تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-03-2019

سڑک سے جیل تک!

اسلام آباد میں صحافت کرتے بیس برس گزر گئے۔ ہر روز نئی سٹوری اور نیا سکینڈل تلاش کرنا روٹین کا حصہ رہا ہے۔ شروع میں حیرانی ہوتی تھی کہ ملک کو کیسے لوٹا جا رہا ہے۔ دھیرے دھیرے سکینڈل میں ملوث لوگ ڈھیٹ ہوتے گئے تو ہم بھی عادی ہو گئے کہ یہ کھیل ختم نہیں ہو گا۔ جب بیس برس قبل آیا تھا تو اس وقت کچھ شرم حیا باقی تھی۔ خبر لگ جاتی تو ہر طرف آگ لگ جاتی یا آگ لگنے کا ڈرامہ کم از کم ضرور کیا جاتا تھا۔ ٹی وی چینلز اور ٹویٹر نہ ہونے کے باوجود یوں لگتا‘ جیسے اسلام آباد پر آسمان گر پڑا ہو۔ فوراً وزیر اعظم اجلاس طلب کر لیتے۔ متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کو بلا لیا جاتا۔ صاف ظاہر ہے جب وزیر یا اس کے افسران خود سکینڈل میں ملوث ہوں گے تو انہوں نے وزیر اعظم کو قائل کر لینا ہوتا تھا کہ سر جی یہ صحافی جھوٹ بولتے ہیں۔ مرضی کے حقائق بتا کر وزیر اعظم کو مطمئن کر لیا جاتا تھا۔ اب سربراہ حکومت بھی دودھ کے دھلے نہ ہوتے تھے کہ مورال گرائونڈ کا مظاہرہ کر سکتے لہٰذا وہ بھی یہی چاہتے کہ چلیں کارروائی پڑ جائے گی کہ وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور اجلاس بلا لیا۔ وزیر اور افسران مل کر ایک پریس ریلیز تیار کرتے جس میں میڈیا کی مذمت کی جاتی کہ جھوٹی خبریں لگا کر بدنام کر رہا ہے۔ کسی وزیر اعظم نے یہ کام کبھی نہیں کیا کہ اس صحافی کو بلا لیتا اور سامنے بٹھا کر پوچھتا‘ مجھے سمجھائو یہ سب سکینڈل کیا ہے۔ یا پھر وزیراعظم کوئی بھٹو نہیں تھا کہ وہ خود ساری رات اس سکینڈل کی فائل منگوا کر اسے خود پڑھتا‘ اور پھر اگلے دن وزیر سے سوال و جواب کرتا۔ بھٹو آخری وزیراعظم تھے جو دفتر میں پوری فائل منگوا کر پڑھتے تھے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اکثر مجھے بتاتے کہ بھٹو ایک ایک صفحہ پڑھتے، اس پر اپنے افسران کے لکھے ہوئے نوٹس پڑھتے۔ وہ بھٹو دور میں کابینہ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ جنرل ضیاء آئے۔ انہوں نے کہا کہ فائلیں پڑھنا ان کا کام نہیں‘ وہ اسلامی نظام لانے میں مصروف ہیں لہٰذا انہیں بس ایک آدھ صفحے میں سمجھا دیا جائے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ یوں فائل کو ایک سمری میں سمو کر جنرل ضیاء کو بھیج دیا جاتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے بھی جنرل ضیاء کی اس روایت کو قائم رکھا۔ نواز شریف نے ایک اور حل نکالا۔ اپنی ساری پاورز اسحاق ڈار کو دیں کہ تم سنبھالو سب کچھ‘ ہم تو چلے پردیس کی سیر کو۔ سو سے زیادہ ملکوں کے سیر سپاٹے کیے۔ ڈار ملک چلاتے رہے۔ جنرل مشرف دور میں سمری بھی بیکار ٹھہری اور کہا گیا: چند پوائنٹس بنا کر سمجھا دو کہ کہنا کیا چاہتے ہو۔ 
یوں اب کابینہ کی دستاویزات پڑھنے کا کوئی رواج نہیں رہا۔ وزیر اعظم عمران خان بھی سرکاری دستاویزات سے دور ہی رہتے ہیں۔ یہ کام ان کی ٹیم کے لوگ کرتے ہیں۔ جب ایک وزیر اعظم فائل نہیں پڑھتا یا پھر اسے دستاویزات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تو پھر بیوروکریسی ایسے سربراہ حکومت کو آگے لگا لیتی ہے‘ اور ایسے ایسے فیصلے کراتی ہے جس کے نتائج اسے بھگتنے پڑتے ہیں۔ مجھے یاد ہے وزیراعظم گیلانی کی ایک خاتون پرنسپل سیکرٹری نے یہ کہہ کر پوسٹ لی کہ آپ اگر مجھے اپنے ساتھ لگا لیں تو تسلی رکھیں‘ اس بار مقدمہ بنے گا‘ نہ ہی آپ جیل جائیں گے۔ ان کاخیال تھا کہ وزیراعظم کے جیل جانے یا ان پر مقدمہ قائم ہونے کا انحصار ان کے پرنسپل سیکرٹری پر تھا۔ گیلانی صاحب‘ جو سپیکر ہونے کے ناتے جیل بھگت چکے تھے‘ اس چکر میں آ گئے‘ لیکن وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ گیلانی صاحب پر درجنوں مقدمات قائم ہو گئے اور وہ آج بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں‘ جبکہ مذکورہ خاتون وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد‘ اب فیڈرل سروس کمیشن میں ممبر لگ کر نئے بابوز بھرتی کرنے کا کام کرتی ہیں۔
اس لیے اچھا وزیراعظم ہمیشہ سب دستاویزات پڑھے گا۔ انہیں سمجھے گا اور کابینہ اجلاس میں پوری تیاری سے جائے گا۔ میں نے اگر کسی وفاقی وزیر کو محنت اور پوری تیاری کے ساتھ کابینہ کے اجلاس میں جاتے ہوئے دیکھا‘ تو وہ بابر اعوان ہیں۔ کئی دفعہ دیکھا‘ سمریاں رکھی ہیں اور وہ پڑھ رہے ہیں۔ نوٹس بھی لے رہے ہیں۔ پوچھا‘ تو بولے: بندے کو تیاری کے ساتھ کابینہ میں جانا چاہیے‘ ایجنڈا ہو یا نہ ہو آپ کو سب وزارتوں کی سمریاں پڑھنی چاہئیں۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ حکومت میں کیا ہو رہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے۔ اگر وزیراعظم کہہ دے کہ اپنی رائے دیں تو بندے کو تیار ہونا چاہیے۔ بابر اعوان اجلاس میں باقی وزرا کو اس لیے ٹف ٹائم دیتے تھے کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ بیٹھتے اور وہیں سوال و جواب شروع ہو جاتے۔ اسی لیے ان کی اپنے فیلو وزیروں سے کم بنتی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بابر اعوان کابینہ اجلاس میں ان کی دھلائی کرتے ہیں۔ وہ کہتے: یہ ہماری وزارت کا مسئلہ ہے‘ بابر اعوان کیوں بولتے ہیں۔ بابر اعوان کہتے: کابینہ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے اپنی سمری پر بولنا ہے۔ سب وزیروں کا فیصلہ شامل ہوتا ہے لہٰذا سب کو سوال و جواب کا حق ہے۔ سب کو مطمئن کرنا چاہیے‘ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا فیصلہ کیا جائے۔
ابھی دیکھ لیں کہ منگل کے روز جو دو سمریاں کابینہ میں پیش کی گئیں‘ ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں طاقتور اور عام لوگوں کے لیے انصاف کیلئے دوہرے معیار ہیں‘ اور بیوروکریسی کیسے بیوقوف بناتی ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں‘ شاید ایک آدھ نے سب سمریاں پڑھی ہوں گی کہ اصل ایشوز کیا ہیں۔ ایک سمری میں بتایا گیا‘ بیوروکریسی کو دو ہزار بارہ میں ایک پالیسی کے تحت آپشن دیا گیا کہ سرکاری گاڑی رکھ لیں یا ہر ماہ گاڑی کا ایک لاکھ روپیہ لے لیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان افسران نے سرکاری گاڑیاں بھی رکھ لیں اور ایک لاکھ روپیہ معاوضہ بھی لے رہے تھے۔ اندازہ کریں ایمانداری کا۔ یہ لوگ سینئر افسران ہیں اور نوجوانوں کے لیے رول ماڈل۔ انہوں نے سرکاری گاڑیاں انجوائے کیں اور ہر ماہ ایک لاکھ روپے بھی وصول کرتے رہے۔ فارم پر لکھ کر دیا کہ ان کے پاس سرکاری گاڑی نہیں۔ جب اتنے سینئر لیول پر افسران کرپٹ ہو جائیں تو پھر باقی سول سروس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ یہ گریڈ بائیس کے افسر کا حال ہے‘ جس نے کچھ عرصے میں ریٹائرڈ ہو جانا ہے کہ وہ ہر ماہ ایک لاکھ روپے کی بے ایمانی کر رہا ہے۔ سب مل کر یہ سب کام کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بیوروکریسی کو سزا ملتی منگل کو ہونے والے اجلاس میں الٹا سفارش کی گئی ہے کہ ان بابوز کو مزید گاڑیاں دی جائیں۔ 
اسی کابینہ اجلاس میں 706 ملازمین کی ایک فہرست وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کی گئی کہ ان پر فیصلہ سنائیں۔ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ بورڈ کیس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی دور میں سات سو چھ ملازمین‘ جن میں ڈرائیورز، مالی، کک، ویٹرز، چوکیدار، سکیورٹی گارڈز، کلرک وغیرہ شامل ہیں‘ نواز شریف نے وزیراعظم بننے ہی نوکریوں سے نکال دیئے تھے۔ وہ سب ہائی کورٹ چلے گئے۔ اب وزیر اعظم سے کہا گیا ہے وہ فیصلہ کریں کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیس پر چار سال سے انکوائری کی جا رہی تھی‘ لیکن ریفرنس ثابت نہ کیا جا سکا۔ اب سارا بوجھ عمران خان کے کندھوں پر ہے ۔
ایک طرف بیوروکریسی سرکاری گاڑیوں کے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کھا گئی‘ دوسری طرف ڈرائیورز، مالی، کک، چوکیدار، نائب قاصد، سکیورٹی گارڈز کو نوکریوں سے نکال دیا کہ پیسے کی بچت کرنی ہے۔ مزے کی بات ہے نواز شریف صاحب نے وزیراعظم کے طور پر پیپلز پارٹی دور میں رکھے ان غریبوں کو برطرف کیا تھا۔ آج انہی نواز شریف کو رہا کرانے کے لیے پیپلز پارٹی سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے۔ 
جس نواز شریف کے فیصلے کی وجہ سے یہ 706 مالی، کک، ڈرائیورز، سکیورٹی گارڈز، کلرکس برسوں سے نوکریوں سے ہاتھ دھو کر ذلیل ہو رہے ہیں اور چندہ کرکے وکیلوں کی فیسیں دے رہے ہیں، وہی نواز شریف آج جیل میں ہیں۔ 
اب شاید نواز شریف صاحب کو اندازہ ہوا ہو گا کہ اگر ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وہ جیل میں ہیں تو وزیراعظم کے طور پر کیے گئے ان کے فیصلے کی وجہ سے بھی سات سو غریب خاندان سڑک پر آ گئے تھے اور اب تک در بدر ہیں۔ اگر بقول نواز شریف ان کے ساتھ زیادتی کی گئی تو یہ 706 ڈرائیورز، کک، مالی، کلرک، نائب قاصد، سکیورٹی گارڈز بھی یہی الزام ان پر لگاتے ہیں۔ 
کبھی سنا اور پڑھا تھا تقدیر زیادہ دیر کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔ اب آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved