تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-04-2019

ایک سجدہ

بورے والا سے چیچہ وطنی پہنچنے تک مغرب کی نماز ہوچکی تھی۔اسلام آباد سے بورے والا جاتے ہوئے چیچہ وطنی بازار میںایک صاف ستھرااورکشادہ پٹرول پمپ نظرآیا‘جہاں ہم نے بریک لگائی‘ سامنے کرنل ریٹائرڈسعید اکرم سلیقے سے آراستہ دفتر میںبیٹھے تھے۔فریش اپ ہونے کے لیے کرنل صاحب نے اندر بلایااورپھرتازہ کینو سے‘ سٹاف سمیت ہم سب کی تواضع کی۔کہنے لگے: آپ کے گرایں جنرل ظہیرالاسلام میرے کورس میٹ ہیں۔اس پمپ کے مغربی کونے پر کرنل صاحب نے بہت دل آویزمسجد بنا رکھی ہے۔
واپسی پر رکے تو کرنل صاحب لاہور جا چکے تھے۔جو اگلی بات کہنے جا رہا ہوں‘ کاش !وہ بات میں آپ سے پوری شیئر کرسکتا۔رجانہ کے قریب بھائی قمرکافون آگیا۔درویش صفت چوہدری قمر۔کچھ ہفتے پہلے بھائی قمرسے ملنے گیا تو وہ بکر ے کا بھُنا ہوا گوشت تقسیم کررہے تھے۔یخ بستہ موسم اور مسلسل بارش کا دوسرادن تھا ۔سوالیہ نظریں دیکھ کر کہنے لگے: صبح باورچی نے خلافِ معمول یہ کہا کہ جاڑے کی اس جھڑی میںبھُنا ہوا''باکرہ گوشت‘‘ لذت اور توانائی دونوں دیتا ہے۔باورچی کا یہ عندیہ سُن کر مجھے خیال آیا‘ باورچی کی طرح باقی اردگردوالے بندگانِ خدا بھی اس ڈش پر ایسے موسم میںشاد ہو سکتے ہیں؛چنانچہ 48کلو گوشت منگواکرسب کو شریکِ ماحضر کرلیا‘پھر قمر بھائی نے درویش کا قصہ چھیڑ دیا۔جواپنی ترشید کرنے والے کے ہمراہ انارکلی گئے۔رکشے سے اُتر کر مُرشّد چل پڑے‘ مگردرویش پیچھے رہ گیا۔ہانپتے کانپتے دوڑکر پہنچے تو مرشد نے پوچھا :کہاںچلے گئے تھے؟جواب آیا: رکشے والے کو کرایہ دینے کے لیے '' بھان‘‘یعنی ریزگاری ڈھونڈنے گیا تھا۔کرایہ 2روپے طے ہوا تھا اور میرے پاس 5کا نوٹ تھا۔مرشد نے بے پرواہی سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے پنجابی میں کہا: ''پنج ای دے دیندا‘‘۔درویش نے جواب دیا کرایہ 2روپے بنتا تھا۔جواب آیا تو کیا ہوا؟مرشد پھر بولے: تو پانچ دے دیتا۔درویش نے اصرار کیا جی کرایہ تھا ہی 2روپے‘جب تیسری بارکہا گیا تو مرشد بولے: 5ہی دے دیتے۔کون سا تمہارے ہیں ‘تم نے دیے ہوئے میں سے ہی دینا تھا۔تب درویش کومرشد کی رمز سمجھ آئی واپس مُڑ کردیکھا تورکشے والا جا چکا تھا۔مرشد بولے ''دے دینڑے سنڑ ناں‘ہن نہیں اوہ لبھنا‘‘۔رومیِ پوٹھوہار میاں محمد بخشؒ نے یہی راز یوں افشا کیا:
مرد ملے تاں درد نہ چھوڑے‘ اوگن دے گُن کردا
کامل مرد محمد بخشا لعل بنان پتھر دا
قمر بھائی پوچھنے لگے :اس وقت آپ کہاں ہیں؟میں نے لوکیشن بتائی ۔انہوں نے ایک عجیب سوال پوچھ لیا:بھائی صاحب کیا آپ نے کبھی 11منٹ کاسجدہ کیا ہے؟پہلے مجھے ان کی بات سمجھ نہیں آئی پھر انہوں نے ہڈ بیتی سنانا شروع کردی۔تقریباًسال پہلے کا واقعہ ہے۔ بولے میرا ایک مخالف بزنس مین حالات کے شکنجے میںآگیا۔میری اس سے دلی رنجیدگی تھی۔جب اس کے دلدّر کا احوال سُنا تودل کو عجیب کمینی سی خوشی ہوئی؛چنانچہ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ہوا بہت اچھا ہوا ‘ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔پھروقت کا پہیہ کیسے اُلٹا چلنا شروع ہوگیا۔ صرف ایک مہینے کے اندر مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا۔غیر متوقع اور پریشان کن۔وہ ہاتھ جن کی کیمیا گری سے مٹی سونا بنا کرتی تھی اب ان ہاتھوں نے پارس کو خاک بنانا شروع کردیا۔میں گہری سوچ میں پڑ گیا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے‘ جس کے باعث سب جہانوں کے بادشاہ کی مہربانیاںدست کش ہو رہی ہیں۔کافی سوچ بچار کے بعدمجھے اپنی ہی بدخواہی والی گفتگویاد آگئی۔شام ڈھلے میں گھر کے ٹیرس پر چڑھ گیا۔سجدہ ریز ہو کر ربِ ذوالجلال کے حضور گڑگڑانا شروع کردیا۔میرے رب تو ان پر بھی مہربانیاں کرتا ہے‘ جوتیرے تابع فرمان ہیں ‘مگر نافرمانوں پربھی رزق‘ہوا‘روشنی‘صحت‘اولاد جیسی نعمتوں کے دروازے بند نہیں کرتا۔اے عیسیٰؑ‘موسیٰؑ اور ابراہیمؑ کے رب‘ تجھے محمدﷺکی یتیمی کا واسطہ میری خطا معاف کر دے۔مجھے بخش دے ۔مجھ پر رحم فرمااورپھراس توبہ کی قبولیت اور معافی کا پروانہ آگیا ۔جو در بند تھے‘ ایسے وَا ہوئے‘ جیسے بندش سے نا آشنا ہوں۔کچھ دیر کے لیے دوسری طرف سے آواز نہیںآئی‘قدرے توقف کے بعدقمربھائی پھر بولے :غلطی جتنی بھی شدید ہو وہ رحمن اور رحیم مان جاتا ہے۔اس گفتگو سے مجھے پنجابی اور اردوزبان کے دوآئی کونک شاعر یاد آئے۔بُلھے شاہ نے حضوری کے لیے رقصِ درویش والا راستہ اپنایا‘ جسے انگریزی میں(Whirling sufi )کہتے ہیں‘جبکہ دوسرا خاکسار اور خاکبازساغرؔصدیقی۔؎
آئو اِک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
پھر سب سے بڑھ کرعظیم مفکر ‘شاعر حضرتِ علامہ اقبالؒ ۔علامہ صاحب کچھ یوںفرماتے ہیں۔؎
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
قمر بھائی کی اس گفتگو نے میرے دل میں ایک نئی جوت جگادی۔سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔اگر ذرا غور کریں توسجدے کا (Posture)مکمل بے اختیاری‘عاجزی‘انکساری‘عبدیت‘وارفتگی کی کیفیت کا نام ہے۔ ہر سجدے سے پہلے اور ہر سجدے کے بعد اللہ اکبر کہتے ہیں‘جواس بات کا اعلان ہے کہ ہم صرف ایک رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیںاور ہر حال میں اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ایسی کیفیت کہ جب سجدہ ہواس اعلان کے ساتھ کہ اللہ سب سے بڑا ہے تو پھر دنیااور ما فی ھا‘ یعنی پوری دنیاداری سے اور اس کی دلچسپیوں ‘بلکہ آسائشوں اور آلائشوں دونوں سے ربط کٹ جاتا ہے۔حضرت علامہ اقبالؒ نے اس مضمون کو یوں باندھا ہے۔؎
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ساڑھے 3/4عشروں کی رفاقت میں قمربھائی پہلی بار اتنابولے:دل کی بات‘دل کاموضوع اور دل کی دنیا‘ایساسمندر ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔فون بند کرنے سے پہلے قمربھائی نے کہا:وہ بادشاہ ہرطرح سے راضی ہوجاتا ہے۔حضرت اقبال ؒپھریادآئے۔؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں‘ کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کِسے‘ رہرو منزل ہی نہیں
میں مسجد کے اندر چلا گیا‘ جہاں سُرخ قالین سے بنی صفیں بچھی تھیں۔محراب کے اندرمسجد کے لیے علیحدہ سے عام سی جائے نمازدھری تھی۔اگلی صف اورمحراب والی جائے نماز کے درمیان عموماً جگہ خالی ہوتی ہے‘ لیکن اس جگہ پربڑی موٹی جائے نماز رکھی تھی‘جس کے نیچے اضافی چیز نرم و گدازفیلنگ بھی۔مسجد خالی تھی میں نے مغرب کی نماز پڑھی اور دعا کے لیے بیٹھ گیا۔کاش!اس سے آگے کی کیفیت کومیں لفظوں کا لبادہ پہنا سکتا...
کافی دیر بعد مجھے درودشریف کی آواز سنائی دی۔یوں لگا ‘جیسے کوئی صاحب میرے عین پیچھے تھے۔میں نے منہ پر ہاتھ پھیرے۔محراب کے ساتھ لگی مسجد کی گھڑی پروقت دیکھا کافی ٹائم گزر چکا تھا۔میں اٹھا میرے سٹاف کے دولڑکے منشی شبیراورسکیورٹی انچارجAJباہرکھڑے تھے۔مسجد میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔؎
غم کے ماروں کا آسرا تم ہو
تاجداروں کا آسرا تم ہو
دردمندوں سے پیار ہے تم کو
غمگساروں کا آسرا تم ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved