26جولائی 2017ء کو امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرتے ہوئے ،صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق سربراہ پال مانافورٹ کے گھر پر چھاپہ مارا ۔غیر ملکی میڈیاکے مطابق پال مانافورٹ کے ترجمان نے چھاپے کی تصدیق کی اور میڈیا کو جاری ہونے والے بیان میں بتایاکہ ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا میں ان کے گھر پر چھاپا مارا گیا ہے اور کئی دستاویزات اور سامان امریکی اداروں نے قبضے میں لیا ہے۔
ایف بی آئی نے پال مانافورٹ کے گھر سے ٹیکس دستاویزات اور غیر ملکی بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی ضبط کیں۔ ترجمان جیسن ملونی نے بتایا کہ مانافورٹ نے تحقیقات میں سکیورٹی ایجنسیوں سے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ چھاپے سے ایک روز قبل 25 جولائی2017 ء کو پال مانافورٹ ـالیکشن میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان سے تفتیش کی گئی ۔پال مانافورٹ جون 2016ء سے اگست تک ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سربراہ رہے۔ غیرملکی حکومتوں سے تعلقات اور پیسے لینے کے الزام عائد ہونے کے بعد مستعفی ہوگئے تھے۔ ان پر یہ الزام بھی میڈیا کی زینت بنا رہا کہ جون 2016ء میں روسی وکیل سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے اور داماد کی ملاقات میںوہ شریک تھے ۔ملاقات میں مبینہ طور پر صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کو نقصان پہنچانے والی معلومات اورمنصوبہ جات بنائے گئے۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور اٹھنے لگا اور الزام لگائے گئے تھے کہ امریکی انتخابات میں روس نے جامع منصوبہ بندی سے دھاندلی کروائی ہے ۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ گٹھ جوڑ اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کو مستردکیا تھا اورایف بی آئی کو حکم دیا گیا کہ وہ 2016 ء کے صدارتی الیکشن میں دھاندلی اور روسی مداخلت کی تحقیقات کرے۔ انتخابات سے قبل خود موجودہ امریکی صدر اور اس وقت کے صدارتی انتخاب میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نومبر میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی ہو سکتی ہے۔امریکی ریاست اوہایو کے شہر کولمبس میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ وہ 'بار بار‘ سن چکے ہیں کہ مقابلہ غیر شفاف ہوگا ،تاہم اس دعوے کے حق میں انہوں نے کوئی شواہد پیش نہیںکیے تھے۔ٹرمپ نے دھاندلی کے خدشات فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھی دہرائے۔انھوں نے کہاتھا کہ ''آٹھ نومبر کو ہمیں مزید ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ ریپبلکن اس پر گہری نظر رکھ رہے ہیں، نہیں تو یہ (الیکشن) ہم سے چھین لیا جائے گا‘‘۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک خطاب میں ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار اور اپنی حریف ہلیری کلنٹن کو 'شیطان‘ قرار دیا تھا۔ریاست پینسلوینیا میں ایک ہائی سکول میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی
کے صدارتی امیدوار کے مقابلے میں ہلیری کلنٹن سے شکست کھانے والے برنی سینڈرز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ دوسری جانب وکی لیکس نے امریکی کارپوریٹ ادارہ گولڈمین ساکس کے لیے ہلیری کلنٹن کی تین تقاریر جاری کیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خلاف صدارتی انتخابی مہم دھاندلی پر مبنی ہے۔ اس سے امریکہ میں جمہوری عمل کے بارے میں سوالات جنم لے رہے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں بے ایمان میڈیا بھی شامل ہے جو ہلیری کی حمایت میں آگے آگے ہے۔اس وقت کے صدر بارک اوباما نے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کی منصوبہ بندی کے بارے میں الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بہانے بنانا بند کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ کسی صدارتی امیدوار کی جانب سے روسی صدر کی تعریفیں بھی غیر معمولی ہیں۔
الیکشن سے پہلے ہی رائے عامہ کے زیادہ تر پولز میں ان کی مقبولیت میں کمی نظر آ نے لگی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی خواتین کے بارے میں نازیبا گفتگو کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے ریپبلکن پارٹی کے 30 کے قریب سینئر رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ان لوگوں کو غدار قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے خصوصی طور پر اپنی ہی جماعت کے سینئر ترین رہنما پال رائن کو کمزور اور غیر موثر رہنما قرار دے دیا تھا۔انتخابات کے بعد نتائج نے دنیا کے سبھی تجزیہ کاروں کا حیران کر دیا ،ہاتھی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیا اور وہ امریکہ کے اگلے آٹھ سال کے لیے صدر بن گئے (مذکورہ انتخابات وسط مدتی تھے ،جاری صدارتی مدت کے دوسال باقی تھے اور بعد کے پانچ سال باقی ہیں)،الیکشن سے قبل دونوں جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات کاشور دوبارہ اٹھنے لگا اور امریکی صدر پر آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں کہ صدارتی انتخابات میں انہوں نے روس کے ساتھ مل کر دھاندلی کی ہے۔الزامات کے پیش نظر تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا۔گزشتہ روزڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میںرپورٹ ،خصوصی مشیر رابرٹ ملر کی جانب سے امریکی کانگرس میں جمع کروائی گئی ۔رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی صدارتی مہم میں روس کے ساتھ مل کرکوئی سازش نہیں کی گئی تھی۔رپورٹ کے خلاصے میں کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا جا سکاکہ کیا صدر ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر انصاف کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی اور نہ ہی اس میں صدر کو بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اٹارنی جنرل ولیم بار نے اس رپورٹ کا خلاصہ کانگرس کے لیے خصوصی طور پرتیار کیا۔
رپورٹ کے خلاصے کے سامنے آنے کے بعد صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ' 'کوئی نتیجہ نہیں، کوئی رکاوٹ نہیں، میں مکمل طور پر بری الذمہ ہوچکا ہوں۔ امریکہ کی عظمت و سلامتی کو قائم رکھیں‘‘۔رپورٹ دو سالہ تحقیقات کا خلاصہ ہے۔ اس میں صدر ٹرمپ کے قریبی رفقا سے تفتیش کی گئی اور کچھ کیسز میں لوگوں کو قید بھی ہوئی۔مسٹر بار کی جانب سے لکھے گئے خلاصے کے مطابق انکوائری میں روس کے امریکہ کے صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے ملنے والے نتائج کا احاطہ کیا گیا۔خلاصے کے مطابق ''سپیشل مشیر کو ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران کسی بھی امریکی شخص کے روس کے ساتھ سازش کرنے یا رابطہ کرنے کے بارے میںکوئی شواہد نہیں ملے۔
نوٹ :جمہوریت کے نظام میں شفافیت مکمل طور سے موثر نہیں۔زیر نظر اس تحقیقی رپورٹ کا وہ حصہ پیش کیا جا رہا ہے، جس میں صدر ٹرمپ کی ہیرا پھیریوں کی رپورٹ موجود ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امریکی انتخابات میں بھی دھاندلی کی گنجائش رہتی ہے۔