عالمی سطح پر ریاستوں اور ممالک میں سربراہانِ مملکت وحکومت بھی ہیں ‘صدور اور وزرائے اعظم بھی ہیں ‘ ملوک وسلاطین بھی ہیں ‘لیکن قیادت کا فقدان ہے ۔محض سیاستدان یا حکمران وہ ہوتا ہے جو ناک کی سیدھ میں دیکھتا ہے ‘ فوری فائدہ اُس کے پیشِ نظر ہوتا ہے ‘اُس کا ظرف خالی اور دامانِ خیال تنگ ہوتا ہے ‘ اُس سے کسی غیر معمولی نُدرت ‘اختراع ‘ نظریاتی اور جوہری تبدیلی کی توقع کرنا عبث ہے‘ اُس کا اپنے پیش روئوں سے اُنیس بیس یا اٹھارہ بیس کا فرق ہوسکتا ہے ‘ بہت زیادہ نہیں۔اس کے برعکس قائد ویژنری ہوتا ہے ‘مُدَبِّر ہوتا ہے ‘وہ صرف ناک کی سیدھ میں نہیںبلکہ اپنی چشمِ بصیرت سے شش جہات پر نظر رکھتا ہے ‘دور تک دیکھتا ہے ‘ سوچے سمجھے بغیر اندھا دھند چھلانگ نہیں لگاتا ‘ماضی کے تجربات ‘ کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر مستقبل کی پالیسی طے کرتا ہے ‘ امکانات کی ایک دنیا اُس کے سامنے دامن پھیلائے ہوتی ہے ‘ اُس کے اقدامات سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی ہیں ‘وہ خوشامدی اور چشمِ بصیرت سے عاری مصاحبین کی مدح وستائش سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جانے کے بعد خوشامد پسند یا نفرت سے آلودہ ذہن والے نہیں ‘بلکہ معروضی انداز میں تحقیق وتجزیہ کرنے والے مورخین فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی شخص کا عالمی رہنمائوں میں مقام ومرتبہ کیا تھا‘اُس نے اپنی قوم اور عالَم انسانیت کو کیا فیض پہنچا یاہے‘ اُس کے کن اقدامات سے ترقی کا پہیہ جام ہوگیا‘ ملک بہت پیچھے چلا گیا‘ جمود کا شکار ہوگیا ‘ عدمِ استحکام ‘ انتشار اور تشَتُّت وتفریق کی نذر ہوگیایا بلندیوں کو پہنچا۔
اس وقت دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو 195ممالک ہیں ‘ان میں سے 57مسلم ممالک ہیں ‘لیکن قیادت کا بحران پوری دنیا کو درپیش ہے ۔ اس وقت دنیاکئی خطرات سے دوچارہے ‘ اقوامِ متحدہ اور اس کا سب سے طاقتور ذیلی ادارہ سیکورٹی کونسل بے اثر ہوچکے ہیں۔ہماری تمام تر نفرتوں کے باوجود تاحال امریکہ سپر پاور ہے ‘لیکن ماضی میں اس کے صدور اور پالیسی ساز دنیا کو ساتھ لے کر چلتے تھے ‘عالمی مسائل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ‘عالمی قیادت کاتصور ابھرتا تھا‘ لیکن امریکہ کے موجودہ صدر محض حکمران ہیں‘ مدبّر نہیں ہیں ‘ مغلوب الغضب ہیں ‘ کسی بھی مسئلے پر ردِّعمل ظاہر کرنے میں نہایت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اُن کی سیاست کبھی گرم اور کبھی نرم ‘پارہ کبھی بلند اور کبھی فرو ‘ الغرض کسی بھی معاملے میں اُن کے بارے میں کوئی پختہ رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔انگریزی میںاسے Unpredictable یعنی ناقابلِ پیش گوئی کہتے ہیں ۔دنیا کی قیادتوں کو ایک پلیٹ فارم یا ایک موقف پر جمع کرنا تو دور کی بات ہے ‘ پہلے سے طے شدہ دو طرفہ یا بین الاقوام معاہدات پر وہ چشمِ زدن میں خطِّ تنسیخ پھیردیتے ہیں‘ سو ان کے حریف تو کیا‘حلیف بھی پریشان ہیں۔
برطانیہ کبھی سپر پاور تھی ‘ آج بریگزٹ کے مسئلے پر اس کی وزیر اعظم کی حالت قابلِ رحم ہے ۔وہ اپنی پارلیمنٹ اور یورپین یونین کے درمیان فٹ بال بنی ہوئی ہیں ‘نہ اپنی قوم کو قائل کرپارہی ہیں‘ نہ یورپین یونین سے کوئی قابلِ لحاظ مراعات حاصل کر پارہی ہیں۔ اگر وہ برطانیہ کی جمہوری روایات کی روشنی میں پارلیمنٹ سے بریگزٹ ڈیل کے رد ہونے پر مستعفی ہوجاتیں تو اُن کا سیاسی قد کاٹھ بڑھ جاتا‘ لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے شعارِ حکمرانی پر چلتے ہوئے وہ اقتدار سے چمٹی رہیں اور اپنا اعتبار کھو بیٹھیں۔یورپین یونین کو بھی جرمن چانسلر انجیلا مرکل حکمت سے چلاتی رہی ہیں ۔وہ ایک طرح سے آئرن لیڈی ثابت ہوئی ہیں ‘امریکی صدر ٹرمپ کے آگے بھی حسبِ توفیق بند باندھتی رہی ہیں ۔وہ 2005ء سے اپنے ملک ووطن کی قیادت کر رہی ہیں اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ 2021ء کے بعد وہ عملی سیاست سے دست بردار ہوجائیں گی۔ فرانسیسی صدر بھی بحران سے دوچار ہیں‘پیلی جیکٹ والوں کے مظاہرے مہینوں سے جاری ہیں ‘ وہ ہراختتامِ ہفتہ پیرس کی گلیوں میں جمع ہوکر احتجاج کرتے ہیں ‘توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں ‘الغرض طویل منظم احتجاج فرانسیسی سیاست ومعیشت کے عدمِ استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے مختلف حوالوں سے عصبیت کو ابھار کر الیکشن جیتا ہے ۔وہ مسلمانوں اور سپینش باشندوں سے نفرت کا اظہار کرنے میں کوئی تردُّد نہیں کرتے ‘ ماضی میں امریکی ریاستیں کیلیفورنیا اور ٹیکساس میکسیکو کا حصہ رہی ہیں ‘کیلی فورنیا میں میکسیکن باشندے بڑی تعداد میں ہیں ‘اس لیے صدر ٹرمپ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان کھلی سرحد پر ایک آہنی دیوار بنانا چاہتے ہیں جبکہ کانگرس کی طرف سے اس کی مزاحمت ہورہی ہے ‘ لیکن وہ بے انتہا ضدی اوراَڑیَل ہیں۔جرمنی میں نسل پرست اب شاملِ اقتدار ہیں ‘فرانس اور ہالینڈ میں گزشتہ انتخابات میں سفید فام نسل پرست اقتدار تک پہنچتے پہنچتے رہ گئے ۔ الغرض امریکہ اور یورپی ممالک میں نسلی منافرت کہیں بالائی اور کہیں زیریں سطح پر موجود ہے اور اسے بتدریج بڑھاوا مل رہا ہے ۔نیوزی لینڈ کی مسجدوں میں دہشت گردی کا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ سفید فام نسل کے اذہان میں چند طرح کے خدشات پیدا کیے جارہے ہیں:(1)تارکینِ وطن کے سبب اُن کی اکثریت اقلیت میں بدل سکتی ہے یا بے اثر ہوسکتی ہے ‘خواہ وہ اس کا اظہار کریں یا نہ کریں‘کیونکہ اپنے لاشعور میں بنی اسرائیل کی طرح وہ خودکو برتر مخلوق اورعالمی حکمرانی کا اہل سمجھتے ہیں ‘ (2) اُن کی ملازمت کے مواقع تارکینِ وطن اور دیگر قومیتوں کے لوگ غصب کر رہے ہیں ‘ (3) اُن کی تہذیب خطرے سے دوچار ہے ‘ وغیرہ۔ہر کوئی جانتا ہے کہ محبت کی خوشبو کے مقابلے میں نفرت کی بدبو بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور مفاد پرست ومتعصب ذہنوں میں جگہ پالیتی ہے۔
برطانیہ واحد ملک ہے جہاں نسل پرست گروہ موجودتو ہیں لیکن تاحال وہ پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پائے ‘ مگر زیادہ دورکی بات بھی نہیں ہیں۔ ٹِریسامے بریگزٹ کے معاملے کو کھینچتے کھینچتے اپنی قوم کو بند گلی میں لے آئی ہیں ‘ شاید اُن کا خیال یہ تھا کہ آخری مراحل میں جب نوڈیل کے سوا کوئی آپشن نہیں رہے گا تو پارلیمنٹ اُن کی طے کردہ بریگزٹ ڈیل پر مہرِ تصدیق ثبت کردے گی لیکن اب تک ایسے کوئی آثار نہیں ہیں ۔یورپین یونین برطانیہ کو بریگزٹ ڈیل تسلیم کر کے یونین سے نکلنے کے لیے 30جون تک مہلت دینے کوتوتیار ہے لیکن ڈیل پر دوبارہ مکالمے کے لیے تیار نہیں ہے ‘ سو ٹِریسامے کے لیے تاحال منظر یہ ہے : ''نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ ‘۔ بدھ کی شام تک کی خبر یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ڈیل پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی صورت میں استعفے کی مشروط پیش کش کی ہے ‘ ابھی انجام واضح نہیں ہے‘ لیکن اب یہ استعفیٰ ان کے سیاسی وقار میں اضافے کے بجائے ناکامی اورزوال کا سبب بنے گا۔ برطانوی پارلیمنٹ دوبارہ ریفرنڈم کی طرف بھی جانے کے لیے تاحال آمادہ نہیں ہے ‘سو سیاسی میدان میں برطانیہ کی تذلیل ہورہی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آج برطانیہ اولوالعزم قیادت سے محروم ہے ۔
اب تک مغرب اپنی معاشرتی تکثیریت کواپنا افتخار بتاتا رہاہے کہ ان کے ہاں رنگ ونسل ‘ مذاہب اور تہذیبوں کا تنوُّع ہے ‘ لیکن اب امریکہ اور یورپ کے دل ودماغ میں بحیثیت ِمجموعی قبولیت کی پہلی سی گنجائش نہیں ہے ۔ رنگ ونسل ‘مذاہب اور تہذیبوں کے مابین نفرت پیدا کرنے والوں کا تناسب بڑھ رہا ہے ‘لہٰذا پاکستانی تارکینِ وطن جو مغربی ممالک میں وہاں کی قومیت اختیار کر کے رہ رہے ہیں ‘عدمِ اعتماد اور بے یقینی سے دوچار ہیں ۔اس وقت تک کی آئینی وقانونی پوزیشن تو یہ ہے کہ وہاں کی قومیت اختیار کرنے کے بعد انہیں یکساں حقوق حاصل ہیں ‘ اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے ‘لیکن کہیں نہ کہیں اُن کی عبادت گاہوں پر نظر نہ آنے والا سرخ دائرہ کھنچا ہوا ہے۔ مغربی معاشرہ تارکین ِوطن کو اپنے ہاں جذب کرنے سے بے نیاز بھی نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ انہیں اپنے نظام کو بھی چلانا ہے ‘ مقامی لوگوں کے مقابلے میں تارکینِ وطن کی خدمات کے معاوضے کم ہوتے ہیں ‘ اگر وہ غیر قانونی ہیں‘ تو کافی حد تک ان کا استحصال بھی کیاجاتا ہے اور اب انہیں شہریت دینے کے امکانات کو کم سے کم کیا جارہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آئندہ پندرہ سے پچیس سال کے عرصے میں نئے تارکینِ وطن کے لیے امکانات محدود ہوجائیں گے ‘ وہ برابر آئینی اور انسانی حقوق کے حقدار نہیں رہیں گے ‘محدود وقت کے لیے انہیں ورک پرمٹ پر شاید روزگار مل سکے گا‘ لیکن خلیجی ریاستوں کی طرح انہیں حقوق سے محروم ہونا پڑے گا اور عہدِ قدیم کی غلامی کی ایک جدید شکل وجود میں آئے گی۔اللہ کرے کہ ہمارے خدشات سوفیصد غلط ثابت ہوں لیکن سرِدست نوشتۂ دیوار یہی ہے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا کے رقبے بہت بڑے اورآبادی بہت کم ہے ‘ انہیں مختلف شعبوں میں لمبے عرصے تک تارکینِ وطن کی ضرورت رہے گی ‘ لیکن آنے والے وقت میں ان کے حقوق محدود کیے جاسکتے ہیں‘ خلیجی مسلم ممالک کی مثال کو وہ بطورِ دلیل پیش کرسکتے ہیں۔
ژی جن پنگ کی قیادت میں چین تیزی سے ترقی کرتا ہوا بڑی آبادی والا ملک ہے ‘ لیکن معاشی استحکام کے باوجود اسے بھی ایک مؤثر عالمی قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے کافی وقت درکار ہے ۔ روسی صدرپوتن اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لیے بے چین ہیں ‘ وہ مزاحمت بھی کر رہے ہیں لیکن روس کی معیشت یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں اتنی مستحکم نہیں ہے ۔ حقیقی چیلنج نہ ہونے کے سبب امریکی صدر ٹرمپ جب چاہتے ہیں‘ اپنے کسی حریف ملک پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں ‘معاہدات کو توڑ دیتے ہیں‘ انہیں کسی کی پروا نہیں ہوتی ‘ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینااس کی نمایاں مثال ہے۔سو امت ِمسلمہ کے پاس ستاون ملوک وسلاطین‘ صدوراوروزرائے اعظم ہیں‘ نظامِ حکومت جیسے تیسے چل رہا ہے لیکن عالمی سطح پر انسانیت اورعالمِ اسلام کی سطح پر امتِ مسلمہ قیادت سے محروم ہے‘ آج کا سچ یہی ہے۔رجب طیب اردوان کی اٹھان اچھی جارہی تھی اور امت ِمسلمہ کی نگاہیں اُن کی طرف اٹھ رہی تھیںلیکن اُن کے پر کاٹنے کی بھی تدبیریں کی جارہی ہیں ۔حال ہی میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن نے قیادت کا ایک قابلِ تقلید معیار پیش کیا ہے‘لیکن نیوزی لینڈ دنیا کے اس کنارے جنوبی بحرالکاہل کے قریب پچاس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹاملک ہے ‘عالمی سیاست میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے ۔