نواز شریف کی ضمانت پر رہائی ہر کسی کیلئے خوشی کا باعث ہونی چاہئے کہ اس طرح ایک سابق وزیر اعظم ‘جن کی ذہنی دبائو کی وجہ سے جیل میں صحت گرتی جا رہی تھی‘ وہ اپنی مرضی کا علاج کرا سکیں گے۔ پاکستانیوں کیلئے خو شی کا پہلو یہ بھی ہو گا کہ تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والا شخص اپنے ہی ملک کے ہسپتالوں سے علاج کروا رہا ہے‘ ورنہ ہوتا یہ تھا کہ کسی بھی حکمران کو چھینک بھی آ جاتی‘ تو وہ لندن امریکہ ‘ فرانس‘ جرمنی میں علاج کیلئے بھاگ اٹھتا تھا ۔ 9 مارچ کو اپنے کالم ''جانے دیجئے ‘لیکن ایک شرط پر‘‘ میں تجویز دی تھی کہ میاں نواز شریف کا علاج شریف میڈیکل سٹی یا اتفاق ہسپتال میں کرانے کا حکم دیا جائے اور سنا ہے کہ میاں نوازشریف کو شریف ہسپتال میں داخل کر ایا جا رہا ہے اور پھر جب ان کی ضمانت کو چار ہفتے گزرنے والے ہوں گے‘ تو ان کے اندرونی اور بیرونی ڈاکٹروں کی جانب سے سفارش کی جائے گی کہ ان کی ضمانت میں توسیع کر د ی جائے‘ جسے ہو سکتا ہے کہ انسانی ہمدردی پر قبول بھی کر لیا جائے۔
میاں صاحب کی رہائی اہم ہے اور وہ اب یقینا ذہنی دبائو سے بھی آزاد ہو گئے ہوں گے‘ لیکن ان کی رہائی کا ایک پہلو‘ مجھے انتہائی '' ذہنی دبائو‘‘ کا شکار کر گئی ہے۔ میاں نواز شریف کو رات بارہ بجے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا‘ جبکہ میں پی پی پی کے بنائے گئے مقدمے میں قصور جیل میں بند تھا‘ تو میری روبکار لاہور ہائیکورٹ سے مقررہ پانچ بجے شام سے کوئی پچیس منٹ بعد لائی گئی‘ لیکن قصور جیل کے حکام نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا‘ جس سے مجھے ایک دن مزید جیل میں رہنا پڑا ۔ یہ ذہنی دبائو‘ اس لئے تمام عمر نہیں بھولے گا کہ جسٹس جاوید اقبال مرحوم نے میری ضمانت ہی اس بنیاد پر لی تھی کہ میرے بی اے کے امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ میرے وکلاء نے میری رول نمبر سلپ عدالت کے سامنے رکھی ‘جس پر مجھے ضمانت دی گئی‘ لیکن میری روبکار چند منٹ دیر سے پہنچنے پر اگلے دن اس وقت رہا گیا جب امتحان کا وقت گزر چکا تھانتیجہ یہ نکلا کی انگریزی میں میری کمپارٹمنٹ آ گئی۔
رات بارہ بجے کے بعدمیاں صاحب کو جیل سے نکلتا دیکھ کر جیل کی وہ رات یاد آ گئی‘ جب قصوری چکی کے پختہ فرش پر لیٹے یہ سو چ سوچ کر میں سخت ذہنی دبائو کا شکار تھا کہ کل تو میرا انگلش اے کا امتحان ہے؟ کیا میں بی اے میں فیل ہو جائوں گا؟اس دور میںپی پی پی کی جمہوری حکومت میں بنائے گئے‘ جمہوری مقدمے کی وہ رات میں نے جیل کی قصوری چکی میں بند کس طرح گزاری‘ مجھے بھول چکی تھی‘ لیکن آج جب سب قانون قاعدے ہوا میں اڑتے دیکھے‘ جب جیل کے در ودیوار ہر قسم کے قوانین کو روندتے ہوئے نواز شریف کیلئے رات گئے کھولے جا رہے تھے‘ تو مجھے لگا کہ میں آج ایک بار پھر فیل ہو گیا ہوں اور وہ قافلہ جو ہندوستان سے پاکستان آتے ہوئے 18 اگست لوٹا گیا تھا‘ آج پھر لٹ گیا ہے ۔ چند منٹ دیرسے پہنچنے والی روبکار نے میرا ایک تعلیمی سال ضائع کر دیا تھا‘ لیکن یہاں روبکار پانچ گھنٹے دیر سے لائی جاتی ہے اور عثمان بزدار صاحب کے حکم خاص سے جیل کے دوازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔
مجھے ایک ایسے مقدمے میں قصور جیل میں بند کیا گیا تھا‘ جس سے میرا دور دور تک کا کوئی تعلق نہ تھا۔ میرا صرف ایک قصور تھا کہ ان دنوں میری احمد رضا قصوری سے بہت ہی دوستی تھی‘ جن سے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شدید ناراض تھے یا اگر یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ بھٹو صاحب‘ ان کو سبق سکھانے کے موڈ میں تھے ۔قصوری صاحب کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا‘ جس کی ایف آئی آر میں میر انام بھی شامل کر دیا گیا کہ میں ان کے ہمراہ پی پی پی کے لیڈروں پر حملہ آور ہواتھا۔ سیشن جج کی عدالت سے ضمانت کی در خواست خارج کر دی گئی اور پھر لاہور ہائیکورٹ رجوع کیا گیا۔ گرفتاری کے کوئی بیس دنوں بعد لاہور ہائیکورٹ سے مر حوم میاں محمود علی قصوری (اﷲ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ آمین) میرے وکیل تھے‘ ان کی کمال مہربانی سے بغیر کسی فیس اور منشیوں کے اخراجات کے ان کی وکالت کے ذریعے میری ضمانت ہوگئی ۔خیال تھا کہ ضمانت ملنے کے بعد اسی شام جیل سے رہائی ملنے پر گھر چلا جائوں گا‘ کیونکہ میراضمانتی اپنی جائیداد کے تما م اصلی کاغذات کے ساتھ ہائیکورٹ پہنچا تھا‘ وہاں سے کافی کوشش کے بعد فیصلے کی کاپی لی گئی اور پھر '' مٹھائی‘‘ کے نام سے جیب بھرنے کے بعدروبکار بنائی گئی ‘تاکہ رہائی مل جائے‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا‘ کیونکہ میری روبکار لے کر میرے ایک عزیز جو آج اس دنیا میں نہیں ‘ جب قصور جیل پہنچے تو اس وقت شام کے چھ بجنے والے تھے اور جیل حکام نے یہ کہہ کر روبکار ہونے کے با وجود مجھے رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ شام پانچ بجے کے مقررہ وقت کے بعد جیل سے کسی کو رہا نہیں کیا جاسکتا‘ کیونکہ شام ہونے سے قبل جیل میں بند تمام قیدیوں اور حوالاتیوں کی گنتی کرنے کے بعد آئی جی جیل خانہ جات اور ہو م سیکرٹری تک یہ ریکارڈ مہیا کر دیا جاتا ہے کہ جیل میں کتنے قیدی اور حوالاتی بند ہیں۔اس طرح مجھے قصور جیل میں ایک دن مزید رکھا گیا اور اگلے دن رہا کیا گیا۔
آج اس واقعہ کو45 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ۔میں اس اذیت اور پی پی پی کی جمہوریت کے زخموں کو کب کا بھول چکا تھا‘ لیکن رات ٹی وی دیکھتے ہوئے کوئی ایک بجے کے قریب جب میاں نواز شریف کو ضمانت ملنے پر کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا تو میں سمجھا کہ شاید وہ قانون تبدیل ہو چکا ‘ جب شام پانچ بجے کے بعد جیل کے دروازے اور ریکارڈ بند کر دیئے جاتے تھے۔ اگلے دن جب ہوم ڈیپارٹمنٹ اور ایک جیلر دوست سے تفصیلی رابطہ کیا‘ تو وہ خود حیران تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ہمیں لگ رہا ہے کہ عثمان بزدار کی پنجاب میں کوئی حیثیت ہی نہیں ‘ان کا کہنا تھا کہ آج بھی جیل سے رہائی کاوقت اورقانون وہی ہے‘ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ۔ اس پر جب متعلقہ محکمے کے ایک ذمہ دار افسر سے بات ہوئی تو انہوں نے جو کچھ بتایا؛ اگر اس کی تفصیل بتادی جائے تو کوئی یقین ہی نہیں کرے گا کہ کوٹ لکھپت جیل تو کیا آئی جی جیل خانہ جات ہاتھ باندھے میاں صاحب کے سامنے اس طرح کھڑے ہوئے تھے ‘جیسے آج بھی شہبازشریف ہی پنجاب کے بادشاہ ہیں۔
2018ء صرف ایک سال میں کوٹ لکھپت اور کیمپ جیل لاہور میں بند4 ہزار سے زیا دہ ملزمان کو ان کی با اختیار عدالتوں سے ضمانت ہونے کے بعد روبکارلے کر جیل حکام کے پاس آنے کے با وجود یہ کہہ کر رہا نہیں کیا گیا کہ ان کی روبکاریں آدھ گھنٹہ دیر سے پہنچی تھیں ۔ نیا پاکستان بنانے والوں کی یا کچھ میڈیا کی زبان کے مطا بق؛ تبدیلی سرکار کی یہ کیا رسم چل نکلی کہ انہوں نے بھی '' ایک نہیں دو پاکستان‘‘ بنا دیئے ہیں‘ جس سے ان کو ووٹ دینے والے سب ذہنی دبائو کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک پاکستان‘ جس میں غریب اور کمزور کیلئے وہی سخت قانون اور طاقتور اور بڑے لوگوں کے پاکستان والوں کیلئے موم کی ناک والا قانون ہے۔