تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-03-2019

ذرا بورے والاتک

علاقہ جو مرضی ہو، وطن کی مٹی کی خوشبو ایک جیسی ہے‘ مگر اسے فیشن کہیے، مذاق یا المیہ اپنے وطن کے بارے میں جاننے کا اشتیاق خال خال پایا جاتا ہے۔ مجھے لمبے روٹ پر جانے کا جب بھی موقع ملے بائی روڈ ٹریولنگ کو ترجیح دیتا ہوں۔ مادرِ وطن کے کھیت کھلیان، مزدور، دہقان نظر آئیں تو کیفیت شاعر کے اس خیال میں ڈھلنے میں تاخیر نہیں کرتی۔
زیادہ دیر تجھ کو دیکھنے سے/ میری آنکھوں کی بینائی بڑھے گی
عزیزم پیر مسعود چشتی، پیر پرویز احمد چشتی اور پیر محمود فرید چشتی کی والدہ کی رحلت پر فاتحہ خوانی کے لیے چک نمبر427 جانا تھا۔ دوستوں نے 2 آپشن دیے۔ پہلا اسلام آباد تا ملتان بذریعہ ہوائی جہاز پھر ملتان سے بورے والا۔ دوسرا بذریعہ سڑک۔ اسلام آباد سے بورے والا بائی روڈ پہنچنے کے بھی 3 آپشن نکل آئے۔ بہتر آپشن پر فیصلہ ہوا۔ اسلام آباد سے ٹوبہ ٹیک سنگھ بذریعہ M-2 اور فیصل آباد موٹروے۔ آگے کمالیہ کے راستے چیچہ وطنی پھر گگو منڈی کے ذریعے اس سفر کی منزلِ مراد بورے والا۔ یہ سفر ایکسپریس سڑکوں کے ذریعے شروع ہوا، اس لیے بورے والا ایکسپریس کا ذکر بھی آنا چاہیے، میری مراد وقار یونس سے ہے۔
صبح 6:50 بجے پنڈی ایکسپریس شعیب اختر کے پوٹھوہار سے موٹر وے پر سفر شروع کیا‘ جس کے دونوں طرف پہلے ٹول پلازے تک بے رحمی کے ساتھ درختوں کا قتلِ عام ہوا۔ اس ماحولیاتی دہشت گردی کے بعد بڑے بڑے بِلڈوزر جھنگی سیداں انٹرچینج سے شروع کرکے موضع نون کے نواحی موضعات تک گندم کی تیار بالیاں لیے کھڑی فصل اُجاڑ رہے ہیں۔ قوم کے دارالخلافے کی ورجن آئی لینڈ کھلی بے حرمتی کی دسترس میں ہے اور اس کے تحفظ کے ذمہ وار اداروں کے منہ میں گھنگھنیاں پڑی ہیں۔ سرکاری زمینوں، سی ڈی کی ایکوائر شدہ اراضی‘ دونوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ خاص طور سے نجی اراضی کے چھوٹے مالکان۔ چند مرلے، چند کنال رقبے والے۔ بے رحم اور بے حیا قبضہ مافیا مقامی قبضہ گروپوں سے زمین کے کچھ ٹکڑے خریدتا ہے اور باقی پر قبضے کے ساتھ ساتھ ذاتی لشکر بٹھا رکھے ہیں۔
انہی بھول بھلّیوں میں خیال کی پرواز جاری تھی کہ چکری انٹرچینج سامنے آ گیا۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے سب سے بڑے ہوٹل کی چند خواتین اور مرد ورکرز ملنے آئے۔ چکری میں میری رشتہ داریوں کا سُن کر وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کے پلاٹوں کا کیا حال ہے‘ جہاں کئی ایک نیلی پیلی ہائوسنگ سوسائٹیوں نے بین الاقوامی وارداتیں ڈالی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے شہر آباد ہیں‘ Animated شہر جن کا کرۂ ارض پر کوئی وجود نہیں۔ تھوڑی سی زمین خریدی، کسی چینی ہوٹل کے دو سوٹڈ بوٹڈ بیرے دیہاڑی پر لیے۔ کاغذی پراجیکٹ کو خیالی سی پیک سے جوڑا اور بکنگ چل سو چل۔ چکری سے اگلا انٹر چینج نیلا دلہا ہے‘ جسے بنوانے کے لیے پلواشہ خان اور فوزیہ بہرام نے بڑا زور لگایا۔ میری لا منسٹری کے عرصے میں اس ڈیمانڈ پر انہوں نے بہت بڑا عوامی مظاہرہ بھی کرایا تھا۔
ماحولیات کے حوالے سے ایک چشم کشا دھاندلی اسلام آباد تا سالٹ رینج برسرِ عام دیکھنے کو ملتی ہے۔ قدرتی نالے، چھوٹے دریا، برساتی آبی گزرگاہیں اور تازہ پانی کی سٹریم‘ سب کے کناروں پر قبضے ہو چکے ہیں‘ حالانکہ بندوبستِ اراضی کے قانون کے مطابق اس طرح کے واٹر ویز کی دونوں جانب 200 سے 400 فٹ تک نہ کوئی تعمیر ہو سکتی ہے‘ نہ ہی ترقیات کے نام پر کوئی ایکٹیوٹی‘ ماسوائے سیلابی پانی روکنے کی خاطر پختہ پشتے کی تعمیر کے۔ ان آبی گزرگاہوں پہ 25/30 سال پہلے مائیگریشن کرنے والے پرندوں کے غول اُترتے تھے۔ اب کہیں کہیں بگلہ بھگت نظر آتا ہے یا چڑیوں کے شکار میں بیٹھا اُلّو۔ صبح سویرے لمبے سفر پر نکلنے کے تجربے نے ایک بار پھر مجھے ''نور پیر ویلا‘‘ یاد کرا دیا۔ سپرنگ بریز سے لبریز ہوائیں اور خاموشی میں پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم پنڈی بھٹیاں جا پہنچے‘ جہاں سے فیصل آباد، گوجرہ موٹر وے پہ مڑے جس کی ایک جانب بڑی ترتیب سے یوکلپٹس کے چھوٹے پودے گاڑے گئے تھے۔ تقریباً 80/90 کنال رقبے پر نیچے بڑے سبز پتے، اوپر چھوٹے گلابی پتے اور کونپلیں زمین کی جادوگری کا پتہ دے رہی تھیں۔ اس پودے کو پشتون علاقے میں لاچی اور اردو میں سفیدہ کہتے ہیں۔ 10/11 سال میں پودا 40/45 فٹ اونچائی اور تین ساڑھے تین فٹ موٹائی پکڑ لیتا ہے۔ کھیلوں کا سامان، لکڑی کی پیٹیاں اور ماچس کی تیلیاں بنانے والے اس کے خریداروں میں شامل ہیں۔ اس کے پتوں کی خوشبو بالکل لونگ جیسی ہے۔ دیہی علاقوں کے حکیم اس کے پتوں کے عرق سے نزلے سے بند ہونے والی ناک کھلواتے ہیں۔ پچھلے دنوں کے پی میں یوکلپٹس کے خلاف پراپیگنڈا پر ماہرین کا سیمینار منعقد ہوا‘ جس کی تفصیل انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ کے پی میں یوکلپٹس کے جنگلات اور ذخیروں کے ارد گرد دو اہم ترین کھادوں کی قدرتی فراہمی کی اچھی خبر سنائی۔ پنجاب کے بعض زرعی علاقوں میں یوکلپٹس کو پانی دشمن اور بیماریوں کا باعث کہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کوئی نہیں جانتا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچ کر ہم نے موٹر وے چھوڑ دی اور چیچہ وطنی جانے کے لیے ٹوبہ شہر کی بجائے بائی پاس کا راستہ لیا۔ اس راستے پر سبز مرچیں اور چنے سمیت مہنگی سبزیوں کے باغات لگے ہیں۔ ساتھ ہی پلاسٹک ویسٹ کا جنگل بھی اُگ رہا ہے۔ نہ جانے کیوں ہم اپنی بستیاں اور اپنا ماحول برباد کرنے پر لگے رہتے ہیں۔ جب گند اور خرابی حد سے بڑھ جائے تو اس کا طعنہ گم شدہ افراد کی طرح مادرِ وطن کے حصے میں آتا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ بائی پاس پہنچنے تک عبداللہ نے نیند پوری کر لی تھی۔ مجھے بتایا کہ اس بستی کا نام ایک درویش صفت سکھ مہا سیِوک ٹیک سنگھ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے اس علاقے کا نام کوئی اور تھا۔ ٹیک سنگھ پینے والے میٹھے پانی کے ایک بڑے ذخیرے کا مالک تھا۔ اس نے پیاسوں کو پانی پلانے کو زندگی کا مقصد قرار دے دیا۔ سینکڑوں سال گزر گئے ٹیک سنگھ کا ٹوبہ بے ہنگم آبادیوں کے نیچے دب گیا مگر العتش، العتش کے نام پر لبیک کہہ کر دوڑ پڑنے والے کا نام آج بھی امر ہے۔ ٹیک سنگھ اپنی حیاتی میں اپنا ٹوبہ خدا کے بندوں کے پیار میں خالی کرتا رہا۔ خدائی آج بھی اسے یاد کرتی ہے۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بَنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
وکالت نامہ کی اگلی سطر پنجاب کے وزیر زراعت کے نام ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے کمالیہ اور پھر چیچہ وطنی سے آگے بورے والا تک لہلہاتی فصلوں پر بے ڈھب ہائوسنگ پراجیکٹس اور کمرشل تعمیرات جاری ہیں۔ وزیر زراعت زرعی زمینوں پر ایسی تعمیرات رکوانے کے بارے میں پنجاب کابینہ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کا فرض پورا کریں۔ بورے والا مسعود چشتی کے والد صاحب اور خاندان سے اظہارِ تعزیت کرنے پہنچے‘ جہاں پاکپتن شریف کے دیوان مہر معین الدین چشتی سے بھی ملاقات ہوئی۔ پرانے دوستوں وسیم نقوی لندن والے، سابق رکن پنجاب اسمبلی ملک نوشیر لنگڑیال ایڈووکیٹ کے ساتھ خوب ملاقات رہی۔ ملک نوشیر نے اپنی سیٹ پر آزاد الیکشن لڑا اور 20 ہزار سے زائد ووٹ لیے‘ میں نے انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی۔ وسیم نقوی لندن والا نے مین ملتان روڈ پر 4 ایکڑ میں جھونپڑیوں والا ڈھابہ اور پرندوں کی آئیوری بنا رکھی ہے۔
دن ڈھل رہا تھا اور ہمیں اسلام آباد واپسی کے لیے 6 گھنٹے کا سفر درپیش تھا‘ مگر شاہ جی کی ضد تھی کہ ہم ان کے ڈھابے کی چائے ضرور پئیں۔ صاف ستھرے پینٹ شرٹ والے نوجوان ہاتھوں پہ پلاسٹک کے دستانے اور سر پر کور سجائے مٹکا چائے لے کر آئے۔ پہلا کپ میزبان کی طرف سے تھا‘ دوسرے کی فرمائش مجھے خود کرنا پڑی۔ وہیں پر پی ٹی آئی بورے والا کے صدر، سیکرٹری اور بلدیاتی ارکان سے ملاقات ہوئی۔ بورے والا بار ایسوسی ایشن کے صدر فرقان یوسف کھوکھر اور جنرل سیکرٹری خرم ریاض چوہدری وکلا (باقی صفحہ 11 پر)
کے وفد کے ہمراہ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنے کی دعوت دینے آئے۔ ساتھ پنجاب بار کونسل کے رکن بھی تھے۔ عصر ویلا آن پہنچا ہے۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے بورے والا بار ایسوسی ایشن کی دعوت ذہن میں ہے‘ پھر آئوں گا تو پاکپتن شریف بابا فریدؒ کے آستانے پر حاضری بھی ہو گی۔ گوجرانوالہ کے دوست رائو کامران ایڈووکیٹ ہمارے گائیڈ تھے۔ وہ نہ ہوتے تو ہم سڑکوں کی بھول بھلّیوں میں دن گنوا بیٹھتے۔ تحصیل بورے والا سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کے سنگم پر واقع ہے۔ پریس کلب کے صدر ندیم صاحب نے بتایا کہ بورے والا کی آبادی دو ملین سے زائد، وکیل 800 سے زائد اور بلدیاتی ارکان دوسری دو تحصیلوں سے زیادہ ہیں۔ بورے والا ضلع بننے کی مکمل انتظامی صلاحیت رکھتا ہے۔ حضرت شکر گنج ؒ کے دیس میں لوگ مطمئن دیکھے۔ میں یہ دیکھ کر مطمئن ہوا۔ جگہ جگہ پرائیویٹ سکول اور نجی ادارے بن رہے ہیں‘ جہاں پی ٹی آئی پرچم کلر استعمال ہو رہا ہے۔ بابا فریدؒ نے طمانیتِ قلب پر کیا خوب کہا:
رُکھی سوکھی کھا فریدا، ٹھڈا پانڑی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترساویں جی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved