تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     31-03-2019

سیاسی جھگڑے کیوں ہوتے ہیں ؟

بعض اوقات آپ عام لوگوں کو سیاست پہ بحث کرتا دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے ۔
کئی دفعہ ایسے لوگوں کو دیکھا ‘ جن کے اپنے حالات دگرگوں تھے ‘ کسمپرسی کا عالم تھا‘ لیکن جہاں ملکی سیاست پر کسی نے ان کے نظریات کے خلاف بات کی‘ وہیں تلخی شروع؛ حالانکہ اصولاً ان کی مکمل توجہ survivalپر مرکوز ہونی چاہئے تھی ۔
ایک دفعہ نانبائی کی دکان پر دوبندوں کو دیکھا۔ دونوں مزدور پیشہ دکھائی دیتے تھے۔لباس اور حلیے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزر رہے تھے ۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے تھے؟ ان میں سے ایک مسلسل وزیر اعظم عمران خان پہ طنز کر رہا تھا اور دوسرا نواز شریف پر۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کا کچھ نہیں چھوڑا ۔ دونوں پوری طرح چوکس تھے اور اپنے اپنے دماغ کا بھرپور استعمال کر رہے تھے ۔ ایک دوسرے کے لیڈر کو یہودی نواز اورنا کام شادیوں کا طعنہ دے رہا تھا تو دوسرا اس کے لیڈر کو مودی کا یار کہہ رہا تھا۔طنز کرتے کرتے وہ دونوں چلے تو گئے‘ لیکن صاف ظاہر تھا کہ دونوں کا ساتھ مستقل اور یہ جنگ دائمی تھی ۔ صاف ظاہر تھا کہ نواز شریف اور وزیر اعظم کے اقتدار سے انہیں کوئی بھی ذاتی فائدہ پہنچنے والا نہیں تھا ‘بلکہ ایک ساتھ کام کرنے کی وجہ سے؛ اگر وہ آپس کے تعلقات کو خوشگوار رکھتے‘ تو زیادہ بہتر تھا۔ 
یہ صرف ان دوکی کہانی نہیں ۔خون کے رشتوں میں سیاست کی وجہ سے تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی میں نوک جھونک ہوجاتی ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہر شخص سیاست میں اس قدر دلچسپی کیوں رکھتاہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں حبِ وطن کی جبلت بہت طاقتور رکھی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ جیسے ہی کسی بات پر اختلاف شروع ہوتاہے ‘تو پھر انسان کی پوری انا جو کہ انتہائی خوفناک قوت کی مالک ہوتی ہے ‘ وہ بیدار ہو کے دشمن پہ حملہ آور ہوجاتی ہے ۔ جب ایک بار یہ جنگ شروع ہو جائے‘ تو نفس کو پھر صرف اتنا ہی یاد رہ جاتاہے کہ اختلاف کرنے والے کو نیچا دکھانا ہے۔ لڑائی شروع بے شک دس روپے سے ہی ہوئی ہو ‘ وہ تو اسے یاد بھی نہیں ہوتا۔ 
ایک دفعہ ایک دوست کہنے لگا کہ فلاں سکول سسٹم اچھا نہیں ۔ وہاں بچّوں کو دین سے دور کر دیتے ہیں ۔ میں نے کہا:اس لحا ظ سے بہت اچھا ہے کہ وہاں بچّوں کو دماغ استعمال کرنا توسکھاتے ہیں ‘انہیں لکیر کا فقیر نہیں بنایا جاتا۔ بس پھر کیا تھا‘ ایک گرما گرم بحث شروع ہو گئی ۔ میں اس سکول سسٹم کی حمایت میں دلائل دے رہا تھا اور میرا دوست اس کی مخالفت میں ۔ بعد میں ‘ مجھے خود بھی کافی حیرت ہوئی کہ میں خواہ مخواہ اس سکول کا مقدمہ کیوں لڑ رہا تھا ‘ جبکہ میرا اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں تھا؛اگر میرے خیال میں وہ سکول اچھا تھا تو بھی اپنے دوست کو میں کیوں اس پہ قائل کرنا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں یہ رجحان خدا نے رکھا ہے کہ وہ دوسرے کو بتانا چاہتاہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ جو میں سوچ رہا ہوں‘ وہ ٹھیک ہے ۔ میں ٹھیک سوچتا ہوں ‘ ٹھیک کرتا ہوں ۔ میں کامیاب ہوں ۔ میں مزے میں ہوں ۔ میں روحانی طور پر مضبوط ہوں ۔ 
دو بھائی الیکشن کے دن گھر سے نکلیں ۔ ایک نون لیگ کو ووٹ دے آیا اور دوسرا تحریکِ انصاف کو ۔ دونوں واپس گھر آئے ۔ شام کو نتائج سامنے آئے ۔ ہارنے والا جیتنے والے کو مبارک باد دے ‘ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔ وہ لڑتے جھگڑتے گھر سے نکلیں گے ۔ دونوں ایک دوسرے پہ طنز کرتے رہیں گے ۔ ہارنے والا پھر اس انتظار میں ہوگا کہ نئی حکومت سے کوئی غلطی ہو تو جیتنے والے پہ طنز کر سکوں ۔ 
آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان کی فین فالوئنگ زیادہ ہے ۔ نواز شریف کا مقدمہ لڑنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہیں ‘ جو جدی پشتی لیگی ہیں ۔ جو اپنے باپ دادا کے زیادہ قریب ہیں ۔ عام لوگوں میں وزیر اعظم عمران خان کی پذیرائی نواز شریف کی نسبت کہیں زیادہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ نفس سٹائل کو پسند کرتاہے ‘ تیزی و طرّاری کو پسند کرتاہے ‘ کارنامے سر انجام دینے والے کو پسند کرتاہے ۔
نواز شریف کے سر پہ اگر جنرل ضیاء الحق کا ہاتھ نہ ہوتا تو بھٹو انہیں سیاسی طور پر پیدا ہونے سے پہلے ہی دفن کر دیتا ۔ آپ طیب اردوان کو دیکھیں کہ فوج مارشل لا لگانے کی کوشش کرتی ہے تو لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں ؛حالانکہ طیب اردوان کا خاندان کرپشن بھی کرتا رہا ہے۔ نواز شریف کے لیے لوگ کبھی بھی نہیں لیٹیں گے ۔ نواز شریف کی زیادہ سے زیادہ مقبولیت اس وقت تھی‘ جب پرویز مشرف اپنے آٹھ سالہ طویل اقتدار کی وجہ سے نا مقبول ہو چکاتھا اور پرویز مشرف سے ڈیل کی وجہ سے بے نظیر بھٹو بھی نا مقبول تھیں ۔ اس وقت جلاوطنی اور مظلومیت کی وجہ سے نواز شریف مقبول ہوئے‘ لیکن جیسے ہی انہیں ملک واپس آکر حکومت کرنے کا موقع ملا‘ یہ مقبولیت بہت تیزی سے تحلیل ہوگئی ۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا کہ نفس کو سٹائل پسند ہے ۔ اس قدر پسند کہ یہ اپنے سے زیادہ تیز طرار شخص کو دیکھتاہے تو اس کے سامنے بچھ جاتاہے ۔یہ جب کسی شخص سے ملتاہے تو اس کے حلیے کا جائزہ لیتاہے ؛ اگر وہ اسے اپنے سے سادہ نظر آئے تو نفس اس بندے کو دبانے کی کوشش کرتاہے ‘پھر یہ اس شخص کو ایک نمبر دیتاہے ‘ اس کی شکل اور عقل کی بنیاد پر۔ میں بے شک نہیں جانتا کہ یہ نمبر کیا ہے‘ لیکن میرے نفس کو اور میرے دماغ کو پتا ہے اور اسی کی بنیاد پر یہ اس بندے کو اہمیت دیتاہے ۔ 
دوسری طرف؛ اگر اسے سادہ لوح بندہ نظر آئے تو یہ لازماً اس پہ حملہ کر کے اس کی بے عزتی سے لطف اندوز ہونے کا رجحان رکھتا ہے ۔نفس کو سٹائل اس قدر پسند ہے کہ اسے اس بات سے سخت شرمندگی ہوتی ہے کہ اس کا لیڈر امریکی صدر کے سامنے پرچی سے دیکھ کر اٹک اٹک کر پڑھ رہا ہو ۔ اسے تو سٹائل والا لیڈر چاہیے ‘ جو دوسرے لیڈروں کے سامنے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بات کرے۔
تو ایک طرف تو حبِ وطن کی جبلت ‘ دوسری طرف دوسروں سے زیادہ بہادراور سٹائل والا لیڈر ۔ اب دو Dimensionsاکٹھی ہو گئیں۔ حبِ جاہ کی یہ جبلت اس قدر طاقتور ہے کہ انسان اپنے لیڈر کے تمام ترقصور معاف کردیتا ہے؛ اگراس کے خیال میں اس کے لیڈر کے برسر اقتدار آنے سے ملکی مسائل حل ہو سکیں تو ۔ جو دو dimensionsبیا ن کی ہیں ‘ اس کے علاوہ ایک تیسری بھی ہے ۔ وہ یہ کہ جب مخالف لیڈر آپ کے خیال میں ملک کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا ہو تو پھر اس سے نفرت کی یہ تیسری Dimensionبھی جمع ہو گئی ۔ اب آپ تیار ہیں ‘ اپنے پسندیدہ لیڈر کے گن گانے اور اس کے مخالف کی ٹانگ کھینچنے کے لیے ؛حالانکہ اس کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
آپ جائیں ناں پولنگ کے دن اور اپنے پسندیدہ لیڈر کو ووٹ دے آئیں ‘لیکن اس کی حمایت میں اپنے والدین‘ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں سے جھگڑنے کا کیا فائدہ ہے ؟ کرنا تو ہر بندے نے وہی ہے ‘ جو اسے ٹھیک لگتا ہے ...!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved