دنیا کی سب سے حیرت ناک چیزوں کا ذکر کیا جائے ‘تو ان میں خواب سر فہرست ہوں گے ۔ انسان آنکھیں بند کر کے نیند میں ڈوبا ہوتا ہے ۔ اچانک اسے ایسی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں ‘ جو کہ حقیقت نہیں ہوتیں ۔ اس کے باوجود جتنی دیر آپ خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘ آپ کو وہ سب حقیقت لگتا ہے ۔ آپ خواب میں زخم کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ آپ کھانے کا ذائقہ تک محسوس کرتے ہیں ۔ آپ کے ساتھ ہرقسم کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ اس وقت آپ اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ آپ فرضی چیزیں دیکھ رہے ہیں ‘ جن کی کوئی بھی حقیقت نہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ انسان کو تخلیق کرنے والی ہستی نے بہت اہتمام سے انسان کو خوابوں کی فلم دکھانے کا بندوبست کرر کھا ہے ‘لیکن کیوں؟
سائنس کہتی ہے کہ نیند کے دوران بھی دماغ کام کرتا رہتاہے۔ اس دوران ہمارا لا شعور کچھ مناظر تخلیق کرتاہے‘ جنہیں خواب کہتے ہیں۔ 1920ء کی دہائی میں پہلی بار یہ انکشاف ہو ا تھا کہ سوئے ہوئے افراد کے دماغ میں رات کے مختلف حصوں میں مختلف شدّت کی سرگرمیاں (Brain Activities)جنم لیتی رہتی ہیں۔ تیس برس بعد نیند پر تحقیق کرنے والے نیتھا نیل کلیٹ مین کی دریافت نے سائنسی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ ای او جی (EOG)نامی ایک ٹیسٹ تھا‘ جس کی مدد سے سوئے ہوئے افراد کی بند پلکوں کے نیچے آنکھوں کی حرکات کا جائزہ لیا گیا۔
کلیٹ مین کی دریافت یہ تھی کہ نیند کے دوران ایک خاص وقت میں آنکھیں اس طرح حرکت کرنا شروع کر دیتی ہیں‘ جیسے وہ سرکس کے کرتب دیکھ رہی ہوں۔ کلیٹ مین نے دیکھا کہ آنکھوں کی ان حرکات کے دوران دماغی سرگرمیاں بھی اپنی انتہا پر ہوتی ہیں؛البتہ جسم حرکت کرنا چھوڑ دیتاہے۔ اس خاص وقت کو Rapid Eye Movement Stageکا نام دیا گیا‘ یعنی وہ وقت؛ جب آنکھیں تیزی سے حرکت کر رہی ہوں۔ آنکھوں کے حرکت کرنے سے ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے مختلف اعضا بھی خواب کو حقیقت ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں‘ جو لوگ کہتے ہیں کہ دماغ نے از خود خوابوں کوتخلیق کیا‘ وہ اس بات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتے کہ اگر دماغ نے از خود خواب تخلیق کیے تو پھر اسے خواب دیکھنے کے دوران یہ بات کیوں معلوم نہیں ہوتی کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے ‘ جس طرح کہ آپ ایک گیمنگ زون میں تھری ڈی گلاسز لگا کر ایک فرضی دنیا میں کچھ دیراپنا وقت گزارتے ہیں ‘ پرندے شکار کرتے ہیں ‘ ڈائنا سار کے آگے بھاگتے ہیں‘ تو اس وقت تو دماغ کو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ وہ فرضی چیزیں دیکھ رہا ہے۔عینک اترے گی تو سب مناظر ختم ہو جائیں گے ۔
دوسری طرف خدا کی طرف سے خواب میں ایسے اشارے ملتے ہیں‘ جن کی ایک تعبیر ہوتی ہے‘ لیکن یہ علم خدا کی طرف سے کچھ ہی لوگوں کو ملتاہے۔ زیادہ تر خواب جو ہم دیکھتے ہیں‘ وہ نفسیات پہ منحصر ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ یہ لمبے لمبے خواب ہوتے ہیں۔ جس خواب کی تعبیر ہوتی ہے‘ وہ مختصر سی علامت ہوتی ہے۔ جیسے کہ آپ دیکھیں کہ آپ ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ جیسے یہ کہ آپ کے بال لمبے اور گھنے ہیں۔ یاآپ خود کو زوردار سیٹی بجاتا دیکھیں۔ یہ چند لمحوں پر مشتمل ایک علامت ہوتی ہے۔ قرآن اور حدیث میں اگر کسی علامت کی کوئی تعبیر بتائی گئی ‘ہو تو وہ حتمی ہوتی ہے۔ قرآن میں مختلف علامتیں آئی ہیں۔ جیسے کہ گندم کے خوشے‘ پتلی اور موٹی گائیں‘ پرندوں کا کسی کے سر پہ رکھی روٹیوں کو نوچ کر کھانایا چاند ستاروں کا کسی انسان کو سجدہ کرنا۔
خوابوں کی دنیا‘ دو الگ الگ سائنسز پر مشتمل ہے؛ اگر کوئی مکمل تصویر دیکھنا چاہے تو دونوں کو ملا کر پڑھنا ہوگا۔ خواب لمبک سسٹم نامی دماغ کے اس حصے سے پھوٹتے ہیں‘ جہاں ساری انسانی نفسیات ملوث ہوتی ہے۔ لمبک سسٹم دماغ کے درمیان میں واقع ہے۔ خوف اور محبت سمیت‘ جذبات کی آماجگاہ یہی ہے۔ دوسری طرف انہی خوابوں کے درمیان ہمیں ایک ایسی علامت نظر آتی ہے‘ جس کی کوئی باقاعدہ تعبیر ہوتی ہے۔ یہ علامت بیدار ہونے کے بعد بھولتی نہیں۔ یہ بہت واضح ہوتی ہے؛ اگر نفسیات سے جنم لینے والے طویل خواب نہ ہوتے تو ہر کوئی خوابوں کا علم جان جاتا‘لیکن علم خدا نے بڑے حساب کتاب سے بانٹا ہے۔خدا نے طویل نفسیاتی خوابوں کے ذریعے علامتوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔
بار بار آپ یہ دیکھتے ہیں کہ دوبارہ گھر بار چھوڑ کر سکول دور کے اس ہاسٹل میں واپس منتقل ہو رہے ہیں‘ جہاں آپ کو سخت نظم و ضبط میں زندگی گزارنا پڑی تھی ۔ بار بار یہ آپ کو اس لیے دکھائی دیتاہے کہ نوجوانی کے اس دور میں اس نے آپ کی نفسیات کو متاثر کیا تھا۔ اس طرح کے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی یا آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے ۔ یہ بھوکے مرنے کا خوف ہے ۔ یہ نفسیات سے ہے ۔
دو تین علامتیں جو استاد نے بتائیں ‘ وہ عرض کرتا ہوں ؛ اگر آپ خواب میں خود کو اڑتا ہوا دیکھیں تو یہ ایک علامت ہے اور اس کی ایک تعبیر ہے۔ممکنہ طور پر ذہنی اور روحانی بہتری۔ حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام کی دعا: اے اللہ‘ میرے لیے میرا سینہ کھول دے او رمیرا کام مجھ پر آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے‘ تاکہ وہ (فرعون) میری بات سمجھ سکے۔ہو سکتاہے کہ خواب میں آپ خود کو زوردار سیٹی بجاتا دیکھیں تو یہ Communication skillsاور اعتماد میں بہتری کا خواب ہے۔استاد فرماتے ہیں کہ ابنِ سیرینؒ کی کتاب تعبیر الرویا خوابوں کی تعبیر میں سب سے شاندار تصنیف سمجھی جاتی ہے۔
جب ایک برا خواب دیکھتے ہوئے آپ بیدا ر ہوتے ہیں توچند لمحے یقین ہی نہیں آتا ‘ پھر انسان خوشی او رسکون کا سانس لیتاہے۔ فرض کریں کہ آج آپ ایک دم بیدار ہوں اور آپ کو معلوم ہوکہ آج تک جتنا وقت آپ نے اس دنیا میں گزارا‘ وہ حقیقت نہیں‘ ایک خواب تھا۔ آپ کے بیوی بچّے ‘ خوشیاں ‘ غم سب کچھ خواب تھا تو آپ کا ردّعمل کیا ہوگا۔ شاید آخر میں ہوگا یہی۔ جب پلٹ کر ہم اپنی اس زندگی کو دیکھیں گے تو ہمیں یہ خواب کی طرح لگے گی۔ یہ تو بہرحال ہم کہیں گے ہی کہ ہم نے اس دنیا میں ایک دن گزارا یا اس سے کم۔ اس وقت تو یہ زندگی طویل لگتی ہے۔
شاید آخر میں ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ جن پانچ حسیات میں ہمیں قید کیا گیا تھا اور جن میں ہماری ہر لذت اور ہماری ہر تکلیف رکھی گئی تھی‘ وہ سب مصنوعی تھا۔ دنیا میں سب سے بڑی اگر کوئی محبت پیدا کی گئی ہے تو وہ نفس کی اپنے آپ سے محبت ہے۔ اس پر صرف اور صر ف اولاد کی محبت غالب آ سکتی ہے۔ اولاد کی خاطر والدین جان بھی دے دیتے ہیں۔ آخر میں ہمیں معلوم ہوگا کہ اولاد کی محبت مصنوعی طور پر دلوں میں پیدا کی گئی تھی۔ اصل میں ا س کا کوئی وجود ہی نہیں۔ شاید آخر میں ہم یہ آرزو کریں گے کہ دنیا میں ہمیں زیادہ تکلیفوں سے گزارا جاتا۔ اس وقت ہمارے پاس زیادہ علم ہوگا۔ ہم دونوں دنیائوں کا تقابل کرنے کے قابل ہوں گے۔ جو زیادہ عقلمند ہیں‘ جنہوں نے اس پہلی زندگی ہی میں یہ دوسروں سے زیادہ جان لیا ہے۔ وہ اب بھی اس حقیقت کو جانتے ہیں ۔ اسی لیے تو وہ آزمائشوں سے مسکراتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اصل خواب کون سا ہے ؟ وہ جو ہم رات کو دیکھتے ہیں یا وہ جو ہم دن میں دیکھتے ہیں یا پھر دونوں ہی خواب ہیں ؟ اللہ بہتر جانتا ہے ۔