عوام اور اپنے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہونے دوں گا:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپنے اور عوام کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہونے دوں گا‘‘ اوّل تو کوئی چیز ہمارے اور عوام کے درمیان حائل ہونے کی کوشش ہی نہیں کرے گی‘ کیونکہ وہ اپنی عافیت اسی میں سمجھے گی کہ جس قدر بھی ہو سکے ہم سے دُور ہی رہے‘ تاکہ عوام بھی محفوظ رہیں اور ہم بھی‘ جبکہ ہمارا محفوظ رہنا عوام سے بھی زیادہ ضروری ہے‘ کیونکہ عوام اپنے نفع و نقصان کو خوب سمجھتے ہیں‘ جبکہ ہمارا نفع نقصان ویسے ہی ایک برابر ہے‘ کیونکہ جسے ہم نفع سمجھتے ہیں‘ بالآخر وہ نقصان نکلتا ہے اور جسے نقصان سمجھتے ہیں ‘وہ تو ہوتا ہی نقصان ہے اور جس کا مطلب ہے کہ ہماری سمجھ کم از کم پچاس فیصد تو درست ہے اور اُمید ہے کہ باقی پچاس فیصد بھی اپنے آپ ہی ٹھیک ہو جائے گی ۔ آپ اگلے روز ٹھوکر نیاز بیگ میں شیلٹر ہوم میں مکینوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔
عمران حکومت کی اِن ہاؤس تبدیلی 5منٹ کی مار ہے: رانا تنویر حسین
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''عمران حکومت کی اِن ہاؤس تبدیلی 5منٹ کی مار ہے‘‘ لیکن حالات؛ چونکہ نہایت نازک مراحل میں ہیں‘ اور‘ پلی بارگین کے معاملات طے ہو رہے ہیں ‘جس میں رخنہ اندازی کوئی دانش مندانہ اقدام نہیں ہوگا ‘اس لیے ہمارے قائد اور مریم نواز سمیت سب نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے‘ کیونکہ جوشیلی باتوں سے ہم اپنا کام خراب نہیں کرنا چاہتے جو بڑی مشکلوں سے سیدھا ہونے جا رہا ہے ‘جبکہ پلی بارگین کی صورت میں ہمیں کسی کا احسان اُٹھانے کی بھی ضرورت نہیں اور اُمید ہے کہ 5ارب پر معاملہ طے ہو جائے گا ‘جو اپنی نیک کمائی میں سے نکال کر دینا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں‘ جہاں آپ جو جی چاہے کرتے رہیں اور خالہ کے ساتھ ساتھ خالُو کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو‘ اس لیے نواز شریف کی صحت کے ساتھ ساتھ یہ مرحلہ بھی بااحسن و خوبی طے ہو جانے کی دُعائیں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
وفاقی حکومت مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں: مراد علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وفاقی حکومت مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے‘‘ اگرچہ یہ مسائل ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں‘ جبکہ ہم کچھ رقومات باہر بھجوانے میں بیحد مصروف رہے ہیں اور یہ رقومات؛ چونکہ غلط ذرائع سے حاصل ہوئی تھیں اور ہم چونکہ غلط اور ناجائز پیسے کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے‘ اس لیے اسے دفع دفعان کرنا بیحد ضروری تھا؛ البتہ وفاقی حکومت ہمارا پوچھل اُٹھوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے‘ جو کہ ساری کی ساری انتقامی کارروائی ہے‘ جس کا بروزِ حشر حساب دینا پڑے گا ‘جبکہ ہم الگ سے حساب دینے والوں میں شامل ہوں گے‘ اس لیے حکومت کو یہ تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں‘ کیونکہ ان معاملات کا حساب تو ہم اللہ میاں کو دیں گے اور جیسا کہ ایک مقدمہ دوسری بار نہیں چلایا جا سکتا‘ اسی لیے ایک حساب دوبارہ بھی نہیں لیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز حکومت کے روّیہ کے خلاف وزیراعظم کو خط لکھ رہے تھے۔
اسلام آباد کا رُخ کیا تو حکمرانوں کو اندازہ ہو جائے گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد کا رُخ کیا تو حکمرانوں کو اندازہ ہو جائے گا‘‘ جیساکہ ماضی میں جب خاکسار اسلام آباد کا رُخ کرتا تھا‘ تو نواز شریف کو فوراً اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ کس مقصد کے لیے ہے اور آن کی آن میں وہ مقصد پورا بھی ہو جایا کرتا تھا‘ تاہم موجودہ حکمرانوں میں اتنی عقل ہی نہیں کہ وہ کسی بات کا اندازہ لگا سکیں‘ کچھ دینا دلانا تو بہت دُور کی بات ہے‘ بلکہ اُنہیں تو کسی نزدیک کی بات کا بھی اندازہ نہیں ہو سکتا؛حالانکہ ساری دُنیا جانتی ہے کہ خاکسار کے مسائل بیحد معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور جن کا حل کرنا چٹکیوں کی بات ہے‘ لیکن ان کی کھال اتنی موٹی ہے کہ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا‘ اس لیے میرا خیال ہے کہ لانگ مارچ پر نئے سرے سے غور کرنا پڑے گا‘ جو کہ پہلے اسی اُمید میں ملتوی کیا گیا تھا کہ شاید حکمران عقل کے ناخن لے ہی لیں۔آپ اگلے روز پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
رات ٹکڑوں میں بٹی‘ خواب پریشان مرا
اور‘ میری ہی طرح شہر ہے سنسان مرا
میرے اندر تو اُجاڑ ایک زمیں تھی ہی‘ مگر
میرے باہر بھی تھا ہر سمت بیابان مرا
جاتے جاتے ہی ٹھہر جائے گی رستے میں یہ شام
آتے آتے ہی پلٹ جائے گا طوفان مرا
پھول میں توڑنے کا یہ جو روا دار نہیں
خالی خالی ہی پڑا رہتا ہے گلدان مرا
عشق دل میں نہیں‘ سر پر ہے کوئی بوجھ مرے
یہ گراؤں گا تو ہو گا سفر آسان مرا
مطمئن پھرتا ہوں اور فکر نہیں کوئی مجھے
کچھ دنوں سے جو سلامت نہیں ایمان مرا
پھاڑتا ہوں نہ اِسے چھوڑتا ہوں میں‘ ورنہ
اپنے ہاتھوں ہی میں رہتا ہے گریبان مرا
کوئی آیا نہ گیا‘ مدتیں ہو گئیں لیکن
کسی خوشبو سے بھرا رہتا ہے دالان مرا
کیا سفر تھا کہ روانہ ہوا میں جس پہ‘ ظفرؔ
اور گھر میں ہی پڑا رہ گیا سامان مرا
آج کا مطلع
فرضی بھی نہیں اور خیالی بھی نہیں ہے
وہ شکل کبھی بھولنے والی بھی نہیں ہے