تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-03-2019

خلیجی ریاستوں میں بھارتی سٹاف

ملتان ایئر پورٹ کی نئی عمارت کا سارا کریڈٹ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے۔ عمارت خوبصورت ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ اب عمارت اور دیگر سہولیات ضرورت سے بہت کم محسوس ہوتی ہیں۔ جب عمارت بنی شاید تب یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملتان ایئر پورٹ سے بین الاقوامی پروازوں کی اتنی زیادہ تعداد شروع ہو جائے گی اور مسافروں کی اتنی زیادہ تعداد ملتان سے سفر کرے گی لیکن جونہی نئی عمارت بنی‘ یہاں سے دھڑا دھڑ غیر ملکی ایئر لائنز نے آپریشن شروع کر دیا۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ قطر ایئر ویز‘ فلائی دبئی (برائے امارات ایئر لائنز) ایئر عریبیا‘ گلف ایئر اور سعودی ایئر لائن یہاں سے بزنس کر رہی ہیں۔ قومی ایئر لائن بھی موجود ہے مگر صرف حج اور عمرہ کی بین الاقوامی پروازوں کے ساتھ۔
قطر کی ایئر لائن مسافروں کو پہلے دوحہ لے جاتی ہے اور پھر آگے دنیا بھر میں اپنی دیگر پروازوں کے ذریعے مسافروں کو لے جاتی ہے۔ یہی حال دبئی کی سرکاری ایئرلائن کا ہے جو پہلے دبئی جاتی ہے اور وہاں سے امارات کے ذریعے آگے کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ گلف والے مناما (بحرین)‘ سعودی ایئر لائن والے جدہ اور ایئر عریبیا والے شارجہ سے آگے دنیا بھر کی فلائٹس چلاتے ہیں‘ حالانکہ مسافروں کو درمیان میں دوحہ‘ دبئی‘ جدہ‘ بحرین اور شارجہ میں کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے اور ان میں سے کچھ باقاعدہ ذلیل بھی ہوتے ہیں کہ کئی ایئر لائنز والے دس بارہ گھنٹے تک مسافروں کو لائونج میں بٹھائے رکھتے ہیں اور کسی قسم کی رہائش کی سہولت بھی نہیں دیتے‘ مگر مجبوری یہ ہے کہ سوائے دو چار جگہوں کے‘ اب قومی ایئر لائن کہیں جاتی ہی نہیں۔ گلاسگو کا روٹ عرصہ ہوا بند ہو چکا ہے۔ نیو یارک کی فلائٹ ختم ہو چکی ہے۔ ٹوکیو کا سٹیشن عنقریب بند ہونے جا رہا ہے۔ پورے امریکہ کے لئے ایک بھی فلائٹ نہیں ہے۔کینیڈا صرف ٹورانٹو پرواز جاتی ہے۔ پورے یورپ میں کل پانچ مقامات پر فلائٹس جاتی ہیں۔ یہ پانچ خوش قسمت مقامات پیرس‘ میلان‘ بارسلونا‘ اوسلو اور کوپن ہیگن ہیں۔ ملتان سے قومی ایئر لائن کی ہفتہ وار پروازوں کی تعداد آٹھ ہے جبکہ صرف فلائی دبئی کی ہفتہ وار پروازوں کی تعداد چودہ ہے۔ اندازہ کریں کہ کسی زمانے میں ملتان تا لاہور پہلے روزانہ دو پروازیں ہوتی تھیں اب ہفتے میں دو پروازیں ہیں۔
مجھے اٹلانٹا جانا تھا۔ خیر سے قومی ایئر لائن کی کوئی پرواز امریکہ ہی نہیں جاتی‘ اٹلانٹا کا تو سوال ہی نہیں بنتا۔ اب کیا کیا جائے؟ امریکہ جانے کے لئے سب سے زیادہ سہولت ابو ظہبی کی ''اتحاد ایئر لائن‘‘ میں ہے کہ یہ اس ریجن کی واحد ایئر لائن ہے جس میں امریکہ جانے والوں کی امیگریشن امریکہ کے بجائے ابو ظہبی میں ہی ہو جاتی ہے اور امریکہ آپ انٹر نیشنل ٹرمینل پر اترنے کے بجائے ڈومیسٹک ٹرمینل پر اترتے ہیں اور اپنا سامان اٹھا کر باہر چلے جاتے ہیں۔ نہ امیگریشن کا پھڈا‘ نہ لمبی قطاروں کی مصیبت اور نہ ہی وہاں پر سامان کھلنے کا جھنجھٹ۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ابو ظہبی میں اس ساری سہولت کے باوجود اس آسانی سے فائدہ اٹھانے کو دل نہیں کرتا۔ نوے فیصد بھارتی سٹاف ہے جو اس پرواز کو ہینڈل کرتا ہے اور پاکستانیوں سے اپنے دلی بغض کا ثبوت دیتا ہے۔ یہ انڈین سٹاف والے پاکستانیوں کو نہ صرف تنگ کرتے ہیں بلکہ موقع ملے تو ذلیل بھی کرتے ہیں۔ امریکہ جانے کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ سٹاف سے جھگڑ بھی نہیں سکتے کہ اس جھگڑے میں سراسر نقصان آپ کا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہاں امیگریشن کی سہولت ایسی ہے کہ نہ لمبی قطار میں لگنا پڑتا ہے اور نہ ہی امریکہ سے واپس آنے کا خوف ہوتا ہے کہ امریکی قانون کے مطابق آپ کا ویزہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ آپ لازمی طور پر امریکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ امیگریشن آفیسر اپنی صوابدید کے مطابق آپ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔ امیگریشن آفیسر کا اختیار ہے کہ وہ امریکہ میں آپ کے ٹھہرنے کی مدت کا تعین کرے۔ وہ انٹری کی مہر لگانے کے بعد نیچے ہاتھ سے آپ کے امریکہ میں ٹھہرنے کی مدت کا اندراج کرتا ہے۔ عموماً یہ مدت روٹین کے تحت چھ مہینے ہوتی ہے مگر امیگریشن آفیسر اس عمومی طے شدہ قانونی مدت میں کمی کر سکتا ہے۔ 
انڈین سٹاف کا اتحاد ایئر ویز پر ہی کیا موقوف؟ سارے گلف بلکہ مشرق وسطیٰ میں ہر جگہ بھارتی چھائے ہوئے ہیں۔ امارات کا آغاز پی آئی اے کی تکنیکی مدد سے ممکن ہوا۔ اور اتحاد نے تو ویسے ہی امارات کی کوکھ سے جنم لیا اور اس کی ساری ابتدا بھی پی آئی اے کی مدد سے ہوئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دبئی کے ہوائی اڈے پر‘ ابو ظہبی اور دوحہ کے ہوائی اڈوں پر بیشتر سٹاف بھارتی ہے جو پاکستانیوں سے دلی کدّ رکھتا ہے۔ ہر اہم جگہ پر انڈین بیٹھا ہوا ہے۔ مسافروں سے رابطہ رکھنے والی ہر پوسٹ پر انڈین براجمان ہے اور موقع ملنے پر اپنے دلی بغض کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ انتہائی دکھ ہوتا ہے‘ ہم ہیں کہ عرب بھائیوں کی محبت میں مرے جاتے ہیں اور عرب بھائی ہیں کہ بھارتیوں کی محبت میں قربان ہوئے جاتے ہیں۔
میری ملتان سے اٹلانٹا کی فلائٹ تھی اور اس کے لئے میں نے مجبوراً قطر ایئر ویز کا انتخاب کیا تھا کہ میرے پاس اور کوئی مناسب چوائس ہی نہیں تھی لیکن مصیبت یہ تھی کہ قطر ایئر ویز کی اٹلانٹا جانے والی فلائٹ کیلئے مجھے دوحہ ایئر پورٹ پر تقریباً بیس اکیس گھنٹے ٹھہرنا تھا۔ سپریم ٹریولز کا نوید میرے لئے ساری ٹکٹوں کا بندوبست کرتا ہے اور اپنے کام میں انتہائی ماہر ہے۔ اس نے دائیں بائیں ہاتھ پیر مارے اور میری ٹکٹ کی کلاس کو تھوڑا اوپر نیچے کر کے میرے لیے دوحہ ایئر پورٹ پر ہوٹل کا بندوبست کروا دیا۔ اب میرے لئے بڑی آسانی ہو گئی کہ یہ بیس گھنٹے سہولت سے گزارے جا سکیں۔
عاصم شہزاد بڑا پُر خلوص اور محبت کرنے والا دوست ہے۔ پہلے جدہ ایئر پورٹ پر قطر کی ایئر لائن کے کائونٹر پر ڈیوٹی دیتا تھا۔ قریب ایک عشرے سے زیادہ قطر کی ایئر لائن کی طرف سے جدہ گزارنے کے بعد اچانک ہی قطر اور سعودی عرب کے تنازعے کی زد میں آ کر سعودی عرب سے واپس دوحہ بھیج دیا گیا ہے۔ جدہ میں اس کی بڑی سہولت رہتی تھی اور کئی مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہو جاتی تھیں۔ اب دوحہ میں تھا تو مسلسل اصرار کر رہا تھا کہ میں ایئر پورٹ پر ہوٹل کے بجائے اس کے پاس ٹھہروں لیکن میں نے انکار کر دیا؛ تاہم وہ مجھے ایئر پورٹ سے دوحہ لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ قطر کا ویزہ لینا اتنا آسان ثابت ہوا کہ اتنی جلدی آپ کی امیگریشن بھی نہیں ہوتی۔ معلومات کے دفتر نے ایک چھوٹی سی پرچی پکڑائی۔ بتایا گیا کہ اس پر قطر میں آپ جس کے پاس جانا چاہتے ہیں اس شخص کے پتے کا طریقہ کار لکھا ہوا تھا۔ گلی نمبر‘ زون نمبر‘ بلڈنگ نمبر اور ایریا۔ یہ چار چیزیں۔ ایک پولیو کا ویکسی نیشن کارڈ اور کریڈٹ کارڈ۔ بس یہ چیزیں لے کر امیگریشن پر جائیں اور پاسپورٹ پر ایک چھوٹی سی سلپ نما سٹکر لگوائیں اور مہینہ بھر کا ویزہ آپ کے پاسپورٹ پر ہے۔ اتنا آسان ویزہ تو کہیں نہیں دیکھا تھا۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ قطر میں امیگریشن آفیسر سارے کے سارے عرب ہیں۔ انڈین نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم پاکستانیوں کو کافی مشکلات پیش آتیں۔
صورتحال یہ ہے کہ دبئی‘ ابو ظہبی اور دوحہ کے ہوائی اڈوں پر بیشتر سٹاف بھارتی ہے جو پاکستانیوں سے دلی کدّ رکھتا ہے۔ ہر اہم جگہ پر انڈین بیٹھا ہوا ہے۔ مسافروں سے رابطہ رکھنے والی ہر پوسٹ پر انڈین براجمان ہے اور موقع ملنے پر اپنے دلی بغض کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ انتہائی دکھ ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved