ پیپلز پارٹی‘ جو شہبازشریف کو قائد ایوان کا ووٹ دینے کی روادار نہ تھی‘اسی نے قومی اسمبلی میں اسے اپوزیشن لیڈر بنانے کی حمایت کی لیکن صدارتی الیکشن کے وقت پیپلزپارٹی نے ایک بار پھرپینترا بدل کے اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار لانے کی بجائے اعتزاز احسن کو صدراتی امیدوارنامزد کر کے تحریک انصاف کو باآسانی عارف علوی کو صدر منتخب کرانے کی سہولت بہم پہنچائی۔
چیئرمین سینیٹ‘صدارت‘وزارتِ اعظمیٰ اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے معاملات طے پانے کے بعد پیپلزپارٹی نے نہایت پراسرار انداز میں خود کو اپوزیشن کے قریب لانے کی حکمت عملی اپنا لی‘پہلے شہباز کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی حمایت کرکے نواز لیگ کی ہمدردی سمیٹی اور پھر اچانک جعلی اکاؤنٹس کیسز کی بازگشت میں آصف علی زرداری اور بلاول نے سخت لب و لہجے میں مقتدرہ کو للکارکے اس سیاسی خلاکو پر کرنے کی جسارت کی جو اصل اپوزیشن جماعت‘ نوازلیگ‘کو مسلسل دبانے کی صورت میں پیدا ہو رہا تھا۔چیئرمین سینیٹ صدارت اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد نیب نے دباؤ بڑھانے کی خاطر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور سعد رفیق سمیت نواز لیگ کے توانا کردراوں کو گرفتار کر لیا‘بظاہر یوں لگتا ہے کہ شہباز شریف کی ضمانت پہ رہائی کے عوض مریم نوازسمیت‘ لیگ کے سارے خوش الہان طوطی خاموش کرا دیئے گئے ‘لیکن بلاول بھٹو زرداری کو گورنمنٹ کے خلاف بولنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔پارلیمنٹ کے فورم پہ کھڑے ہو کر بلاول نے وہ سب باتیں کہہ ڈالیں جو اگر نواز لیگ والے کرتے تو قابلِ گردن زدنی ٹھہرتے۔حیران کن امر یہ ہے کہ شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن کو نوازشریف سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی لیکن بلاول کو نوازشریف سے ملاقات کا موقعہ دے کر نمایاںہونے کی سہولت مل گئی۔جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی راولپنڈی منتقلی بھی شاید پیپلزپارٹی کو پنجاب میں فعال بنانے کا موقعہ دینے کی سکیم کا حصہ ہو۔نیب دفتر کے باہر احتجاج کے دوران پی پی پی کے کارکنوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا‘اس نے 2002 ء کی ایم ایم اے کی قیادت کی یاد تازہ کردی جنہیں مشرف کے خلاف بولنے کی کھلی چھٹی تھی تاکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ کو ایم ایم اے کی جانب متوجہ کیا جا سکے‘ لیکن نواز لیگ والوں کو بند کمرے کے اجلاس کی اجازت بھی نہیں تھی۔اس وقت نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے حلقوں سے باہر نہیں نکل سکتی تھی لیکن قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن ملین اور ٹرین مارچ جیسی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ڈھیر ساری نشستیں جیتنے کے بعد ایم ایم اے نے اپنا پورا مینڈیٹ مشرف کی جھولی میں ڈال کے اٹھارہویں ترمیم منظور کرائی‘تھوڑے سے فرق کے ساتھ آج پیپلزپارٹی بھی وہی کردار تو ادا کرنے نہیں جا رہی جو2002 ء میں ایم ایم اے نے کیا تھا؟