کئی سال پہلے کی بات ہے‘ گھوٹکی کے کچے، دریائے سندھ کے سیلابی مگر زرخیز علاقے کے سماجی حالات کا مطالعہ کرنا تھا۔ وہاں دیہات میں گھومنے پھرنے کا اتفاق ہوا۔ موسمِ بہار تھا، جیسا کہ آج کل۔ روایتی نصاب سے ہٹ کر میں معاشرے اور مقامی آبادیوں میں رہ کر طلبہ کی تدریس کرنا چاہتا تھا۔ میرا تعلق اُن اساتذہ سے ہے جو ٹیکسٹ بک کو سماجی حرکیات کے ساتھ ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کتابی نصاب کی صداقت، واقفیت اور حقیقت اگر معاشرتی حقیقتوں کا عکس نہیں تو وہ علم اور علمی مباحث کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہماری زیادہ تر نصابی کتب مغربی یا دیگر معاشروں کی تاریخ، ثقافت اور سیاست کے پسِ منظر میں لکھی گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سماج کو سماجی تھیوری کے حوالے سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے پسِ منظر اور حوالے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لہر کے پیشِ نظر مجھے یہ کورس ترک کرنا پڑا۔ لیکن مختصر عرصے میں جو کچھ سیکھنے کو ملا، وہ امریکی یونیورسٹیوں میں دس سالہ تعلیم، تدریس اور ریسرچ سے کم نہ تھا۔ سینکڑوں افراد سے انٹرویو، دیہاتوں میں دن رات رہ کر شہروں میں پلے ہوئے طالب علموں کو کتابی علم اور مفروضوں پر مبنی تھیوریز کو زمینی حقائق کی روشنی میں پرکھنے کا مفید موقع ملا۔
اس دوران کئی حقائق کا ادراک ہوا۔ کچھ واقعات شعور کا حصہ بن گئے، کچھ کا زخم دل پر لگا۔ ایک واقعہ جس کا ذکر کئی سال پہلے اپنے ایک انگریزی کے کالم میں کیا تھا، یہاں بیان کرنا چاہوں گا۔ جب کچے کے علاقوں، دریائے سندھ کے کناروں پر ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں کا ذکر اخباروں اور میڈیا میں ہوتا ہے تو میری نظر سندھ سے لے کر خیبر پختونخوا تک پکے کے علاقوں میں دندناتے سیاسی لٹیروں اور ڈاکوئوں پر پڑتی ہے۔ ملک میں ہر طرف انہی کا راج، انہی کی جماعتیں، انہی کے ممبران، انہی کے وکیل ہیں۔ بیرونی ممالک میں دولت کے انبار، محلات، جائیدادیں اور اثاثے‘ کوئی کسر چھوڑی ہو تو بتائیں۔ ایک طرف پکے علاقوں کے ڈاکو جو ملک کو لوٹ کر بھی سیاست اور معاشرے پر غالب، تو دوسری طرف کچے کے غریب الدیار ڈاکو جو ہمہ وقت پولیس کی گولیوں اور قیدوبند کے خطرے تلے زندگی گزارتے ہیں۔ جرم کی حمایت مقصود نہیں، منافقت کی نشاندہی کی ہے۔
کالم کا عنوان ایک واقعہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ ایک ڈاکو تھا‘ جس کے ہاتھ میں بندوق تو تھی لیکن کسی جماعت کا ٹکٹ نہیں۔ لاہور سے ایک پُرجوش نوجوان ایک سکول کی تعمیر کے سلسلے میں گھوٹکی کے علاقے میں، دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ایک گائوں میں جایا کرتا تھا۔ میری ملاقات اُس کے ساتھ وہیں ہوئی تھی۔ یہ ایک خیراتی سکول تھا، علاقے کا واحد سکول۔ ایک دن علاقے کے ایک بدنام ڈاکو نے اس نوجوان کو راستے میں پکڑ لیا۔ جب اُس نے اپنے شکار کو ذرا مختلف رنگ ڈھنگ کا دیکھا تو پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔ جب نوجوان نے بتایا کہ وہ یہاں ایک سکول تعمیر کر رہا ہے تاکہ اس پسماندہ علاقے کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں تو وہ ڈاکو، جو علاقے میں دہشت کی علامت تھا، اُس کے پائوں پڑ گیا۔ معافی مانگی اور التجا کی کہ ایک سکول اُس کے گائوں میں بھی تعمیر کیا جائے تاکہ اُس کا بیٹا تعلیم حاصل کرلے اور اُس کی طرح ڈاکو نہ بنے۔
یہ خواب کچے پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کا ہے۔ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، بامقصد ہنر سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ غربت اور پسماندگی کی دلدل سے باہر نکلیں۔ تعلیم اور ہنر معاشی کفالت کے ضامن بنیں۔ اُن کے خاندانوں میں خوشحالی آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ذہنی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ عملی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ اگر نہیں تیار تو حکومتی ادارے اور حکومت۔ عوام میں بیداری اور توقعات پیدا ہو چکیں۔ اب ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا ضروری ہے۔
سندھ اور بلوچستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کا باقی صوبوں کی نسبت حال بہت بُرا ہے، لیکن جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع، جیسا کہ راجن پور تعلیمی اور سماجی ترقی میں سندھ اور بلوچستان سے بھی پیچھے ہیں۔ ان علاقوں میں امیر ہیں یا غریب۔ قبائلی اور زمینداری نظام نے یہاں درمیانی طبقے کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ یہ طبقہ یہاں پیدا ہی نہیں ہو سکا۔ سرکاری سکولوں میں جعلی سندیں رکھنے والوں، سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والوں، ہزاروں گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ سکول۔ تعلیمی نظام اول تو موجود ہی نہیں۔ اگر ہے تو انتہائی ابتر حالت میں۔ ان علاقوں میں معاشی غربت اور فکری پسماندگی کی ایسی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ صرف تعلیم ہی یہاں کے باسیوں کو وڈیروں کی غلامی سے نجات دلا سکتی تھی۔
پنجاب میں وسیع تعلیمی نیٹ ورک موجود ہے۔ ہر حکومت نے اس میں اضافہ کیا، اساتذہ بھرتی کیے، سہولیات فراہم کیں۔ یہاں سکول جانے والوں کا تناسب دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ لیکن تعلیمی معیار ایسا نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ والدین اور بچوں کی پہلی ترجیح سرکاری سکول، کالج اور یونیورسٹی ہے۔ تبدیلی کا معیار یہ ہوگا تو کتنے فیصد بچے پرائیویٹ اداروں کو چھوڑ کر سرکاری اداروں میں داخلہ لیں گے؟ عملی صورتحال یہ ہے کہ لوگ معیاری تعلیم کی خواہش میں اپنا سرمایہ نجی تعلیم اداروں پر لگا رہے ہیں حالانکہ یہ ریاست کی بنیادی اور آئینی ذمہ داری ہے، لیکن گزشتہ حکومتوں نے یہ ذمہ داری نہیں نبھائی۔ دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے لگا کر اقتدار میں آنے والی حکومت تعلیم کے میدان میں کیسی کارکردگی دکھاتی ہے۔
اگرچہ میں خود گزشتہ سترہ برس سے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں درس و تدریس کی ذمہ داری نبھا رہا ہوں، لیکن پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ قوموں اور ملکوں کی تقدیر نجی نہیں، سرکاری تعلیمی ادارے ہی بدل سکتے ہیں۔ ترقی پذیر یا ترقی یافتہ اقوام، چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، کی ترقی کا راز سرکاری تعلیمی اداروں کی تعمیر، گورننس، مالیاتی امانت اور سیاسی توجہ میں مضمر ہے۔ پاکستان میں تعلیمی پالیسیاں بنتی رہی ہیں، ادارے تعمیر ہوتے رہے ہیں، لیکن قیادت، وژن اور حکومتی نظام بوجوہ تعلیم کے ساتھ مقصدیت کو جوڑنے میں ناکام رہے۔ ہمارے پاس سینکڑوں جامعات، ہزاروں کالج اور لاکھوں سکول ہیں، لیکن قوم تعلیم یافتہ کیوں نہیں بن رہی؟ اساتذہ میں تدریس کی لگن، اداروں میں تنظیمی نکھار، افسران میں انتظامی ہنر کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ جن سرکاری اداروں کو کوئی اچھا لیڈر مل گیا، اُنھوں نے انفرادی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن ایسی مثالیں خال خال ہیں۔
تحریکِ انصاف نے اپنے منشور، اس سے پہلے اپنی بیس سالہ جدوجہد کے دوران ماحولیات اور تعلیم کو خصوصی اہمیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ایک فلاحی ریاست کا قیام، غربت کا خاتمہ، معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ان کے پروگرام میں شامل تھا۔ اگر وہ اب ایسا کر پائے تو پاکستان واقعی بدل جائے گا۔ میرے نزدیک تبدیلی کی راہ میں دو بنیادی مسائل کا سامنا ہے ۔ پہلا مسئلہ ترجیحات کا تعین ہے۔ تمام اصلاحات نہ تو بیک وقت شروع ہو سکتی ہیں، نہ ہی تمام کے نتائج یکساں اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ لیڈرشپ کا سب سے بڑا امتحان ان ترجیحات کو حقائق اور ان کے نتائج کے حوالے سے مرتب کرنا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ جدیدیت اور ترقی کا نقطۂ آغاز سرکاری تعلیم سے ہی وابستہ ہے۔
پاکستان کے پاس انسانی وسائل موجود ہیں۔ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ان افراد کو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بنایا جائے تو معاشی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ ورلڈبینک کی ایک حالیہ رپورٹ ''پاکستان ایک صدی کے دہانے پر‘‘ اس بات کا اظہار کرچکی ہے۔ دوسرا مسئلہ ہمارے حکمران طبقے کی معاشی، سیاسی، فکری اور سماجی اجارہ داری ہے۔ یہ چھوٹا سا لیکن طاقتورطبقہ اپنے لیے الگ رہائشی منصوبوں، شفاخانوں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور کلبوں کا عادی ہوچکا ہے۔ درحقیقت یہ ''اقلیت‘‘ ملک کی سماجی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسے سماجی، قانونی، معاشی اور علمی مساوات سے نفرت ہے۔ یہ چاہتے ہیںکہ ان کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے، عوام ان کی گاڑیوں کے اردگرد بھنگڑے ڈالتے رہیں، ان کا غلبہ جاری رہے۔ یہ غریب افراد کی ترقی کیوں چاہیں گے؟
ترقی کے لیے اس طبقاتی فرق کو ختم کرنا، ہر بچے کو بامقصد تعلیم اوربہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے۔ معاشی کشکول اُس وقت ٹوٹے گا جب سماجی خول، فکری زنجیر اور بے مقصد تعلیم کے بت ٹوٹیں گے۔ یہی کچے کے علاقے کے ایک ڈاکو کا خواب تھاکہ اُس کے بیٹے کے ہاتھ میں بندوق نہیں، کتاب ہو۔