تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-03-2019

مہلت

کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہی ہو گا، وگرنہ وقت اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔ قدرت کا اصول ہے کہ وہ مہلت دیتی ہے مگر کوئی مہلت لا محدود نہیں ہوتی۔
عمران خان ٹھنڈے پڑ گئے اور شریف خاندان بھی۔ آئندہ چند دنوں میں شاید زرداری اینڈ کمپنی بھی۔ رہی اسٹیبلشمنٹ تو وہ بھی بے بسی کی ایک تصویر ہے۔ کسی کو کچھ سوجھ نہیں رہا۔ کسی میں ہمّت نہیں کہ اس سمت میں قدم بڑھائے، جس طرف بڑھنا چاہئے۔
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
وزیر اعظم کے عزائم یہ تھے کہ شریفوں اور زرداریوں کو جیل میں ٹھونس کر دم لیں گے۔ وہیں پڑے، وہ سڑتے رہیں گے۔ شریف آزاد ہیں اور ابھی تک زرداری بھی۔ ریاست کو بلیک میل کرنے کی ان کی صلاحیت باقی ہے۔ وہ اربوں، کھربوں ان کی جیبوں میں ہیں، اقتدار میں جو انہوں نے دیدہ دلیری سے حاصل کیے۔ جن میں سے بیشتر سمندر پار محفوظ ہیں۔ ایک کمپنی، اس کے اندر سے پھوٹنے والی دوسری، تیسری اور چوتھی کمپنی۔ سراغ لگانا مشکل نہیں، بعض صورتوں میں نا ممکن۔ کہنے کو آج کی دنیا ناجائز دولت کے لیے غیر محفوظ ہے۔ جن ممالک میں مگر یہ دولت پڑی ہے، واپسی کے لیے وہ ایک کمزور حکومت سے کیوں تعاون کریں۔ کشکول اٹھائے جو ایک کے بعد دوسرے دروازے پر دستک دیتی ہے۔
اب وزیر اعظم احتساب کا رزمیہ بہت دن شدّ و مد سے نہیں گا سکیں گے۔ اس لیے کہ خود ان کی صفوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ فیصلے صادر کرنے والوں نے حالیہ ملاقاتوں میں انہیں نصیحت بھی کی ہے۔ عام آدمی کو روٹی چاہئے اور ملک کا دفاع کرنے کیلئے روپیہ درکار ہے۔ کرنسی نوٹ چھاپتے چلے جانے، بینکوں سے قرض پہ قرض لینے اور غیر ملکیوں کے سامنے دستِ سوال دراز رکھنے سے، بحران مؤخر ہو سکتا ہے، تحلیل نہیں ہو سکتا۔
اس ناچیز ہی نے اطلاع دی تھی کہ ایک وفاقی وزیر اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ان کے سگے بھائی کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ نیب تحقیقات کر رہی ہے۔ چار عدد شوگر ملیں، چار تجارتی کمپنیاں اور ہر ماہ اوسطاً تین بار غیر ملکی سفر۔
شریف خاندان کے مخبر ہر کہیں موجود ہیں۔ افسر شاہی میں ان کے رازداں اب بھی کارفرما ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ وفاقی وزیر کے بارے میں ہوش ربا تفصیلات نیب کی فائلوں سے چرائی گئیں۔ تردید نہیں کی گئی؛ چنانچہ خلق ان پہ اعتبار کرے گی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نتیجہ کیا ہو گا۔ وزیر اعظم نے غلطی کی کہ انہیں اپنے ساتھ گوادر لے گئے۔
ہر ماہ تین بار یعنی دس پندرہ دن وہ بیرون ملک کیوں گزارا کرتے؟ کیا کسی کاروبار کی نگرانی کے لیے؟ نفع و نقصان کا گوشوارہ ملاحظہ کرنے کے لیے؟ اب اگر وہ سمندر پار کا قصد فرمائیں گے تو اخبارات اور ٹی وی کی سکرین نہ سہی، سوشل میڈیا پہ طوفان اٹھے گا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ان کا دفاع کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو پارٹی کی اصل طاقت ہیں۔ جس طرح کہ وہ عثمان بزدار اور نعیم الحق ایسے لوگوں کی حمایت سے گریزاں ہیں۔ جس کا مقدمہ کمزور ہو، ڈھنگ کا وکیل اسے نہیں ملا کرتا۔ بالآخر وہ ایک چٹیل میدان میں تنہا کھڑا رہ جاتا ہے۔ وہاں، جہاں سے کوئی راستہ نہیں پھوٹتا۔ آخر کار دھوپ اور دھند کی نذر ہو جاتا ہے۔
دور ایک صحرا ہے
جس میں کچھ بھی نہیں اگتا
ہوا اور موت کے سوا
جس میں کوئی چیز حرکت نہیں کرتی
میاں محمد نواز شریف بھی لندن کے آرزو مند ہیں۔ کیا اب انہیں اپنا زر ٹھکانے لگانے کی فکر لاحق ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے پہ ہر طرح کی آرا ہیں۔ ایک عجیب مباحثہ، جس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ہو۔ عدالت عظمیٰ پہ تنقید کیا روا ہے؟ ایک ایسے آدمی کو چند روز کی مہلت دینے میں کیا حرج ہے، دو بار جس کے دل کی جرّاحی کی گئی۔ جیل میں اگر اس کی حالت بگڑ جاتی؟ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جاتا؟
دعویٰ کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ موصوف نے کچھ نہ کچھ واپس کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ شاید دو تین ارب ڈالر۔ کچھ زیادہ یہ قابل فہم نہیں۔ اس طرح کے وعدے وفا نہیں ہوا کرتے۔ اپنے جرم کا اعلانیہ اعتراف وہ کر نہیں سکتے۔ خاندان کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مزید برآں سب کچھ اب ان کے ہاتھ میں نہیں۔ فرزندوں کے پاس ہے۔
سابق سفیر جمشید مارکر نے لکھا ہے کہ اس سے، ایک دن پہلے، جس روز شاہ نواز بھٹو نے فرانس میں خود کشی کی، ذوالفقار علی بھٹو کے پسماندگان، پیرس میں یکجا ہوئے۔ وراثت کی تقسیم پہ اختلاف ہوا، پھر تلخی اور تصادم۔
کہا جاتا ہے کہ شریف خاندان کی تیسری نسل میں بھی اختلافات ہیں۔ محترمہ کی شکایت ہے کہ زیادہ حصّہ ان کے بھائی لے گئے۔ ہل میٹل کے اسّی کروڑ روپے، ان کے کھاتے میں بھی منتقل ہوئے۔ اب وہ روپیہ کیوں واپس کریں گے؟ اب وہ برطانوی شہری ہیں اور ان کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے۔ لکشمی دیوی کی پوجا کرنے والوں کا شعار یہ ہوتا ہے کہ چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے۔ وسطی پنجاب میں شریف خاندان کی مقبولیت برقرار ہے۔ حالیہ الیکشن میں یہاں ان کی حمایت پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ تھی۔ 42 میں سے قومی اسمبلی کی 33 سیٹیں انہوں نے جیت لیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے صوبائی حکومت تشکیل دینے کی کوشش ہی نہ کی۔ نون لیگ میں زیادہ مقبول ان کے بھائی ہیں، مگر شہباز شریف ہوا کا رخ زیادہ پہچانتے ہیں۔ وہ عافیت کے زیادہ قائل ہیں۔ ہجوم کے ہمراہ لندن سے واپسی پر بڑے بھائی کا استقبال کرنے لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچنا تھا۔ راستے کھلے تھے، حامی بے تاب تھے۔ وہ کیوں نہ پہنچ سکے؟
زرداری خاندان کا حال اور بھی پتلا ہے۔ بلاول بھٹو کو اگر پنجاب میں محدود سی تائید کی امید بھی ہوتی تو سکھر نہیں، وہ لاہور یا راولپنڈی کا ارادہ کرتے۔ سینکڑوں ارب روپے کے درجنوں مشکوک کھاتے ہیں۔ مقدمات کی سماعت دراز کر کے، فائلوں سے کاغذات غائب کر کے وہ بچ جایا کرتے، مگر اب؟ اب بینکوں کے ریکارڈ میں تحریف تو ممکن نہیں۔ لندن، پیرس اور نیویارک کی جائیدادیں چیخ چیخ کر اپنے مالکان کے خلاف گواہی دیں گی۔ بہادری دکھانے کا، خطرہ مول لینے کا ارادہ تو کرتے ہیں، مگر مول نہیں لے سکتے۔ اپوزیشن کے اتحاد کا شور شرابا بہت ہے، مگر عملاً؟ سینیٹ میں ان کی اکثریت ہے، چیئرمین کو معزول کیوں نہیں کر دیتے؟ اخلاقی ہی نہیں، سیاسی بنیاد بھی کمزور ہے۔ ٹی وی چینلوں نے پیپلز پارٹی کی خواتین کو دکھایا، جو یہ کہہ رہی تھیں کہ دو ہزار روپے کا وعدہ کر کے صرف دو سو روپے دیئے گئے۔ اگر سندھ میں بھی بھاڑے کے کارکنوں کی ضرورت پڑی تو پنجاب میں کیا ہو گا؟
سول سروس ڈھے پڑی ہے۔ باتیں بناتی ہے، کام نہیں کرتی۔ افسر شاہی گھوڑے کی طرح ہوتی ہے، سوار کو پہچانتی ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ ناتجربہ کار لوگ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ جی ہاں، یہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا۔ اس میں عمران خان ایسے لیڈر کو بری شہرت کے حامل لوگوں سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ 
صدارتی نظام اور چھوٹے صوبوں کی تجویز کو محض اس لیے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس کی حامی ہے۔ وہ بھی اگرچہ مخمصے کا شکار ہے، قوّت عمل اور پہل کاری سے محروم۔ اللہ کا قانون اٹل ہے، کاٹنا وہی ہوتا ہے، جو بویا ہو۔
اب یہ کوئی مقیّد معاشرہ نہیں۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خاں، غازی محمد ضیاء الحق اور فخرِ ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان نہیں۔ اطلاعات اب خود رو ہیں، برسات کے سبزے کی طرح اگتی اور پھیلتی ہیں۔ لاکھوں نوجوان ہیں، جو سیاستدانوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ جو لالچ اور خوف کی زنجیروں میں قید نہیں۔ بحران ہمہ جہت ہے اور تبدیلی کی آرزو حقیقی۔
کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہی ہو گا، وگرنہ وقت اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔ قدرت کا اصول ہے کہ وہ مہلت دیتی ہے مگر کوئی مہلت لا محدود نہیں ہوتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved