ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر آج تک‘ تمام حکمرانوں میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے... اور وہ ہے‘ ووٹ دینے والوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہنا۔ انہیں ان کی غلطی کی سزا روزانہ کی بنیاد پر دینا۔ یہ حکمران ایک دوسرے کے حلیف ہوں یا بد ترین حریف‘ جن عوام کے ووٹ کی بدولت اقتدار کے سنگھاسن پر آ بیٹھے ہیں‘ انہیں عوام پر عرصہ حیات تنگ کرتے چلے جاتے ہیں۔ انتخابی مہم میں جن عوام کے میلے کچیلے کپڑوں سے اُنہیں خوشبو آتی تھی‘ اقتدار میں آتے ہی انہیں کپڑوں سے اُنہیں گھن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ووٹ کے حصول کیلئے جن کے گھروں کے چکر لگاتے نہ تھکتے تھے‘ الیکشن جیتتے ہی سب سے پہلے اپنے ڈیروں، دفاتر اور کوٹھی‘ بنگلوں کے دروازے اُنہیں عوام پر بند کرتے ہیں۔ جن کی غربت دور کرنے کے لمبے چوڑے بھاشن دئیے جاتے تھے اُنہیں عوام کی غربت میں اضافہ کرکے ذلت اور پچھتاوے کا بونس بھی دے دیا جاتا ہے۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر آج تک‘ حکمران کوئی بھی ہو‘ دَور کسی کا بھی ہو‘ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے سے بھی دریغ نہ کرنے والے سیاست دانوں کے اقتدار کے ادوار میں یہ قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے۔
ہر دور میں ہر حکمران بد عہدی، وعدہ خلافی اور عوام سے بے وفائی میں سابق حکمرانوں کے ریکارڈ توڑتا نظر آیا ہے اور عوام ہیں کہ ہر بار انہی بے وفاؤں کی لچھے دار گفتگو، چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب وعدوں کا شکار ہو کر ان پر پھر اعتبار کر بیٹھتے ہیں اور ہر بار وہی مشق ستم دوہرائی جاتی ہے‘ جو اِن کی بدحالی اور کسمپرسی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ بات ہو رہی تھی قدرِ مشترک کی۔ ایک دوسرے کے بدترین مخالف اور ایک دوسرے کی ضد سیاستدان عوام دشمنی میں اکٹھے اور متحد نظر آتے ہیں۔ خوشحالی کے خواب اور سنہرے دور کا جھانسہ دینے والے سیاستدان اقتدار میں آتے ہی اپنے وعدوں سے منحرف ہونے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ پھر اس انحراف کے دفاع میں ایسی ایسی بھونڈی وضاحتیں اور عذر پیش کیے جاتے ہیں کہ سننے والے کا دل کرتا ہے کہ اپنا سر دیوار سے ٹکرا دے... کیونکہ سنانے والے پر تو ان کا کوئی اختیار ہوتا ہے نہ اس پر کوئی اعتبار باقی رہتا ہے۔
قارئین! نواز شریف صاحب کو عبوری رہائی مل چکی ہے۔ وہ ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ 17 جنوری کو جیل میں جو تکلیف ان کو سینے میں شروع ہوئی‘ 70 دن بعد اس کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔ اس دوران تین میڈیکل بورڈ بنے، تین ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے گئے لیکن نہ تو مریض کو معالج پر اعتبار تھا‘ اور نہ ہی علاج کروانے والوں کو ان کی بیماری کا یقین۔ ان 70 دنوں میں نواز شریف صاحب کی بیماری کو لے کر جو سیاست ہوئی وہ ایک لمبی تفصیل ہے؛ تاہم علاج کے لیے 6 ہفتوں کی ضمانت میں توسیع ہوتی ہے یا نہیں یہ فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے لیکن سیاست میں ڈیڑھ مہینے کا ریلیف کوئی معمولی بات نہیں... یہاں تو منٹوں، گھنٹوں اور دنوں میں بازیاں پلٹ جاتی ہیں۔ دیکھتے ہیں‘ نواز شریف کو ملنے والے اس ریلیف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
نواز شریف صاحب کو ڈیڑھ ماہ کی ضمانت ملنے کی خبر وزیراعظم کو کابینہ کے اجلاس کے دوران دی گئی تو انہوں نے عدالتی فیصلے کے احترام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے نواز شریف کی صحت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دوسری طرف شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح گزشتہ روز سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو گئے۔ اگر نہیں گئے تو بلاول بھٹو‘ کیونکہ وہ سندھ میں ٹرین مارچ شروع کر چکے ہیں اور انہیں وزیراعظم ہاؤس سے چیخوں کی آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔
وطن عزیز میں چشم فلک نے ایسے مناظر کئی بار دیکھے ہیں۔ اس کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ سیاست ہے۔ یہاں پر ناخوب کا بتدریج خوب ہو جانا اور خوب کا بتدریج ہی ناخوب ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ سب چلتا ہے۔ ایسے ہی چلتا آرہا ہے۔ اقتدار میں ہوں تو ویسے ہی موجیں لگی ہوتی ہیں۔ زیر عتاب یا زیر احتساب ہوں تو جلد یا بدیر ریلیف بہرحال مل ہی جاتا ہے۔ ویسے بھی وطن عزیز کا موجودہ منظر نامہ ماضی کے این آر او کا ''بینی فشری‘‘ ہے۔ نہ این آر او ملتا‘ نہ گٹھ جوڑ ہوتا۔ نہ کوئی چھوٹا بھائی بنتا۔ نہ کوئی بڑا بھائی بنتا۔ کون کہاں ہوتا‘ کس حال میں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ این آر او دینے والے پرویز مشرف گارڈ آف آنر لے کر خود تو نکل لیے۔ پیچھے رہ جانے والے گٹھ جوڑ نے ملک و قوم کے وسائل اور دولت کے ساتھ ساتھ عوام کے خواب ہی نگل لیے‘ اور ڈکار بھی نہ مارا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں تو کسی طرح جلد یا بدیر ریلیف مل ہی جاتا ہے۔ کیا عوام کو بھی کبھی ریلیف مل سکے گا؟ جو عوام ان سیاستدانوں کو اقتدار کے جھولے جُھولاتے جُھولاتے نیم مردہ ہو چکے ہیں‘ وہ نہ زندوں میں ہیں اور نہ ہی مردوں میں۔ ان کی ادھ کھلی آنکھیں سارا تماشہ دیکھ تو رہی ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتیں۔ یہ سارے مناظر دیکھ دیکھ ان کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ زبانیں چیخنا چاہتی ہیں‘ لیکن ہمت، طاقت جواب دے چکی ہے۔ اعصاب شل اور پاؤں من من کے ہو چکے ہیں۔ اپنی مرضی سے نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔ مرنا کون سا آسان ہے۔ حکمرانوں کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ آج کل مرنا کتنا مہنگا ہے۔ ؎
سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
حکمرانوں کے فیصلوں، مفادات اور مصلحتوں کے شکنجوں میں روز اوّل سے ہی جکڑی اس عوام کو ریلیف کب اور کیسے ملے گا؟ یہ کیسا سنگین مذاق ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے انقلابی اقدامات، غربت کا خاتمہ تو کبھی نہ کر سکے لیکن غربا کو ختم کرنے اور انہیں زندہ درگور کرنے کا موجب ضرور بنتے رہے ہیں۔ گویا غربت کے خاتمے کا پہلا ہدف غریب ہی ٹھہرتا ہے اور پھر ایسی غریب ماری ہوتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ اعمال کی پکڑ سے بچنے کے لیے احتسابی کارروائیوں کو سیاسی عتاب قرار دینے والے اپنی اپنی کھال اور اپنی اپنی گردن بچانے کے لیے بھاگے پھر رہے ہیں۔ زیر عتاب تو عوام ہیں... کرموں جلے عوام ازلوں سے‘ جنموں سے زیر عتاب ہیں۔ ان کی طرز حکمرانی ہو یا انتخابی وعدے... عذاب ہی عذاب... عتاب ہی عتاب۔
جو گناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے
اس ملک کے عوام کے لیے بھی کوئی این آر او، کوئی ریلیف پیکیج ہونا چاہیے۔ وہ بھی اپنی خواہش کے مطابق عزتِ نفس کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اس حوالے سے چند کام کی باتیں قابل عمل تجاویز کے ساتھ اگلے کالم میں شیئر کروں گا۔
آخر میں ایک خبر‘ پنجاب پولیس میں اندرونی احتسابی عمل کے نتیجے میں 36 ڈی ایس پی عہدے کے افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ پولیس فورس کی بدنامی کا باعث بننے والی کالی بھیڑوں کا کوئی مستقل بندوبست ہونا چاہیے کیونکہ معطلی اور بحالی تو ان کے لیے ''میوزیکل چیئر‘‘ گیم سے زیادہ نہیں۔ لاہور کے 12 تھانوں کو مرحلہ وار نئی عمارتیں دینے کا کام جاری ہے جبکہ تھانہ نولکھا اور بادامی باغ کی نئی عمارتیں تیار ہو چکی ہیں اور شادی شدہ پولیس افسران کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ 36 فلیٹس کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔ سی سی پی او لاہور بی اے ناصر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ''سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ عمارتوں اور سہولیات کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ سہولیات شہر کا امن و امان تہہ و بالا کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنے میں کس حد تک کارگر ہوتی ہیں‘ یہ دیکھنا باقی ہے۔
ایک اور خبر‘ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا ریٹائرمنٹ کے باوجود سرکاری بلٹ پروف لینڈ کروزر واپس کرنے سے انکاری نظر آتے ہیں۔ ایس اینڈ جی اے ڈی کی طرف سے تحریری یاد دہانیوں اور گاڑی کی واپسی کے مطالبے پر مبنی خطوط کے باوجود آئی جی آفس اپنے سابقہ باس سے گاڑی بازیاب کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