وزیر اعظم نے قوم سے کہا ہے کہ وہ سمندر میں تیل و گیس کے ذخائر کے حوالے سے جلد خوشخبری سنائیں گے۔ پہلے پہل ان کے لب سے ''خوش خبری‘‘ سن کر لوگ کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے۔ اس قوم سے خوشخبری کے نام پر اتنی بار مذاق کیا گیا ہے کہ اب کوئی خوشخبری کی بات کرتا ہے تو پہلے ہنسی چُھوٹتی ہے‘ پھر رونا آتا ہے۔ اس وقت حقیقی خوشخبری یہ ہے کہ وزیر اعظم کے منہ سے یہ دونوں الفاظ سُن کر کم ہی لوگوں کی ہنسی چُھوٹی۔ بہت سے صرف مسکراکر رہ گئے۔ بقول قمر جمیلؔ ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِکار
مسکرانا تو اختیار میں ہے!
مرزا تنقید بیگ کو سکون سے بیٹھے ہوئے اچھی خاصی مدت ہوچکی ہے۔ اہلِ خانہ بھی حیران ہیں اور اہلِ محلہ بھی۔ کہاں تو وہ بات بات پر بارود کے ڈھیر کے مانند بھڑک اٹھنا‘ پھٹ پڑنا اور کہاں یہ کیفیت کہ ع
اپنی بلا سے بُوم بسے یا ہُما رہے
جو کچھ مرزا کہتے ہیں اُس سے تو لوگوں کو پریشانی لاحق رہتی ہی ہے‘ مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ خاموش رہتے ہیں تب لوگ زیادہ پریشانی محسوس کرتے ہیں! جب سے انہوں نے وزیر اعظم کے منہ سے خوشخبری کی بات سُنی ہے چُپ کا روزہ توڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مرزا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو تیل کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے کوئی بھی خوشخبری سُنانے کی ضرورت نہیں۔ مزید کون سا تیل نکالا جانا ہے‘ قوم کا تیل تو پہلے ہی نکالا جاچکا ہے۔ جس طور مشین کی مدد سے گنّے کا رس نکالا جاتا ہے بالکل اسی انداز سے قوم کے جسم سے خون اور سکت کا ایک ایک قطرہ نچوڑا جاچکا ہے۔ ع
کریدتے ہو جو اب راکھ‘ جستجو کیا ہے؟
کل مرزا سے ملاقات ہوئی تو ہم نے انہیں یاد دلایا کہ پاکستان کی ساحلی پٹی میں ایران کے پانیوں تک کم و بیش 6 ارب بیرل تیل موجود ہے۔ یہ بات کل پرسوں معلوم نہیں ہوئی بلکہ تین چار عشروں سے کہی جارہی ہے۔ اسے ریاستی مشینری کی نا اہلی کہیے یا مصلحت کا کمال کہ پاکستان نے اپنی سمندری حدود میں تیل کی تلاش پر کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اب اس طرف توجہ دی جارہی ہے تو قوم کے لیے خاصی خوش گوار حیرت کی گھڑی ہے۔
مرزا نے ہماری بات سُن کر کہا ''المیے تو اور بھی بہت ہیں مگر جنہیں نمایاں ترین کہیے اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ جو کچھ بھی ہم کرسکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پاتے۔ ایک زمانے سے معاملہ یہ ہے کہ کچھ ہماری کوتاہیوں اور کچھ غیروں کی مہربانی سے خرابیاں ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ پاکستان کی بنیادی بدنصیبی یہ ہے کہ جن معاملات میں فطری طور پر غیر معمولی صلاحیت و سکت موجود ہے انہیں بھی دبوچ کر رکھا گیا ہے۔ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر کرنے نہیں دیا جاتا۔ یہ عذرِ لنگ نہیں۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی خامیاں اور کوتاہیاں بھی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تو دیکھنا پڑے گا کہ ہمارے لیے کہاں‘ کتنی گنجائش رہنے دی جاتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جب جب ہم منظم و متحد ہوکر کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں تب بعض بیرونی قوتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ میدان میں آ جاتی ہیں۔ ویسے معمولی فرق سے یہ ایجنڈے کم و بیش ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں‘‘۔
ہم نے مرزا کے مقابل ''نکتۂ اعتراض‘‘ اُٹھانے کی جسارت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہر معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ ہمیں روکا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم خود رکے ہوئے ہیں۔ اپنے آپ کو ثابت کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ''اب تو عادت سی ہے ہم کو‘‘ کہ جب کچھ نہ ہو پائے تو دوسروں پر الزام دھر دیا جائے۔
ہماری بات سُن کر مرزا نے ہمیں اچھا خاصا گھورا۔ ایسے مواقع پر ہم ذہنی طور پر اسی حالت میں آجاتے ہیں جس حالت میں 100 میٹر کی دوڑ شروع ہوتے وقت سپرنٹرز بیٹھتے ہیں! مرزا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اختلافی نکات کو آسانی سے برداشت کر پاتے ہیں نہ ہضم۔ جہاں کسی نے ان کے موقف سے ہٹ کر کچھ کہا اور وہ آپے سے باہر ہوئے۔ ہماری بات سُن کر بھی وہ پل بھر میں بپھرتے سے دکھائی دیئے۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ مشتعل ہوئے بغیر بتائیے کہ ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں ہمیں کس نے پہنچایا ہے۔ ہمارے اعمال نے یا محض بیرونی سازشوں نے؟
مرزا نے ہماری گزارش قدرے تحمل سے سُنی۔ پھر (ہمیں حواس باختہ کرنے کے لیے اپنے حواس جمع کرتے ہوئے) خاصے مدلّل انداز سے اپنا ''موقف‘‘ بیان کرنا شروع کیا ''اپنی خامیاں اور کوتاہیاں تو خیر ہیں ہی۔ ان سے بھلا کون انکار کر رہا ہے؟ ایک زمانے سے ہم اپنے ہی ہاتھوں آلام و مصائب کا شکار ہیں۔ بیرونی سازشیں بھی خیر ہماری اپنی کوتاہیوں اور نا اہلی ہی کا نتیجہ ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے ہاں گیس فیلڈز موجود ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو ہوئی کہ جہاں گیس ہوگی وہاں تیل کا پایا جانا کم و بیش لازم ہے۔ معاملات گھوم پھر کر مصلحت کی چورنگی تک پہنچ جاتے ہیں۔ جو کچھ بہت پہلے کرلیا جانا چاہیے تھا وہ اب کیا جارہا ہے۔ یعنی بعد از خرابیٔ بسیار!‘‘ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ دیر آید درست آید۔ خزاؤں کا دور گزرا چاہتا ہے اور بہار کا کچھ سامان ہوا ہے تو جائے شکر ہے۔ ایسے میں گزری ہوئی باتوں کو یاد کرکے‘ دہراکر رنجیدہ ہوتے رہنے سے کیا حاصل؟ ؎
بھلا بھی دے جو کوئی بات ہوگئی پیارے
نئے چراغ جلا‘ رات ہوگئی پیارے
یہ وقت آگے دیکھنے کا ہے‘ مڑ کر اپنے ہی کیے کا جائزہ لینے اور دل جلانے کا نہیں۔
مرزا نے ہماری بات تحمل سے سُنی اور پھر اُسی تحمل سے گویا ہوئے ''نظر تو مستقبل ہی پر رہنی چاہیے مگر خیر‘ ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے تب کی کوتاہیوں کو دہرانے سے بچنے کی تحریک پانے میں کچھ ہرج نہیں۔ ارضِ پاک کو اللہ نے کون سی نعمت سے نہیں نوازا؟ ترقی کے لیے درکار تمام قدرتی وسائل یہاں وافر مقدار و تناسب سے پائے جاتے ہیں مگر اُن سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق نصیب نہیں ہو پائی۔ دنیا دیکھ کر ہنستی ہے کہ تمام مطلوب وسائل کے ہوتے ہوئے بھی یہ قوم پس ماندگی اور واماندگی کے گڑھے میں گری ہوئی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ افرادی قوت میں درکار جوش و جذبے کا گراف خاصا بلند ہے مگر پھر بھی ہم اپنی افرادی قوت کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہوسکے۔ یہ سب کھاتے میں رکھا جائے گا؟‘‘ مرزا کی باتوں میں دم ہے۔ بات گھوم پھر کر ڈیل کارینگی کے شاہکار جملے پر آتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہیں! جنہیں جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ انہوں نے نہیں کیا جس کا خمیازہ اب قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ تیل کے وسیع ذخائر کا دریافت ہونا قوم کے لیے نیک فال سہی مگر بے چاری قوم کا تیل تو پہلے ہی نکالا جاچکا ہے۔ اب صرف یہ دعا ہے کہ وسائل کی مد میں جو کچھ بھی دریافت ہو اُس کا حقیقی فائدہ بھی قوم کو پہنچے ؎
میں تو جب جانوں کہ بھردے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ مُغاں بنتا گیا