تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-04-2019

باقی تفصیلات ہیں

وزیراعظم سمیت ہم سب کو ‘سب سے زیادہ ضرورت خود احتسابی کی ہے۔ باقی تفصیلات ہیں۔
جیسا کہ ایک دوست نے ایک انگریزی اخبار میں لکھّا: یہ ترجیحات کے تعین کا سوال ہے۔ اگر آپ جانتے ہیںکہ سب سے اہم چیز کیا ہے۔ کس طرح اس پہ عمل پیراہوناہے تو کامیابی کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ اگر آپ نہیں جانتے اور آپ کا ذہن الجھا رہتا ہے تو منزل مراد کیاسوال‘ آغازِ کار بھی نہیں ہوتا۔ ایک دائرے میں آپ گھومتے رہتے ہیں۔ ناکامی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ حالات کو کوستے اور جواز گھڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ جہاں تک حکمرانوں اور لیڈروں کا تعلق ہے‘ ان کے لیے یہ اور بھی سہل ہے۔ اس لئے کہ خود انہیں بہانے گھڑنے کی زحمت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ تمیز ِ بندہ و آقا کے اس معاشرے میں بہت سہولت سے درباری میسر آتے ہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ یہ سرپرستی کا سماج ہے۔ انحصار کرنے اور رعایت کے طلب گاروں کا۔ سفارش اور آسودگی کے متلاشیوں کا۔ طاقت کی تمنا رکھنے والے‘ جن میں اپنا کوئی جوہر نہیں ہوتا۔ خوف اور احساسِ کمتری کے مارے ہوئے کہ سر سے پائوں تک یہ ایک جاگیردارانہ سر زمین ہے۔
سوال یہ ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات کیوں طے نہیں کر پاتا؟ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے‘ خود فریبی اور فرار کی نفسیات۔ جو دعویٰ آپ نے داغ دیا‘ جو ذمہ داری آپ نے قبول کی‘ خود کو اس کا آپ اہل نہیں پاتے۔ رنج کا شکار ہو کر اب آپ قربانی کے بکرے تلاش کرتے ہیں۔ بو العجبی یہ ہے کہ در حقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ یہ محض گریز اور فرار کی ذہنیت ہے‘ پوری صلاحیت جو بروئے کار نہیں آنے دیتی۔
سہل کوشی فقط جسمانی نہیں‘ ذہنی اور نفسیاتی بھی ہوا کرتی ہے‘ بلکہ بیشتر ذہنی اور نفسیاتی ہی۔ انسانی ذہن ایک ایسی چیز ہے‘ جو برتنے سے بڑھتا ہے۔ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور امریکہ سمیت دنیا کی بعض بڑی یونیورسٹیوں میں‘ ماضی قریب میں کچھ تجربات ہوئے‘ تعلیم کے میدان میں۔ فلکیات یا طبعیات کی ڈگری رکھنے والا ایک طالب علم‘ قانون یا طب میں تعلیم پانے کی تمنّا رکھتا ہے۔کیاوہ کامیاب ہو سکے گا؟ حیرت انگیز طور پر‘ جواب اثبات میں ہے۔ تجربات نے منکشف کیا کہ دماغ کے نئے سیل کام کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسے طلبہ دوسروں کو پچھاڑ دیتے ہیں۔ بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
بہت دن ہوتے ہیں‘ واشنگٹن نامی امریکی سائنس دان کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس مطالعے کی ایک دھندلی سی یاد باقی ہے۔ معمولی تعلیم رکھنے والے اس سیاہ فام نے بہت سے باغوں اور بستیوں کو اجڑنے سے بچایا۔ نئی ادویات اس نے بنائیں اور بے شمار کسانوں کو دلدل سے نکالا‘ جس میں وہ دھنستے جا رہے تھے۔ ابرہام لنکن زیادہ بڑی مثال ہے‘ جو امریکی تاریخ میں حسنِ کردار کا ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ درسی تعلیم برائے نام تھی۔ اخلاقی احساس سے مستحکم‘ غور و فکر کا خوگر ‘مانگ مانگ کر کتابیں پڑھتا رہا۔ اس نے ٹھوکریں کھائیں۔ ایک کے بعد دوسری ناکامی سے دو چار ہوا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ پارٹی نے ٹکٹ دینے سے انکار کیا۔ مگر اس نے مایوسی کا شکار ہونے سے انکار کر دیا۔ عمران خان کی انقلاب برپا کرنے کی آرزو مند حکومت کا بنیادی مسئلہ شاید یہ نہیں کہ مطلوبہ صلاحیت سے وہ بہرہ ور نہیں۔ بنیادی المیہ غالباً یہ ہے کہ وہ دماغ سوزی کرنے‘ اپنی غلطیوں پر غور کرنے اور ترجیحات طے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
