تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     28-03-2019

امتحان اِس لیے بھی آتے ہیں

امتحان اس لیے بھی آتے ہیں کہ اِن سے سیکھا جاسکے۔اصلاح کے نئے راستے ڈھونڈے جاسکیں۔ یہ اپنے ساتھ دعوت لاتے ہیں غوروفکر کرنے کی ‘ تدبر سے کام لینے کی‘ پھر بھی کچھ نہ سیکھا جاسکے تو باقی صرف دعائیں ہی رہ جاتی ہیں۔بجا کہ وقت کا مرہم نیوزی لینڈ میںلگنے والے زخموں پر بتدریج بھر رہا ہے۔بازگشت اس کی بہرحال ابھی تک سنائی دے رہی ہے ۔ شہدا کے لواحقین تو اس سانحے کی شدت ہمیشہ ہی محسوس کرتے رہیں گے‘ لیکن اس پر اہل ِاسلام میں بھی غم کی لہر ابھی تک محسوس کی جاسکتی ہے۔؎
اخوت اُس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو
ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
کچھ وقت گزر گیا اورمزید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم بھی بھرتے جائیں گے‘ مندمل ہوجائیں گے کہ یہی دستورِ قدرت ہے‘ تو رسم دنیا بھی ہے‘ لیکن پھر بھی اس میں سیکھنے سکھانے کو ابھی بھی بہت کچھ موجود ہے۔ شاید یہ بھی کہ جب امتحان کی گھڑی آتی ہے تو زندہ قوموں کاچلن کچھ اور ہی ہوتا ہے۔بلاشبہ نیوزی لینڈ نے زندہ قوموں جیسا چلن ہی اپنایا۔ صرف 2لاکھ 68ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ رقبے پر محیط چھوٹا سا ملک‘48لاکھ 80ہزار کی مختصر سی آبادی‘ جس میں مسلمانوں کا تناسب بمشکل ایک فیصد بنتا ہے‘ لیکن ان کی دلجوئی کے انداز نے ایک عالم کو متاثر کردیا۔کیا نام دیا جائے کہ بلاامتیازمذہب‘ نیوزی لینڈرزنے بھی غم کی شدت کو ویسے ہی محسوس کیا جیسے اہل اسلام نے۔شرمندگی کا اظہار ابھی تک سامنے آرہا ہے کہ ایک شخص کے انفرادی فعل نے نیوزی لینڈ کو دنیا بھر میں بدنام کردیا۔ نیوزی لینڈرز کی امن پسندی کو داغ دار کردیا۔ایک شخص کے انفرادی فعل کی شرمندگی پوری قوم محسوس کررہی ہے۔ کوشش مسلسل جاری ہے کہ نیوزی لینڈ کے دامن سے اِس داغ کو دھو ڈالیں‘ کھرچ ڈالیں‘ مسلمانوں کا غم بانٹیں۔وہ بھی اس انداز میں کہ آئندہ ایسے کسی بھی واقعے کے امکانات کو کم سے کم کردیا جائے۔تمام عمل کی سرخیل وہاں کی وزیراعظم جاسنڈاآرڈرن۔ دھان پان ویسی ہی جیسے برما کی آنگ سانگ سوچی ‘لیکن طرزِ عمل میں یکسر مختلف۔ایک طرف قاتلوں کی مددگار اور دوسری طرف قاتل کا نام تک نہ لینے کی روادار۔روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو سوچی کو گویا سانپ سونگھ گیا ۔وہی سوچی جو ایک طویل عرصے تک انسانی حقوق کی چیمپئن گردانی جاتی رہی۔پوری دنیا میں انسانیت کا استعارہ بنی ۔ جب وقت ِآزمائش آیا تو خاموشی اور صرف خاموشی۔دوسری طرف 50مسلمانوں کی شہادت پر 39سالہ جاسنڈا کی بے چینی۔ انسانی رویوں کا یہی فرق ہوتا ہے‘ جو قوموں کو عظیم بناتا ہے۔غوروفکر کے نئے دروَا کرتا ہے۔؎
وہ آشنائے غم کائنات کیا ہوں گے
جو خود کو آپ کا درد آشنا نہیں کرتے
گزشتہ دنوں کرائسٹ چرچ میں مقیم دوست شہباز احمد سے اس موضوع پر طویل گفتگو ہوئی تو بولے‘‘ماننا پڑے گا کہ اہل نیوزی لینڈ نے دوسروں کے درد سے آشنائی کی لازوال مثالیں رقم کی ہیں۔ سانحے کے بعد اِن سے جتنی مرتبہ بھی گفتگو ہوئی‘ہر بار انسانیت کا کوئی نہ کوئی نیا پہلو جاننے کو ملا۔بولے :یہ خبریں تو پرانی ہوچکیں کہ سانحے کے فوراً بعد متاثرین کی مدد کیلئے فیس بک پیج پر صرف چوبیس گھنٹوں میں 50لاکھ ڈالرکے عطیات جمع ہوگئے۔بتایا کہ مسجد کے باہر فٹ پاتھوں پر جمع سینکڑوں لواحقین کو دیکھ کر کسی کو خیال آیا کہ یہ تو بھوکے پیاسے ہوں گے۔فیس بک پر اشیائے خورونوش کی اپیل کی گئی تو خوراک سے بھرے تھیلوںکے ساتھ لدے پھندے افراد کی قطاریں لگ گئیں۔صرف تین گھنٹوں بعد دوسری اپیل کرنی پڑی کہ آپ سب کا بہت شکریہ ‘ مزید خوراک نہیں چاہیے۔برادرم شہبازاحمد نے بہت محبت کے ساتھ لیانس ہورڈ کا ذکر بھی کیا‘جس کے فیس بک پیج کو چند گھنٹوں میں سولہ ہزار آٹھ سو افراد نے شیئر کیا۔پیج پر صرف اتنا لکھا تھا کہ اگر کوئی مسلمان خوفزدہ ہے تو مجھ سے رابطہ کرے۔میرے دوست نے انسانی ہمدردی کی متعدد ویڈیوز بھی مجھے بھیجیں‘جنہیں میں اکثر دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک ویڈیو کو درجنوں مرتبہ دیکھ چکا ہوں‘ جس میںمسلمان ایک مسجد میں نماز ادا کررہے ہیں اور نیوزی لینڈ کے باشندے‘ کچھ مسجد کے اندر اور کچھ مسجد کے دروازے پر کھڑے پہرا دے رہے ہیں۔صرف یہ اندازہ ہے کہ مسلمان اپنی عبادت کررہے ہیں اور اُنہیں ان کی حفاظت کرنی ہے۔معلوم نہیں ‘اس ویڈیو میں ایسی کیا بات ہے کہ جب دیکھا آنکھوں میں نمی محسوس کی ۔ برادر شہباز احمد کے بقول سانحے کے بعد جو gestureوہاں کی وزیراعظم نے دیا ‘ گویا اُس نے ہمیں احساس دلا دیا ہے کہ نیوزی لینڈ ہمارا وطن ہے ‘اب ہمیں کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اِس وطن کے ساتھ مخلص ہیں یا نہیں‘چاہے ہم اقلیت ہی کیوں نہیں ہیں۔بتانے لگے کہ وزیراعظم کے پہلے ہی بیان نے زخموں پر مرہم رکھنا شروع کردیا تھا کہ جو مارے گئے وہ کہیں سے بھی آئے‘ وہ ہمارے تھے اور جو مارنے والا ہے‘ وہ ہمارا نہیں تھا۔ خاتون کے اس طرزِ عمل پر کسی کا ٹویٹ بھی نظروں سے گزرا‘جب خواتین حکومت میں ہوتی ہیں تو وہ ماں کی طرح‘ محافظ کی طرح پیش آتی ہیں‘ تکلیف یا دکھ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو اُن کے ایک بار گلے لگ جانے سے دور ہوجاتا ہے۔بس یہی سب کچھ اس خاتون نے بھی کیا۔یہ نہیں سوچا کہ گلے لگنے والوں کا تعلق تو اقلیت ہے۔
1980ء میں پیدا ہونے والی جاسنڈاآرڈرن اپنے ملک کی کی 150سالہ تاریخ کی سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں۔عمر کم‘ لیکن عزم اور ہمت بے مثال۔ سانحے کے بعد ملک کی پارلیمان کا پہلا اجلاس قرآن پاک کی اس آیت کے ساتھ شروع ہوا‘سورہ بقرہ کی آیت نمبر153۔(مفہوم):'' اے ایمان والو‘صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو‘بے شک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اس کے بعد وزیراعظم نے جو تقریر کی‘ قدرے تاخیرسے ہی سہی‘ لیکن لگے ہاتھوں اُس کا کچھ تذکرہ بھی برمحل ہوگا؛ کہا کہ قاتل شہرت چاہتا تھا‘ لیکن وہ ہمیشہ بے نام رہے گا۔نیوزی لینڈ کا قانون پوری قوت کے ساتھ اُس سے نمٹے گا۔ حملہ آور دہشت گرد‘ مجرم اور قاتل ہے‘ جسے ان ناموں کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔اعلان کے مطابق؛ جمعے کو ملک کے تمام نشریاتی اداروں سے اذان نشر ہوئی۔ پورے ملک نے دومنٹ کیلئے خاموشی اختیار کی۔اعلان کیا کہ صرف دس روز کے اندر ملک میں اسلحے کے قوانین کوتبدیل کردیا جائے گا اور وہ تبدیل ہوگئے ۔سب کچھ کہتے ہوئے کف اُڑایا نہ بازو فضا میں لہرائے۔جوش خطابت کے مظاہر بھی دیکھنے کو نہ ملے‘ لیکن پھر بھی سب کو یقین کہ جو کہا جارہا ہے ‘ اُس پر عمل بھی کیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔کچھ بھی تو ایسا نہیں کیا تھا کہ جوہم دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں‘ یہ الگ بات کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جوش و خروش کے ساتھ جو کچھ کہا جارہا ہے ‘ اُس پر عمل کی نوبت شاید ہی آسکے۔
رویوں کا یہی فرق ہوتا ہے‘ جوقول و فعل میں تضاد یا مطابقت پیدا کرتا ہے۔قول و فعل میں مطابقت اعتماد کو مضبوط کرتی ہے۔ اس میں تضاد اعتماد کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔کف اٹھاتے ہوئے‘ بازو لہرا لہرا کر جو دعوے کیے جاتے ہیں ‘ عموما اُن کا جو حشر ہوتا ہے‘ وہ ہم ‘ جو ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں‘‘ اَن گنت مواقع پر دیکھ چکے ہیں ۔ معلوم نہیں کب تک دیکھتے رہیں گے‘جو کچھ کہا جارہا ہوتا ہے وہ ایک طرف‘ لیکن جو کچھ ہونا ہوتا ہے‘ وہ چہرے پر لکھا ہوتا ہے۔اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہوتا کہ کہنے والا اپنے کہے پر عمل کرنے میں کس حد تک مخلص ہے۔ہم جو دنیا کو یقین دلاتے دلاتے تھک چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کو تسلیم کرو‘لیکن معلوم نہیں یقین کیوں نہیںکیا جاتا۔ ہم جو 70ہزار جانیں گنوا چکے ہیں ‘لیکن پھر بھی تہی داماں ہیں۔شاید کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ہے‘ جسے ہم دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہے۔ شاید ہمارے ہاں رواج حکمرانی بھی ایسا ہی رہا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی زبان بندی کے علاوہ ہم کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں پاتے۔ہر سانحے کے بعد ایک نئی داستاں گوئی ۔ تاویلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اُس کے بعد پھر سب کچھ پہلے جیسے۔ بس ہمارا المیہ تو یہی رہا ہے۔بہت کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ‘لیکن خاموشی میں ہی عافیت پاتے ہیں۔سو‘ آج بھی خاموش ہیں۔خاموش ہونا بھی پڑتا ہے کہ غدار کا الزام کون اپنے سر لے۔یقینا نیوزی لینڈرز کو ایسا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوگا ‘جو پورا ملک اقلیت کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
الغرض امتحان اس لیے بھی آتے ہیں کہ ان سے سیکھا جاسکے !۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved