تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-03-2019

بھارت کہاں کھڑا ہے؟

ایک ماہ سے بھی کم مدت گزری ہے کہ بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایسے عالم میں وہ سب کمر کس کر میدان میں آگئے ہیں جو بھارت کے گن گانے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ انہیں سب سے زیادہ فکر اگر لاحق ہے تو تاثر کی۔ اگر تاثر خراب ہوجائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ بہتر زندگی کی خاطر پاکستان کو پیٹھ دکھانے والے اور بات بات پر دینی تعلیمات پر بھی سوالیہ نشان لگانے والے طارق فتح اور حسین حقانی جیسے لوگ خاص طور پر پریشان ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارت کو اکسانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ حسین حقانی نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے دوران اپنا کھونٹا مضبوط کرلیا تاکہ باقی زندگی بھی امریکہ ہی کی آغوش میں گزرے۔ واشنگٹن کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں اہم منصب پر فائز حسین حقانی کو پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی حالیہ ہزیمت بہت بُری لگی ہے۔ لگنی ہی تھی۔ وہ امریکہ کے حاشیہ برداروں میں سے ہیں اور ایسا بھلا کس طور ہوسکتا ہے کہ کوئی امریکہ کا حاشیہ بردار ہو اور بھارت کے مفادات پر لگنے والی ضرب سے دکھی نہ ہو۔ حسین حقانی ایک زمانے سے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ بعض حقائق ناقابلِ تردید ہیں مگر ہر معاملے میں پاکستان ہی کو قصور وار ثابت کرنے کی روش پر گامزن رہنا بھی دانش کا تقاضا ہے نہ غیرت کا۔ 
اب اسی بات کو لیجیے کہ چین نے سٹریٹجک معاملات کو اولیت دینا شروع کیا ہے تو پاکستان کو ساتھ ملائے بغیر چارہ نہیں۔ اس وقت پاکستان جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں قدم مضبوط کرنے کے حوالے سے چین کے لیے سب سے بڑے اتحادی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ حسین حقانی اور اُن کی سی سوچ رکھنے والے دیگر ''دانشورانِ عصر‘‘ کو بہت بُرا لگ رہا ہے۔ چین پر الزام تراشی کرتے کرتے وہ اب پاکستان کو بھی لتاڑ رہے ہیں۔ پاکستان پر ایک بڑا الزام یہ عائد کیا جارہا ہے کہ وہ خطے میں چینی عزائم کو عملی شکل دینے کے حوالے سے غیر معمولی معاونت کر رہا ہے۔ کوئی چین کے حوالے سے پاکستان کو ڈرا رہا ہے کہ مطلب نکل جانے کے بعد چینی قیادت اُسے پہچانے گی بھی نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ چین جی بھر کے اور آسانی سے قرضے دے رہا ہے تو پاکستان کو سوچ سمجھ کر معاملات طے کرنے چاہئیں کیونکہ کل کو چینی قیادت پاکستان کو ڈکار جانے کے درپے ہوگی۔ افریقہ کے حوالے سے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ 
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کس پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ سات عشروں تک ہم مغرب کی آغوش میں رہے ہیں۔ اور کیا پایا ہے؟ یورپ سے معاملات کسی حد تک متوازن رہے ہیں مگر امریکہ؟ امریکہ نے تو ہمیشہ مطلب نکل جانے پر جان چھڑائی ہے۔ چین کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ وہ پہچاننے سے انکار کردے گا۔ ایسا انکار امریکہ نے اب تک کئی بار کیا ہے۔ 
حسین حقانی اور طارق فتح جیسے تجزیہ کاروں کو اِس بات کا شدید دکھ ہے کہ چینی قیادت بیشتر معاملات میں پاکستان کی بات مان رہی ہے۔ آسان شرائط پر پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ مستحکم کرنے میں معاونت بھی کر رہی ہے اور سرمایہ کاری کے حوالے سے پسپا نہیں ہو رہی۔ اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بالا کوٹ حملے کے بعد پاکستان نے جس عبرتناک انداز سے بھارت کو دھول چٹائی ہے اُس سے امریکہ و بھارت کی حاشیہ برداری کے ذریعے پیٹ بھرنے والے تمام نام نہاد تجزیہ کاروں اور بین الریاستی امور کے ماہرین کو اپنی دکان بند ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ''سو سنار کی‘ ایک لوہار کی‘‘ کے مصداق پاکستان نے بھارت پر کاری ضرب لگاکر حساب چکتا کردیا ہے‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تھوڑا سا حساب چڑھا بھی دیا ہے۔ ایسے میں صرف بھارتی قیادت نہیں بلکہ اُن سب کے لیے پریشانی کا سامان ہوگیا ہے جو بھارت کو علاقے کے چودھری کی حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند رہے ہیں۔ 
ایک حالیہ مضمون میں حسین حقانی نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ بھارت خطے میں غیر معمولی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے مگر چین اُسے ایسا نہیں کرنے دے رہا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ پاکستان کو بخوبی بروئے کار لارہا ہے۔ پاکستان پر چین کی نوازشیں حسین حقانی سے ہضم نہیں ہو پارہیں۔ کچھ مدت پہلے تک طارق فتح پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا پر انتہائی فعال دکھائی دے رہے تھے۔ انہیں ہر بھارتی چینل بخوشی بلاتا تھا کیونکہ وہ پاکستان‘ عالم اسلام اور اسلام کے خلاف ہذیانی کیفیت میں بولنے کے عادی رہے ہیں۔ بھارت میں مغل اور دیگر مسلم خانوادوں کی حکمرانی کے خلاف بول کر بھی طارق فتح ہندوؤں کی نظر میں زیادہ سے زیادہ محترم بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مگر اب اُن کی بڑھکوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ 
مولانا مسعود اظہر کے معاملے میں چین کا پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنا بھارت کے تجزیہ کاروں کو اُتنا بُرا نہیں لگا جتنا حسین حقانی اور طارق فتح کو لگا ہے۔ حسین حقانی کو اس بات کا بھی بہت دکھ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہو جانے کے بعد اُن سے مذاکرات کے لیے امریکہ کو پاکستان سے مدد مانگنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ پاکستان باضابطہ سہولت کار تو نہیں مگر ہاں‘ طالبان کو امریکہ کے حوالے سے رام کرنے اور بات چیت کی منزل تک لانے میں پاکستان کا کردار اہم رہا ہے۔ اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ طالبان کی مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن نے پاکستان کو امریکہ اور یورپ کے مقابل ایک پھر ''لیوریج‘‘ عنایت کیا ہے۔ رہی سہی کسر چین کی طرف سے بھرپور معاونت نے پوری کردی ہے۔ ایسے میں بھارت کہاں کھڑا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ بھارت کی پوزیشن کے کمزور ہونے سے ان تمام ممالک کے لیے شدید الجھنیں پیدا ہوں گی جو اب تک یہ سمجھتے آئے ہیں کہ بھارت علاقے کا باضابطہ چودھری بنے گا تو وہ بھی تھوڑے بہت مزے کریں گے۔ 
امریکہ اور یورپ بھی مخمصے میں ہیں۔ چین کو contain کرنے کی خاطر بھارت کو بروئے کار لانے کے بارے میں سوچا جاتا رہا ہے مگر اب مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ چین کو کہاں سے contain کرے گا‘ بھارت تو خود container میں جا پڑا ہے! اور یہ نیک کام چونکہ پاکستان کے ہاتھوں ہوا ہے اس لیے بھارت پر پیسے لگانے والے تمام عالمی جواری پاکستان کو گالیاں دینے‘ کوسنے پر مجبور ہیں! 
امریکہ اور یورپ کی بالا دستی اور اس حوالے سے بھارتی کردار کے گن گانے والوں کو اپنی تمام آرا سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ بھارت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ رقبے اور آبادی کے اعتبار سے تو بڑا ہے‘ سوچ کے اعتبار سے اب تک بچہ ہے۔ وہ حقیقتوں کو ذہن نشین رکھے بغیر اب تک انوکھے لاڈلے کی طرح کھیلن کو چاند مانگ رہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو اُسے کھیلنے کے لیے چاند دلا سکتے تھے اُن پر بھی کڑکی کا موسم آیا ہوا ہے! 
وقت کی نزاکت اور حالات کا تقاضا ہے کہ بھارت اپنے گریبان میں جھانکے اور دیکھے کہ وہ کہاں کھڑا ہے؟ پَر نہ ہوں تو کسی کو اُڑنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ کوئی بھی ریاست محض بڑھکیں مارنے سے علاقائی یا عالمی طاقت کا درجہ نہیں پاسکتی۔ بھارت کے پالیسی میکرز ہی کو نہیں‘ بھارتی بالا دستی کا سہانا خواب دیکھنے والے حاشیہ بردار تجزیہ کاروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ جن اندرونی مسائل کے ہاتھوں بھارت شدید کمزوری کا شکار ہے اُن کے ہوتے ہوئے وہ چین کو contain کرنے کا ٹھیکہ کیسے لے سکتا ہے۔ چین پر پاکستان کو استعمال کرنے کا الزام لگانے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ بھارت کو امریکہ اور یورپ نے اب تک کس طرح استعمال کیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved