تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-03-2019

آج کالم کی پھر چھٹی ہے

فیس بک سے
محبی ضمیر طالب نے لندن سے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی ہے کہ فلاں شاعر جو کبھی آپ کے معترف اور مداح ہوا کرتے تھے اب آپ کی شاعری کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا: یہ تو ادب میں صحت مندی کی نشانی ہے‘ اس کے بغیر تو سارا کچھ منجمد ہو کر رہ جائے گا۔ نیز اگر وہ اب فکری بلوغت کو پہنچ گئے ہیں تو خوشی کی بات ہے اور آپ کو کسی وقت بھی اپنی رائے تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے‘ اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ اختلافِ رائے کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا‘ اس کا تو خیر مقدم کرنا چاہئے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ کی شاعری دوسروں کے سر سے ہی گزر جائے اور کوئی اس پر بات کرنا ہی ضروری نہ سمجھے۔ انہیں کہیں کہ یہ کام جاری رکھیں کہ میری شاعری بھی اپنے پیش روئوں کو ایک طرح سے منسوخ ہی کر کے شروع ہوئی تھی۔ تاہم‘ جدید طرزِ احساس غزل گوئی کے لیے کتنا ضروری ہے‘ یار لوگوں کے ہاں اس کا احساس کم ہی پایا جاتا ہے‘ جبکہ تقسیمِ کے وقت کا طرزِ بیان اپنی طبعی عمر کب کی پوری کر چکا ہے۔ میری دعائیں ہمیشہ کی طرح موصوف کے ساتھ رہیں گی۔
کچھ مقامی معاملات
سِٹرس کے پھلوں میں صرف لیموں رہ گئے ہیں گلگل یا کٹھّی ‘ اگر اسے پھل کہا جا سکتا ہو۔ چکوترے یعنی گریپ فروٹ کا آخری دانہ اگلے روز خود ہی جھڑ کر زمین پر آ رہا۔ اگرچہ اس کے تلخ و تُرش ذائقے کی وجہ سے نہ اسے گریپ کہا جا سکتا ہے نہ فروٹ۔شہتوت کے بارے میں ہماری تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ اس کے نئے پتّے نکلیں تو ساتھ ہی شہتوت بھی آ جاتے ہیں لیکن یہ جھڑ جاتے ہیں اور شہتوتوں کا دوسرا پُور ہے جو اس کے بعد آتا ہے اور اپنا میٹھا مزہ اختیار کرتا جاتا ہے۔یوکلپٹس کی طرح اس کا تنا اس قدر ہموار ہوتاہے کہ بغل گیر ہونے کو جی چاہتا ہے!گلابی پھولوں والے کچنار کے پیڑ کا ذکر ہوا تھا لیکن سفید پھولوں والے پیڑ کا ذکر رہ گیا تھا۔ یہ سفید پھول گلابی پھولوں سے بھی زیادہ بھلے لگتے ہیں۔
بہت عرصہ ہوا ایک ہائیکوکا ترجمہ کیا تھا جو اس طرح سے تھا ؎
میں نے مانا کہ مجھ سے نفرت ہے
تجھے اے رنگ روپ کی رانی
لیکن اک سنگترے کا پودا جو
بھر کے پھولا ہے میرے گھر کے پاس
کیا اُسے دیکھنے نہ آئو گی؟
یہ اس لیے بھی یاد آیا کہ کسی دوست سے کہوں کہ وہ آئے اور اُسے یہ گلابی اور سفید پھول دکھائوں! ایک اور انکشاف! نئے گارڈ سے اُس کا نام پوچھا تو وہ بولا:
''حاجی مدثر‘‘
وہ نوجوان ہی لگا اس لیے مجھے کچھ شک گزرا تو میں نے پوچھا:
''حج کب کیا تھا؟ تو وہ بولا:
''میں نے حج نہیں کیا‘ میں حج والے دن پیدا ہوا تھا!‘‘
آفتاب اقبال کے تازہ ترین اقوال زرّیں میں سے ایک تو یہ ہے کہ نمک کو خام حالت میں‘ یعنی کسی چیز پر چھڑک کر ہرگز نہیں کھانا چاہئے‘ البتہ سالن میں ملا ہوا ہو تو اور بات ہے۔ وہ خود ابلے ہوئے انڈوں پر نمک چھڑکنے کی بجائے انہیں کباب کے ساتھ ملا کر تناول فرماتے ہیں‘ نیز انڈہ اُبلا ہُوا ہی اپنے اصل ذائقے میں ہوتا ہے۔ البتہ اگر دو انڈے کھائیں تو ایک پُورا اور دوسرے کی صرف سفیدی کھانی چاہئے کہ پروٹین کے حصول کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ انڈے کی زیادہ زردی نقصان رساں ہے اور اس سے کولیسٹرول پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ ایک نئی تحقیق کے مطابق انڈہ کولیسٹرول کو کم کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شوشہ کسی پولٹری فارم والے کا چھوڑا ہوا ہو: اور اب آخر میں عامر سہیل کی تازہ شاعری:
ضدّی ہو‘ جذباتی ہو
رشتوں سے ٹکراتی ہو
اک شاعر کی آنکھوں میں
رات گئے بھر جاتی ہو
شہزادے کی آنکھ میں تم
چھت پر بال سکھاتی ہو
بچّوں جیسی عشق میں تم
پیار ہو اور لمحاتی ہو
پس انداز کریں تم کو
مشکل وقت کی ساتھی ہو
پھول عشاکے ہنستے ہیں
جب جب ہونٹ ہلاتی ہو
ہر ہر فجر وداع کر کے
ہر ہر شام بلاتی ہو
رعب سے ابر و باراں پر
بیٹھی حکم چلاتی ہو
اوّل اوّل بوسے سے
.....................
زخموں کو گہراتی ہو
پوش ہے دلّی 
وہ سرحد پہ بھیگی بلّی
پوش ہے دلّی
جو شہزادی نے لکھے ہیں
خواجہ سرا وہ خط پڑھتا ہے
کہنا ہندوستان کو‘ روکے!
سِدّھو شعر غلط پڑھتا ہے
آج کا مطلع: 
ناروا تھا تو یہ کس طرح روا ہونا تھا
تو مرا ساتھ نبھاتا بھی تو کیا ہونا تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved