کراچی بہت کم آنا ہوتا ہے۔ شاید چار سال بعد آیا ہوں۔ پچھلی دفعہ آیا تھا تو کراچی کو بہت گندہ دیکھ کر دل بہت خراب ہوا۔ اتنا خوبصورت شہر جو کتابوں میں نظر آتا تھا‘ کہیں کھو چکا تھا۔ قراۃ العین حیدر نے اپنے ناول ''آگ کا دریا‘‘ میں جس کراچی کے بارے پورا باب لکھا تھا اور جو پیش گوئیاں اس وقت کی تھیں وہ چند دہائیوں بعد پوری ہوگئی ہیں۔ 2002ء میںٹی وی کی ٹریننگ کے لیے ایک ‘آدھ ماہ ٹھہرا تھا تو شہر ابھی بہتر تھا‘ اگرچہ شہر میں اس وقت بھی دہشت کی بو سونگھی جاسکتی تھی۔ کراچی وہ بدنصیب شہر ٹھہرا جس نے ملک بھر کے غریبوں کو اپنی گود میں جگہ دی۔یہ ایک تکلیف دہ کہانی ہے کہ بعد میں اس شہر پر کیا ظلم ڈھائے گئے؛ تاہم کراچی اس دفعہ کچھ بہتر لگا۔ تجاوزات گرانے سے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ شہر کچھ کھلا کھلا لگا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے ائیرپورٹ سے نکلتے ہی گپ شپ کی کوشش کی۔ عموماً ٹیکسی ڈرائیورز باتونی ہوتے ہیں۔ کسی بھی شہر کے بارے میں پتا کرنا ہو تو ٹیکسی ڈرائیور سے بہتر اور کون سورس ہوسکتا ہے؟ تاہم ٹیکسی ڈرائیور عثمان بالکل باتوں کے موڈ میں نہ تھا۔ میں نے اسے کریدنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اسے فون آیا تو مجھے لگا شاید وہ سرائیکی ہے۔ میں نے کہا: آپ شکل سے گورے چٹے لگتے ہو‘ پٹھان ہو؟ وہ پہلی دفعہ مسکرایا اور بولا: آپ درست سمجھے‘ میں پٹھان ہی ہوں۔ اسے پھر فون آیا تو وہ ٹھیٹ سندھی بولنے لگا۔ میں حیرانی سے دیکھتا رہا۔ میں نے پوچھا: آپ کو سندھی بھی آتی ہے؟ وہ بولا: جی سائیں میں جیکب آباد میں پیدا ہوا تھا۔ باپ قبائلی علاقے سے آیا تھا‘ محسود قبیلے سے تعلق ہے۔ مجھے ایسے لوگ بہت اچھے لگتے ہیں جو دوسرے علاقوں میں جا کر آباد ہوں تو وہاں کی زبان سیکھتے اور ان میں گھل مل جاتے ہیں۔
خیر‘ کراچی آنے کی ایک اور بڑی وجہ اقبال دیوان سے ملاقات بھی تھی۔ اقبال دیوان میمن ہیں اور ان سے بیس برس کا تعلق ہے۔ ان سے پہلی ملاقات ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف میں جہاں کئی خامیاں تھیں وہیں خوبیاں بھی بہت تھیں۔ خامیاں یہ تھیں کہ وہ لوگوں پر اعتبار بہت کرتے تھے۔ اپنے افسران پر اعتبار کرتے اور دوستوں پر تو اندھا دھند کرتے اور ہر دفعہ انہی لوگوں نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ پھر بھی وہ مسکرا کر ان سب کے وار سہہ جاتے۔ میں کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں جب ایک ایک دوست یا افسر سے دو تین دفعہ دھوکہ کھایا اور شاید چوتھی دفعہ بھی کھاتے ‘لیکن جس افسر نے ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائی وہ اقبال دیوان تھے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو جب بھی فیڈرل سیکرٹری یا کوئی اور عہدہ ملا تو پہلا آرڈر یہی ہوتا کہ دیوان جی جہاں کہیں لگے ہوتے انہیں اپنی وزارت میں لے آتے۔ ڈاکٹر صاحب دشمنی اور دوستی میں بڑے کلیئر تھے۔ ان سے منافقت نہیں ہوتی تھی۔ اقبال دیوان سے ان کی دوستی تھی نہ دشمنی بلکہ وہ اقبال دیوان کے دیوانے تھے۔ اکثر اقبال دیوان کی باتیں کرتے۔ وہ ان کی سروس کے انداز اور لٹریری بیک گراؤنڈ سے متاثر تھے۔ کراچی سے جب بھی ڈاکٹر ظفر الطاف لوٹتے تو پرانی اور نایاب کتابوں سے لدے ہوتے تھے۔ میری آنکھوں میں چمک اور لالچ دیکھ کر کہتے: حضور آپ کو جان پیش کی جاسکتی ہے کتاب نہیں۔ مسکراتے اور اگلے دن کاپی کرا کے دیتے جو اصلی کتاب سے بھی بہتر ہوتی۔ وہ بڑے شوق سے مجھے بتاتے رہتے کہ کیسے اقبال دیوان جب کراچی میں ڈسڑکٹ مجسٹریٹ تھے تو انہوں نے ایک مارکیٹ کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے ہاتھوں بلڈوز ہونے سے بچا لیا تھا۔ وہ مارکیٹ کتابوں کی دکانوں پر مشتمل تھی۔ اقبال دیوان نے کمشنر کراچی سے ملاقات کی تھی اور انہیں اس اہم مارکیٹ کے بارے بتایا تھا۔ اقبال دیوان کا کہناتھا کہ یہ وہ مارکیٹ ہے جہاں دنیا بھر سے اہم کتابیں کنٹینروں میں آتی ہیں۔ ہانگ کانگ سے براہ راست نایاب اور اہم کتابیں یہاں لائی جاتی ہیں جن سے پورا شہر کیا پورا ملک فائدہ اٹھاتا ہے۔ کراچی سے اگر یہ مارکیٹ غائب کر دی گئی تو پورا ملک لٹریری دلوالیہ پن کا شکار ہوگا۔ اتنی اہم پرانی کتابیں اگر کراچی نہ آئیں تو کچھ نہیں رہے گا۔ کمشنر کراچی اچھے بندے تھے فوراً سمجھ گئے اور یوں اس اہم مارکیٹ کو گرانے کی اجازت نہ دی گئی۔ پرانی کتابوں کی دکانوں کے مالکان دیوان کے بڑے شکر گزار ہوئے۔ کراچی کا میمن افسر مسکرایا اور کہا: اس کام کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ مالکان درست سمجھے تھے کہ بندہ بڑا سرکاری افسر ہو اور اوپر سے میمن ہو تو وہ بھلا کب مفت کام کرے گا۔ اقبال دیوان ان دکانداروں کے چہروں پر پھیلی حیرت کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے: قیمت یہ ہے کہ جو بھی پرانی کتابوں کا کنٹینر وہ باہر سے لایا کریں گے اس کو کھولنے سے پہلے وہ انہیں بتائیں گے۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر ظفر الطاف کراچی آئیں گے اور وہ اس کنٹینر کی سب کتابوں کو بیٹھ کر تلاش کریں گے اور اپنی مرضی کی نایاب کتابیں لیں گے۔ صاف ظاہر ہے ان کتابوں کی قیمت انہیں ملے گی۔
دکانداروں کو آج تک ایسے سرکاری افسر نہیں ملے تھے جن کی پہلی شرط یہ ہو کہ ان کتابوں کے کنٹینرز پر پہلا حق ان کا ہو گا۔ اور یوں سلسلہ چل نکلا۔ جونہی کراچی سے اقبال دیوان کا فون آتا کہ سر جی کنٹینر آگیا ہے‘ ڈاکٹر ظفر الطاف فوراً جہاز کی ٹکٹ کٹوا کر اسی شام پہنچے ہوتے۔ پھر اقبال دیوان اور ڈاکٹر ظفر الطاف اس کنٹینر میں گھنٹوں گزارتے۔ کتابوں کے بندھے بنڈل کھولے جاتے اور ڈاکٹر صاحب ایک ایک کتاب ہاتھ میں لیتے۔ اس کا ٹائٹل اور نام دیکھ کر وہ اس کے بیک پیج پر جا کر اس کا پورا تعارف پڑھتے اور پھر فیصلہ کرتے کہ وہ کتاب لینی ہے یا نہیں۔ کئی کتابوں کا انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا تو وہ وہیں بیٹھ کر اس کا پورا تعارف پڑھتے۔ یوں وہ کتابوں کے ڈھیر میں کھوئے رہتے۔ جب گھنٹوں بعد وہ فارغ ہوتے تو سب سے پرانی اور نایاب کتابیں ان کے پاس ہوتیں۔ بچوں کی طرح وہ کتابیں لے کر خوش ہوتے‘ جیسے بچوں کو کھلونے مل گئے ہوں۔ پھر ان کتابوں کا بل بنتا اور وہیں ادائیگی کی جاتی۔ دکاندار وہ پیسے وصول کرتا اور کنٹینر کی باقی کتابیں لاد کر اس مارکیٹ میں اپنی دکانوں پر لے جاتا جسے اسی وجہ سے اقبال دیوان نے گرنے سے بچایا تھا کہ اگر وہ مارکیٹ نہ رہی تو جہاں کراچی کو بہت نقصان ہو گا وہیں ڈاکٹر ظفر الطاف کا کراچی سے تعلق بھی کمزور ہوگا لہٰذا کراچی سے ڈاکٹر ظفر الطاف کے تعلق کو بچائے رکھنے کے لیے وہ مارکیٹ بہت اہم تھی۔
مجھے یاد ہے جب ڈاکٹر صاحب کراچی ٹرپ سے اسلام آباد واپس آتے اور اگلے دن میری ان سے ملاقات ہوتی تو وہ سب نایاب کتابیں ان کی میز پر بکھری ہوتیں‘ جیسے کوئی بچہ اپنے کھلونے سامنے رکھ کر ان سے دل بہلا رہا ہو۔ میں کہتا: ڈاکٹر صاحب جب آپ نے یہ کتابیں مجھے پڑھنے کے لیے نہیں دینی تو پھر انہیں میرے سامنے رکھ کر کیوں چڑاتے ہیں؟ کیوں میرا دل دکھی کرتے ہیں؟ وہ بڑا سا قہقہہ لگاتے اور کہتے :شہر میں ایک تم ہی ہو جو ان کتابوں کی اہمیت کوسمجھتا ہو‘ سو تمہیں ہی چڑاتا ہوں۔ اگر میں کسی کتاب میں گہرا کھو جاتا تو کہتے: بھائی جان جاتے وقت کتاب یہیں چھوڑ جائیے گا۔ میں مایوس ہو کر کتاب چھوڑ جاتا تو اگلے دن خوبصورت فوٹو کاپی اصلی سے بھی بہتر شکل میں میرا انتظار کر رہی ہوتی۔
اقبال دیوان اب مجھے اسی مارکیٹ میں لے کر جارہے تھے‘ جہاں چار سال پہلے وہ آخری دفعہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو لے کر گئے تھے۔ میں چار سال بعد اب آرہا ہوں‘ اقبال دیوان نے اداسی سے مجھے دیکھا اور بتایا۔ جونہی وہ بڑی دیر پیدل چلنے کے بعد اس مارکیٹ کے اندر داخل ہوئے تو ان کو ایک بڑا جھٹکا لگا۔ میں حیران ہوا کہ دیوان مجھے کہاں لے آئے ‘جب کہ اقبال دیوان حیرانی سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ (جاری)