پچھلے دنوں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے تاریخ ساز رہنما میلکم ایکس کی خود نوشت پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ قاری کو اس نے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کتاب ایلکس ہیلے کی مدد سے رقم ہوئی‘ جو ایک اور حیران کن تصنیف Roots کا خالق ہے۔ میلکم ایکس کی ابتدائی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے‘ آدمی جھجک کا شکار ہو جاتا ہے۔ چوری چکاری اور منشیات فروشی وہ جرائم ہیں‘ جن میں اس کی جوانی کھپ گئی۔ عملاً وہ اس سے کہیں بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا‘ جن کا حوالہ دیتے قلم تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے‘ موزوں الفاظ نہیں پاتا۔
اپنی انا کی پوجا کرنے والا ایک بے حد ضدّی لڑکا‘ جس کے باپ کو انتہا پسند گوروں نے قتل کر ڈالا تھا‘ جذبۂ انتقام کا شکار۔ معاشرے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ‘ خود سے بھی بدلہ لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ صحت برباد‘ جیل میں پڑا‘ جلتا اور کڑھتا ہوا آدمی‘ جس کے سینے میں کوئی امید اور جس کے سامنے کوئی منزل نہ تھی۔ خیال نہیں‘ اسے یقین تھا کہ آخر کار اسے قتل ہونا ہے۔ بہت سی دشمنیاں اس نے پال رکھی ہیں‘ یا پھر کسی کو قتل کر کے قانون کی نذر ہو جانا ہے۔
اتفاق سے عالیجاہ محمد کے ایک مبلغ سے اس کی ملاقات ہوئی‘ بیزار آدمی نے اوّل اوّل اسے گھاس نہ ڈالی مگر بالآخر مائل ہوا اور ایمان لے آیا۔ اس آدمی پر جو اسلام کا نام لیتا مگر خود کو پیغمبر کے درجے پر‘ فائز کر رکھا تھا۔
ایک عشرے سے زیادہ عرصہ اس نے کالے مسلمانوں کی اس تحریک میں بتا دیا۔ ایک ایک قدم طے کرتے ہوئے‘ وہ عالیجاہ کا نائب بنا۔ اپنے عصرکا اہم ترین خطیب۔ پھر عالیجاہ کی زندگی کے خفیہ ‘ گھنائونے پہلوئوں کا انکشاف ہوا۔ ابتدا میںخود کو وہ دھوکہ دیتا رہا‘ مگر بالآخر سچائی کا سامنا کرنے کا لمحہ آ پہنچا۔ لیڈر کو معلوم تھا کہ دلیل کے سوا میلکم کسی چیز سے قائل ہونے والا نہیں۔ گناہ کی زندگی ترک کرنے کے بعد دیانت اور صداقت اس کا شعار تھا۔ خود احتسابی کے کڑے مرحلوں سے گزر کر وہ صیقل ہو چکا تھا۔ میلکم کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔
سنگین الزامات اس پر لگائے گئے‘پھر جیسا کہ ان کا طریق تھا۔ آخر کار اس کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا۔ جو نئی زندگی برسوں کی ریاضت سے جواں سال آدمی نے ڈھالی تھی‘ آناً فاناً اس سے چھین لی گئی۔ جو بستی اس کی امنگوں نے بسائی تھی‘ اب ایک صحرا تھی‘ دور دور تک جس میں زندگی کا نشان نہ تھا۔ اب اس کا کوئی دوست تھا ‘سانجھی نہ ساتھی۔
وسیع و عریض کائنات میں یک و تنہا‘ جہاں کبھی اس سے آٹوگراف لینے والوں کے جمگھٹے ہوتے‘ اس کی ایک جھلک دیکھنے والوں کے۔ اس سے ملاقات کرنے اور اس کا خطاب سننے والے دور دور سے آیا کرتے۔
کوئی اور ہوتا تو ڈھے پڑتا‘ مگر اسے اپنے مالک پر یقین تھا۔ امید کی چنگاری اس کے باطن میں بجھی نہیں۔ اپنی بڑی بہن سے قرض لے کر اس نے مکّہ کا قصد کیا کہ حج کا فریضہ ادا کرے۔ شک و شبہ کے ابتدائی ایام کے بعد شہزادہ فیصل سمیت‘ یہاں اس کی ملاقات ان مسلمانوں سے ہوئی‘ جن کا علم وسیع تھا۔ حسنِ اخلاق سے آراستہ‘ اللہ کے کشادہ دل بندے۔
گورا ‘امریکہ اور ریاکار عالیجاہ اس کی تاب نہ لا سکتے تھے۔ میلکم ایکس آخر کار قتل ہی ہوا‘ مگر مقتول نہیں شہید۔ میلکم ایکس نہیں‘ الحاج ملک الشہباز۔میلکم ایکس کی ترجیح صداقت کی تلاش تھی‘ پھر اس کے لیے بے ریا ایثار اور ریاضت۔ تاریخ کی بارگاہ میں وہ سرخرو ہے اور اللہ کے دربار میں بھی‘ جو سب کامیابیوں سے بڑی کامیابی ہے۔ اس حال میں وہ دنیا سے اٹھا کہ ایک عالم نے اس پہ رشک کیا اور ایک دنیا ہمیشہ اس پہ رشک کرے گی۔شاید اس کی کتاب کا ہر قاری۔
مشکلات تو ہر حال میں ہمیشہ رہتی ہیں۔ ابتلا اور آزمائش سے کسی کو مفر نہیں۔ پیغمبرانؑ عظام کو بھی نہیں۔ آدمی یا تو آپ اپنے ضمیر کی آواز سنتا اور اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑاہوتا ہے یا دنیا سے سمجھوتہ ۔ ایک کے بعد دوسری مصلحت اختیار کرتا‘ زندگی سے کہیں دور جا پڑتا ہے۔
وزیراعظم سمیت ہم سب کو ‘سب سے زیادہ ضرورت خود احتسابی کی ہے۔ باقی تفصیلات ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved