بنیادی طور پر چیچنیا سے تعلق رکھنے والے جن دو امریکی نوجوانوں نے حال ہی میں امریکہ کی ریاست میسا چوسٹس کے شہر بوسٹن میں بم دھماکے کیے ان کا کسی طور بھی کوئی تعلق ہمارے قبائلی علاقوں سے سامنے نہیں آیا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوجاتا تو امریکہ میں جوان گنت تھنک ٹینک وغیرہ دہشت گردی کی بیخ کنی پر مامور ہیں ان کا کام کافی آسان ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے اور اب مختلف قسم کے اندازے سامنے آرہے ہیں۔ سب سے زیادہ جس امکان پر غور ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ بوسٹن میں پریشر ککرز میں دھماکہ خیز مواد وغیرہ رکھ کر دھماکے کرنے والے دونوں نوجوانوں کے ذہنوں کو اس دہشت گردی پر آمادہ انٹرنیٹ پر موجود ایسے مواد نے کیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مواد انٹرنیٹ پر القاعدہ فراہم کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چیچنیا نژاد ان دونوں نوجوانوں نے بم بنانے کا یہ طریقہ بھی انٹرنیٹ ہی کے ذریعے سیکھا ہے۔ اگر یہ بات حتمی طور پر طے ہوگئی کہ انٹرنیٹ ہی نے بم دھماکے کرنے والے ان نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی تھی جس کا کافی واضح امکان موجود ہے تو پھر ہوسکتا ہے کہ گوگل وغیرہ جیسے ادارے جو ہماری اس مانگ کو پورا کرنے سے اپنے آپ کو قاصرکہہ رہے ہیں کہ ہمارے مذہب کے خلاف توہین آمیز مواد کو انٹرنیٹ سے ہٹا لیا جائے، اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا سوچیں۔ کیونکہ میری رائے میں اگر امریکہ کے اندر یہ احساس جاگ گیا ہے کہ جس طرح دنیا میں ہر شے حدود وقیود کی پابند ہے اسی طرح یو ٹیوب وغیرہ کے میٹریل پر بھی کسی نہ کسی سطح پر قدغن ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں نوجوانوں کو القاعدہ کے اس خطرناک مواد سے محفوظ کیا جاسکے جو ان کو دہشت گردی پر اکساتا ہے تو پھر انٹرنیٹ کے پر کترے جائیں گے۔ اس مقام پر اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح انٹرنیٹ کے مواد پر قدغن سے ہمارے مذہب کے خلاف مواد بھی انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے گا تو یہ آپ کی سوچ میری رائے میں غلط ثابت ہوگی کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں کی یہی منافقت تو پوری دنیا میں فساد پیدا کررہی ہے۔ ان ملکوں کو انٹرنیٹ پر جس مواد سے تکلیف پہنچ رہی ہے اس کو تو کوئی بہانہ بنا کر غائب کردیا جائے گا اور جس مواد سے دنیا کی آبادی کے ا یک اہم حصے کو یعنی مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے اس کو کوئی نہ کوئی اور بہانہ بنا کر وہیں رہنے دیا جائے گا۔ امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک منحوس پادری جو پہلے بھی قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرکے اسلام کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر چکا ہے اب گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات میں امریکہ میں جتنی ہلاکتیں ہوئی تھیں اتنی تعداد میں قرآن شریف کے نسخے جلانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ ہر لحاظ سے یہ ایک بیمار ذہن کی بیمار سوچ ہے مگر مغربی دنیا میں اس شخص کو موثر انداز میں ایسی قابل شرم حرکت سے روکنے والا ہمیں ایک فرد بھی نظر نہیں آتا۔ خالق کائنات جن طریقوں سے ہم انسانوں کی ہدایت کا اہتمام کرتا ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس شخص کی ہدایت اس کو مطلوب ہوتی ہے اس کو وہ ایک سے ایک کڑے امتحان میں ڈالتا ہے تاوقتیکہ اس شخص کے اندر یہ کڑے امتحانات اللہ پر ایمان کے احساس کو تقویت دینے لگتے ہیں اور یوں جب اس شخص میں ایمان کی شمع فروزاں ہوجاتی ہے تو اس پر آشکار ہوتا ہے کہ وہ کڑے امتحانات تو اصل میں پروردگار کی طرف سے رحمت تھے۔ میرے خیال میں مغربی دنیا کا مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ ہے کہ مسلسل ہمارے مذہب کی توہین کی جاتی ہے اور پھر اس توہین پر یہ کہہ کر اصرار کیا جاتا ہے کہ یہ آزادی اظہار کا حصہ ہے‘ اس میں ضرور بہ ضرور پروردگار کی رحمت پنہاں ہے جو ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ ہم سنبھل جائیں اورمغرب کے اس رویے کے ردعمل میں اپنے آپ کو مضبوط کریں۔ اس کا ردعمل ہونا چاہیے مگر ہمیں اس کے ردعمل میں وہ کام نہیں کرنے چاہئیں جن سے کرہ ارض پر مسلمانوں کو فائدے کے بجائے نقصان ہو۔ اس کی واضح مثال القاعدہ کی کارروائیاں ہیں۔ اس تنظیم نے اپنی کارروائیوں سے محض ہمارے دشمنوں کے ہاتھ ہی مضبوط کیے ہیں۔ مسلمان جو پوری دنیا کے ملکوں میں مقامی آبادیوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے القاعدہ کی عاقبت نااندیش حکمت عملی کے بعد اب امتیازی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ القاعدہ کی حکمت عملی سے قطع نظر مغرب کی ان معاندانہ کارروائیوں میں ہم اپنے پروردگار کی رحمت یوں ڈھونڈ سکتے ہیں کہ ان کے ردعمل میں ہم لوگ اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط کریں، تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں، سائنس کی دنیا میں تقلید تک اپنے آپ کو محدود کرنے کے بجائے ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہمارے مسلمان ملکوں میں بھی ایجادات ہوں اور دوسرے ملکوں کے ساتھ بقائے باہمی اور حسن سلوک کے وہ معیارات قائم کریں کہ کوئی ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگائے تو اس کو خود شرم آئے۔ یہ ایجنڈا کوئی ایسا نہیں ہے کہ قابل عمل نہ ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کہیں بھی احساس زیاں دکھائی نہیں دیتا۔ پوری اسلامی دنیا میں نفسا نفسی کا عالم دکھائی دے رہا ہے۔ کتنے اسلامی ملک ہیں جہاں باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے یا ایسی تحریکیں چل رہی ہیں کہ امن نام کو نہیں ہے۔ ملکوں کے اندر سے اور باہر سے سازشیں ہورہی ہیں۔ کہیں حکمران خود مغربی ممالک کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارے اپنے مسلمان بھائی ہمیں واجب القتل قراردیکر ہم پر خودکش حملے کروا رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں دنیا میں بدعنوان ترین حکومتوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ مسلمان ملکوں کو اس ناگفتہ بہ صورتحال اور ہماری اس المناک حالت کے باوجود اس جہان کا پروردگار، مغربی ملکوں کے ہمارے خلاف متحدہ معاندانہ رویے کی شکل میں جو پیغام دے رہا ہے۔ اس میں پنہاں اس کی رحمت کے پہلو کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور جس طرح پندرھویں صدی میں یورپ نے تحریک احیائے علوم شروع کرکے ترقی کی، اسی طرح اب ہمیں بھی مسلمانوں کی تحریک احیائے علوم شروع کرنے کی کوئی سبیل پیدا کرنی چاہیے۔ اللہ توفیق دے تو سب کام ہوجاتے ہیں اور ایسے کاموں میں تو بعض اوقات صدیاں صرف ہوجاتی ہیں۔ ہمارے حالات اتنے خراب ہیں کہ ہم بس نیت ہی کرلیں تو کافی ہے۔ باقی کام اگلی نسلیں کرسکتی ہیں۔ مگر نیت خالص ہونی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved